20 January, 2011

امت کی بیٹیاں

امت کی بیٹیاں
سعید جاوید مغل
وہ عظیم بیٹی جس کی آمد پر ر حمت العالمین ﷺ خود اٹھ کر کھڑے ہو جائیں اور ان کا استقبال ان کی پیشانی پر بوسہ رسول صلی علیہ وسلم سے ہو، وہ ماں جس کے دونوں بیٹے حسن اور حسین جنت کے سردار ہوں اور جس کے خاوند کو کرم اللہ وجہہ کہا جائے۔ اللہ اکبر کیا مرتبہ اور مقام ہے۔ فاطمہ بنت محمدبن عبداللہ، بنت رسول صلی علیہ وسلم جن کو اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا تھا اے فاطمہ آپ کی ملاقات سب سے پہلے مجھ سے جنت میں ہو گی۔
عورت کی حیاہ اور پردہ کے اہتمام کا نام فاطمہ بنت محمد ﷺ تھا، آپ کی حیاہ کا یہ عالم تھا کہ ابھی آپ سن بلوغت کو بھی نہ پہنچی تھیں کہ سوئی دھاگہ طلب کرنے پر آپ نے سوئی میں دھاگہ ڈال کر سوئی کو ایک اور کپڑے پر لگایا اوربند دروازہ کے پیچھے سے آپ نے اس کپڑا کو دروازہ میں موجود ایک سوراخ سے باہر کی طرف بڑھا دیا تاکہ کوئی ان کا ہاتھ نہ دیکھ سکے۔
فاطمہ بنت رسول صلی علیہ وسلم اپنے والد ر حمت العالمین ﷺ کی اس دنیائے فانی سے رحلت کے بعد اکثرغمگین رہتی تھیں، ان کا دل اپنے بابا ﷺ کے بغیرقرار نہیں پاتا تھا اور اس غم کے ساتھ ان کو ایک اور غم بھی تھا جس کے فکر میں وہ ہمیشہ رہتی تھیں۔ اس غم فکر پر بھی ان کو کوئی بات سجائی نہیں دیتی تھی ان کی آنکھیں اس غم فکر کے حل کے لئے متلاشی رہتی تھیں گو اس غم فکر کے متعلق وہ اپنے شوہر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو آگاہ فر ماچکی تھیں جو ان کی زندگی کے بعد کیلئے وصیت تھی لیکن اس وصیت کا ایک پہلو ابھی تک وہ نا مکمل سمجھتی تھیں اور اس کے متعلق وہ رنجیدہ رہتی تھیں اور ان کا دل قرار نہیں پاتا تھا۔
فاطمہ بنت رسول صلی علیہ وسلم نے اپنی وصیت کے متعلق حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو فرمایا
* میری وفات کے بعد میری جسم کو آپ نے خود اکیلے غسل دینا ہو گا ۔
* مجھے کفن بھی آپ نے پہنانا ہو گا۔
* میرا جنازہ رات کی تاریکی میں میرے گھر سے اٹھایا جائے۔
ان تین باتوں کی وصیت کے بعد بھی، ان کو ایک بات کا فکر لاحق تھا، جس کا وہ اظہار نہیں کر پا رہی تھیں لیکن اللہ سبحان تعالیٰ کو ان کے دل میں ملال کا علم تھا اور اللہ اپنی رحمت سے وہ وقت لے آیا کہ فاطمہ بنت رسول صلی علیہ وسلم کے چہرہ انوار پر افتخار نے جگہ لے لی۔
آپ ایک عورت کی فوتگی کے وقت وہاں تشریف لے کر گئیں اور جب اس عورت کو کفن دے دیا گیا تو اس کے بعد اس فوت ہونے والی کی میت کو قبرستان لے جانے والی چارپائی پر ڈالا گیا تو اس کے بعد چند عورتوں نے اس میت کے اوپر چند خشک ٹہنیاں ڈال کر اس کے اوپر چادر ڈال دی۔
