21 September, 2011

دعا کی قبولیت کی شرائط/فلسفہ قربانی اور شہادت حسین/نیچی نگاہیں

دعا کی قبولیت کی شرائط

محمد رفیق اعتصامی

اسلام امن وسلامتی کا مذہب ہے ۔ اسکے اصول سادہ اور آسان فہم ہیں ۔ اور بنی نوع انسان کو رشدو ہدایت کا سبق دیتے ہیں یہ ایک ایسا مذہب ہے جو خدا اور بندے کے درمیان براہ راست تعلق پیدا کرتا ہے۔ کہ بندہ جب بھی ایک عاجز و لاچار مخلوق ہونے کی حیثیت سے اس شہنشاہ مطلق کے حضور عرض گزار ہوتا ہے۔ اس کی طرف سے بندہ کی پکار کا فوراًجواب دیا جاتا ہے۔ اس کی حاجت برآری کی جاتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (ترجمہ) ’’ مجھ سے دعا کرو میں قبول کرونگا‘‘ اور فرمایا اے نبیؐ ! جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق سوال کریں (کہ میں کہاں ہوں) تو میں توان کے قریب ہوں جواب دیتا ہوں پکارنے والے کی پکار کا جب بھی وہ مجھے پکارے پس انہیں بھی چاہیے کہ وہ میری بات کا جواب دیں۔ مجھ پرایمان لائیں تاکہ فلاح پائیں (البقرہ : 186)۔

یہ دنیا دار التکلیف اور آزمائش کا گھر ہے یہاں انسان کو ہر قسم کے اچھے برے حالات سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ لہذا زندگی کے نشیب و فراز انقلاب زمانہ ناکامیوں سے اور مایوسیوں سے گھبراجانا ایک فطری امر ہے۔ بقول غالب ۔۔۔

کیوں گردش مدام سے گھبرانہ جائے دل

انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں

مگر ایسے دل گرفتہ حالات میں خدا نے انسان کودعا کا سہارا دیا ہے کہ وہ جب کسی مصیبت کے عالم میں خدا کو پکارتا ہے تو اسے سکون مل جاتا ہے۔ کیوں کہ خدا تعالیٰ انسان کا سچا دوست ہے جو ہر لمحہ اس کی مدد کرتا ہے۔ (چنانچہ فرمایا (ترجمہ) ’’ قائم رکھو نماز اور دیتے رہو زکوۃ اور مضبوط پکڑو اللہ کو وہ تمہارا دوست ہے تو کیا ہی اچھا دوست اور کیا ہی اچھا مددگار ہے ‘‘ (17:78)سرور کائنات ﷺکا ارشاد گرامی ہے کہ ’’ خدا سے دعا کرو اس حال میں کہ تمہیں اس کے قبول ہونے کا یقین ہو‘‘ (احمد ابو داؤد نسائی)فرمایا کہ ‘‘ جو شخص خدا کے حضور دست سوال دراز نہیں کرتا تو وہ اس سے ناراض ہوتے ہیں ۔۔۔

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں

راہ دکھلائیں کسے کوئی راہ رو منزل ہی نہیں

مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ دعائیں تو لوگ خدا سے مانگتے ہی رہتے ہیں بلکہ نہایت خشوع خضوع اور گڑ گڑ ا گر دعا مانگتے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ اکثر لوگوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں اور وہ اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہتے ہیں ؟ ا س کا جواب یہ ہے کہ اصولی طور پر دعا کے قبول ہونے میں کوئی شک نہیں مگر اس کی کچھ شرائط ہیں اور کچھ صورتیں ہیں جو علماء نے تحریر کی ہیں کہ دعا کس صورت میں قبول ہوتی ہے جو مندرجہ ذیل ہیں ۔

