29 January, 2011

’’اسلام اور ماحوليات‘‘

پرواز رحمانی
ایڈیٹر دعوت دہلی
’’اسلام اور ماحوليات‘‘

يہ برطانوي ولي عہد شہزادہ چارلس کے ايک تاريخي مقالے کا عنوان ہے جو انہوں نے آکسفورڈ کے مرکز اسلامي مطالعات ميں پيش کيا۔ مشہور عالم آکسفورڈنيورسٹي ميں اسلامي سنٹر کا قيام 1993ء ميں عمل ميں آيا تھا اور اس کا افتتاح پرنس چارلس ہي نے کيا تھا۔ آکسفورڈ کايہ سنٹر دنيا کا ايک باوقار عالمي سنٹر ہے جس ميں اسلامي تعليمات واحکامات کامطالعہ معروضي طور پر عرض حاضر کي ايجادات اور انساني ضروريات کي روشني ميں کياجاتا ہے۔ يہ سنٹر ہر سال کسي خاص موضوع پر ايک کلچر کا اہتمام کرتا ہے جس کے لئے کسي بڑي اور معروف عالمي شخصيت کو مدعو کيا جاتاہے۔ پہلا لکچر پرنس چارلس ہي کا ہوا تھا جو انہوں نے ’’اسلام اور مغرب‘‘ کے موضوع پر 27اکتوبر کو 1993ء کو جاري کياتھا۔ اِس دوران افريقي رہنما نيلسن منڈيلا سميت کئي بين الاقوامي شخصيات نے لکچرس جاري کئے ہيں۔ تازہ ترين لکچر ميں پرنس چارلس آف ديلس نے 9 جون کو جاري کيا۔ يہ وقت کے ايک اہم ترين موضوع يعني ماحوليات پر ہے۔ اس کا تناظر زلزلے جيسي قدرتي آفات سے لے کر گلوبل وارمنگ جيسي انسان کي لائي ہوئي آفت ہے۔ ماحول کو ان آفات سے نکالنے اور آئندہ محفوظ رکھنے کے لئے دنيا کے سائنسداں سرگرداں ہيں۔

پرنس کا تجربہ اور مشاہدہ

لکچر جاري کرتے ہوئے پرنس نے سب سے اہم بات يہ بتائي کہ اسلام واحد دين ہے جو ماحوليات سے بحث کرتے ہوئے اس سلسلہ ميں انسانوں کي رہنمائي کرتا ہے۔ اسلام کے سوا کوئي بھي مذہب ماحوليات (اِنوائرنمنٹ/پرياورن) سے بحث نہيں کرتا۔ اس موضوع پر مذاہب عالم بالعموم خاموش ہيں۔ قرآن ميں جابجا ماحوليات کا ذکر ہے پرنس کے مطابق مسلم ممالک ميں جہاں جہاں ماحوليات سمندري مخلوقات وحدنيات اور جنگل جانوروں کي نسلوں کے تحفظ کے لئے قرآني تعليمات کے حوالے سے کام کياگيا، مقصد ميں نماياں کاميابي ملي۔ انڈونيشيا اور ملائشيا ميں شيروں کي نسلوں کو بچانے کے لئے جب شکاريوں کو قرآني تعليم کے حوالے سے سمجھايا گيا کہ شکار سے باز رہيں تو انہوں نے جانوروں کا شکار بند کرديا۔ پرنس چارلس نے اپنے حاليہ دورۂ افغانستان کا ذکر کرتے ہوئے بتايا کہ وہاں مکانوں خاص طور سے اسکولوں کي عمارتيں بالعموم مٹي کي اينٹوں سے بنائي جاتي ہيں جو گرميوں ميں گرمي سے اور سرديوں ميں سرديوںسے مکينوں کو محفوظ رکھتي ہيں۔ اہم بات يہ کہ کمپيوٹرس اور ديگر جديد ذرائع تعليم بخوبي کام کرتے ہيں۔ نيز يہ عمارتيں زلزلوں سے بھي بڑي حد تک محفوظ رہتي ہيں۔ پرنس نے بتايا کہ يہ سادگي اور کفايت شعاري اسلامي تعليم کا نتيجہ اور روايتي تہذيب وجديد ضروريات کا امتزاج ہے۔

مسائل کے حل کے ذرائع کيا ہوں؟

باخبر افراد جانتے ہيں کہ شہزادہ چارلس ايک سنجيدہ اور حق گو شخصيت ہيں۔ مذاہب کا تقابلي مطالعہ ان کا خاص موضوع ہے ۔ بڑے عالمي مذاہب پر ان کي گہري نظرہے ليکن غالباً اسلام کا مطالعہ اپنے معاونين کي مدد سے وہ زيادہ دلچسپي اور گہرائي کے ساتھ کرتے ہيں اور حسب موقع جرأت مندانہ اظہار خيال بھي کرتے ہيں۔ 3991ء کے آکسفورڈ مقالے ميں انہوں نے برملا ثابت کيا تھا کہ ’’آج اہل مغرب طب وسائنس کے جن کارناموں کا کريڈٹ ليتے ہيں، ان کي اساس ماضي کے مسلم محققين وموجدين کے کارنامے ہيں۔‘‘ چارلس کے انہي بے باکانہ خيالات کي وجہ سے فري ميسن والے انہيں پسند نہيں کرتے، دوسري ايجنسياں بھي ان کے پيچھے پڑي ہتي ہيں۔ پرنس کو انساني مسائل ومشکلات اور ان کے حل سے بہت دلچسپي ہے اور ان مسائل کا حل وہ روايتي ،قدرتي اور تاريخي ذرائع سے چاہتے ہيں کيونکہ جديد ايجادات سے، جو بظاہر انساني خدمت کے لئے موجود ميں لائي گئي ہيں ، ليکن في الحقيقت انساني وجود اور اس کے اخلاق وکردار کے لئے تباہ کن ہيں، وہ بيزار ہيں۔ اپنے اِسي ذہن ومزاج کے تحت وہ مذاہب عالم بالخصوص اسلام وقرآن کے مطالعہ ميں دلچسپي رکھتے ہيں۔ مسلم اہل علم کو ان سے ربط رکھنا چاہئے۔

No comments:

Post a Comment

Followers