آپ نے ان عورتوں کو پوچھا کہ یہ کس لئے تو ان عورتوں نے آپ سے عرض کیا کہ ہم حبشہ کی عورتیں ہیں اور ہمارے ہاں اسی طرح عورت کی میت تیار کرنے پر کیا جاتا ہے اور وہ اس لئے کہ کوئی یہ نہ جان سکے کہ فوت ہونے والی عورت کی جسم کی کیا جسامت تھی آیا وہ عورت جسم کی فربہ تھی یا دبلی پتلی تھی ۔ آپ نے جب ان کا یہ جواب سنا تو آپ کے چہرہ مبارکہ پر ایک تبسم آ گیا، یہی وہ فکر تھا جوآپ کو لاحق تھا کہ نہ مجھے کسی نے دیکھا اور نہ وہ چاہتی تھیں کہ ان کی فوتگی کے بعد بھی ان کو کوئی کفن کی حالت میں کوئی نہ دیکھے۔ ان کو اپنے فوت ہونے کے بعد بھی اپنے جسم کی حیاء کا فکر لاحق تھا۔ آپ جب اپنے گھر واپس تشریف لائیں تو آپ نے دوبارہ اپنی وصیت کے متعلق حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو فرمایا۔
* میری وفات کے بعد میری جسم کو آپ نے خود اکیلے غسل دینا ہو گا ۔
* مجھے کفن بھی آپ نے پہنانا ہو گا۔
* میرا جنازہ رات کی تاریکی میں میرے گھر سے اٹھایا جائے۔
* میرا جنازہ جب تیار ہو جائے تو میری میت پر سوکھی ٹہنیاں ڈال کر اس کو ایک چادر سے دھانپ کر پھر قبرستان لے جایا جائے تاکہ کوئی میرے کفن کو نہ دیکھ سکے۔
تقریباپچھلے تین ماہ سے امت کی بیٹیاں، حفضہ مدارس کی زیر تعلیم بچیاں ہاتھوں میں لاٹھیاں لئے مدرسہ سے باہر سٹرک پر آ نکلی ہیں لیکن کسی کو بھی اس بات کا احساس نہیں کہ وہ ان کا کچھ مداوہ کر سکیں۔ میں ہر روز اس کے حوالہ سے ایک نئی تصویر دیکھتا ہوں اور ہر روز کی یہ تصویر میرے لئے ایک نئی کہانی لے کر آتی ہے۔ میں اگر ان روز کی تصویروں کو جمع کرکے دیکھوں تو ان تصویروں سے تو کچھ اور ہی تصویری کہانی بنتی ہے۔قطع نظر کہ اس کے اس سارے معاملات کے کیا محرکات ہیں لیکن امت کی بیٹیوں کو اس طرح سڑکوں پر لا کر ہم کو ن سا دین فتح کرنے جا رہے ہیں۔ چند دن پہلے ان بیٹیوں کے پاس بغیر رنگ کی ہوئی لاٹھیاں تھیں ان جو ان کے ہاتھ میں لاٹھیاں ہیں ان پر سرخ رنگ چڑھا ہوا ہے۔
مجھے تو اس سلسہ کی دو تصویریں دیکھ کر کھٹکا لگا تھا، ان میں ایک تصویر چند دن پہلے ہی ہے۔ اس دینی مدارس کا ایک طالب علم ہاتھ میں ایک ایسا حربی ہتھیار لے کر جا رہا ہے کہ اس کو ایک لاٹھی پر لگا کر لڑائی کی جا سکتی ہے اس بالے کے آگے والے حصہ کے تین نوک دار منہ ہیں۔ دینی مدارس کے طالب علم اس کا استعمال کس پر کریں گے اور حالیہ کی جو تصویر ہے، مسجد کی چھت پر دینی مدارس کے نوجوان حربی مشقیں کر رہے ہیں۔
یہ کیا ہے، ملک میں جہاد کا اعلان ہو گیا ہے۔ مسجدوں میں لوگوں نے ظلم کے خلاف کیا اذانیں دینا شروع کر دی ہیں۔ دینی طبقہ کو اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہیے نہ کہ وہ ملکی سیاست کا حصہ بن کر کسی اور کے کھیل کواپنا کھیل نہ بنائیں۔یہ بات اکثر لوگوں پر اعیاں ہے کہ دینی مدارس کی اکثریت مذہبی لوگوں کی ذاتی انسٹالیشن ہے جو انہوں نے اپنے اہل وعیال کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے کی ہوئی ہیں، ان میں چند ہی ہیں جو کسی ٹرسٹ اور بورڈ کی ملکیت ہیں۔
امت کی ان بیٹیوں کو اسوۃ البنت رسول اللہ صلی علیہ وسلم سکھائیں جو اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ ان کو کوئی ان کے گھر سے باہر نہ دیکھے،ان بیٹیوں کو واپس ان کے محفوظ مقام پر لے جائیں یہ مقام ان کے گھر کی چاردیواری ہے ۔ کیا دین اب صرف جگ ہنسائی کے لئے رہ گیا ہے؟

No comments:

Post a Comment

Followers