قبولیت دعا کی اہم شرط یہ ہے کہ صاحب دعا رزق حلال کماتا ہوا حکام شرع کا پابند ہو اور حقوق العباد کا خیال رکھتا ہو حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک شخص خدا سے دعا کرتا ہے مگر اس کا کھانا حرام ہے اور لباس حرام کی کمائی سے بنا ہوا ہے اور وہ کہتا ہے۔۔۔۔۔۔یا اللہ یا اللہ تو اس کی دعا کیسے قبول سکتی ہے؟ تاوقتیکہ وہ حرام کھانے سے توبہ نہ کرے اور دوسری شرط یہ ہے کہ دعا کرنے سے پہلے خدا تعالیٰ سے توبہ و استغفار کیا جائے اپنے گناہوں پر نادم ہو اور دوبارہ انہیں نہ کرنے کا عہدہ کیا جائے۔ آنحضرت ﷺ کا فرمان ہے کہ میں روزانہ اپنے رب سے سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں ‘‘ (صحیح بخاری )

اور دعا کی قبولیت اس طرح ہوتی ہے کہ کبھی تو بعینہ وہی چیز عنایت کر دی جاتی ہے جس کے لئے دعا کی گئی ہے۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ اگر باری تعالیٰ اپنے علم محیط کی رو سے یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہی چیز دے دی جائے جو مانگی گئی ہے تو یہ صاحب دعا کے لئے نقصان دہ ہے۔ تو اس چیز کے بدلہ میں کوئی اور چیز دے دی جاتی ہے۔ جو اس سے بہتر ہوتی ہے ۔اور تیسری صورت یہ ہے کہ اس دعا کوآخرت میں ذخیرہ کر دیا جاتا ہے کہ اس کا ثواب آخرت میں عطا کیا جائے گا اور قبولیت دعا کی تیسری صورت یہ ہے کہ اس دعا کے بدلہ میں آدمی کے گناہ محو ہو جاتے ہیں یا اس کے درجات بلند کر دیئے جاتے ہیں یا کوئی بلا اور مصیبت جو اس شخص پر آنے والی تھی ٹال دی جاتی ہے بہرحال دعا کبھی رائیگاں نہیں جاتی کیوں کہ خدا تعالی ہر چیز پر قادر ہے اور مسبب الاسباب ہے اور اس نے خود ہی فرمایا کہ ’’ مجھ سے دعا کرو میں قبول کرونگا‘‘ (شرح عقائد از علامہ تفتازانی)۔

واضح رہے کہ دعا کی جو شرائط تحریر میں لائی گئی ہیں ان سے لازم نہیں آتا کہ گناہ گار شخص خدا سے دعا ہی نہیں کر سکتا کہ ایک شخص دن رات گناہوں میں غرق ہے وہ یہ سوچ کر میں تو گناہ گار ہوں پتہ نہیں خدا تعالی میری سنتے بھی ہیں کہ نہیں وہ خدا سے دعا ہی نہیں کرتا یہ بات غلط ہے گناہ گار کی طرف تو خدا کی رحمت اور بھی زیادہ متوجہ ہوتی ہے بشرطیکہ وہ صدق دل سے دعا کرے حدیث قدسی میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اگر ابن آم مجھے اس حال میں ملے کہ اس کے گناہ زمین و آسمان درمیانی فاصلے کو پر کرتے ہوں تو میں اسے بخش دونگا بشرطیکہ اس نے میرے ساتھ شرک نہ کیا ہو۔ (المشکوٰۃ المصابیح)ہر حال خدا کی رحمت گناہ گار کی طرف بھی ایسے ہی متوجہ ہوتی ہے جیسے کسی صالح آدمی کی طرف البتہ دعا کے جملہ آداب کا خیال رکھنا ضروری ہے ورنہ یہ تو اسی کی ذات والا صفات کی بے پایاں رحمت و جود و سخا ہے کہ وہ بڑے سے بڑے عاصی کو بھی اپنی آغوش رحمت میں لے لیتا ہے وللّٰہ درمن قال

اے برتراز خیال و قیاس و گمان و وہم

وزیر ہرچہ گفتہ اندو خواندہ ایم

دفتر تمام گشت وبپایاں رسید عمر

ماھمچناں در اول وصف توماندہ ایم

حدیث:، آنکھ بھی زنا کرتی ہے،زبان بھی زناکرتی ہےاورشرمگاہ اسکی تصدیق یاتکذیب کرتی ہے(المشکوٰۃالمصابیح)

تشریح۔۔۔۔آنکھوں کا زنا کسی نا محرم عورت کوبنظر شہوت دیکھنا ہےاورکانوں کا زنا فحش اورگندی باتوں کاسنناہے اورزبان کا زنافحاشی اوربےحیائی کی باتیں کرناہے اورشرمگاہ کی تصدیق یا تکذیب سے مراد یہ ہے کہ اگر انسان زنا کاری میں ملوث ہو گیا تو آنکھ ،کان اور زبان کازناکرناثابت ہو گیااور اگر شرمگاہ زناکاری میں ملوث نہ ہوئی تو اللہ کی رحمت سے قوی امیدہے کہ وہ بقیہ اعضاءکی زناکاری کو معاف فرمادیں گے۔

آپPBUH)) نے فرمایا کہ جو عورت بناؤ سنگھار اورٹیپ ٹاپ کیساتھ (بغیر کسی ضرورت کے) گھرسے باہر نکلتی ہے تو لوگ اسکے بارہ میں طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں کہ یہ عورت ایسے ایسے ہے یعنی بدکار ہے۔

فلسفہ قربانی اور شہادت حسین

رضائے الہی تب ہی حاصل ہو سکتی ہے کہ جب اپنی محبوب اور پسندیدہ چیز کو اس کی راہ میں قربان کیا جائے۔ محبوب چیزیں کئی ہو سکتی ہیں مگر سب سے زیادہ پیاری چیزانسان کی اپنی جان ہے اس سے زیادہ پیاری کوئی اور چیز نہیں اور قاعدہ یہ ہے کہ جب جان خدا کی راہ میں قربان کی جاتی ہے تو وہ امر بن جاتی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ (ترجمہ) ‘‘ جو لوگ خدا کی راہ میں شہید کیے جائیں انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں مگر تمہیں اس کا شعور نہیں ۔ ‘‘ (القرآن) یعنی وہ ایسی زندگی ہے جس کی رفعت و بلندی کا تم تصور نہیں کر سکتے اور ایسی زندگی کو حاصل کرنے کے لیے جان کو کر ب و بلا کے مقام سے گزارنا ضروری ہے۔

اس پس منظر میں ہم جب شہادت حسینؓ کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اس شہادت سے ان کی مراد محض رضائے الہٰی تھی۔دنیاوی تاج و تخت مطلوب نہ تھا۔ حضرت امام حسینؓ جب مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے تو ذی حشم کے مقام پرحربن یزید بن تمیمی سے ملاقات ہوئی جو ایک ہزار کا لشکر اپنے ہمراہ لایا تھا اس نے آپ ؓ کو عبید اللہ بن زیاد کا حکم سنایا کہ ان کو کوفے بھیج دیا جائے۔ اس نے آپؓ کو کوفے لے جانے پر اصرار کیا۔ اس موقع پر کچھ تلخ کلامی بھی ہوئی ’ حر نے آپؓ کے رتبہ کا خیال رکھتے ہوئے نرمی اختیار کی اور مشورہ دیا کہ وہ حجاز اور عراق کی بجائے کوئی اور راستہ اختیار کر لیں۔ ممکن ہے کہ مفاہمت کی کوئی صورت نکل آئے۔ امام حسینؓ اس پر رضامند ہو گئے اور مقام بیضا میں پہنچ کر ایک ولولہ انگیز خطبہ ارشاد فرمایا اس کے مندرجات قابل غور ہیں۔

آپؓ نے فرمایا ’’ لوگو ! انحضرت ﷺنے فرمایا ہے کہ جس نے ظالم ‘ حرام کو حلال کرنے والے‘ خدا کے عہد کو توڑنے والے ‘ خدا اور رسول ﷺ کے مخالف اور خدا کے بندوں پر گناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اور اسے قولاً و عملاً اس پر غیرت نہ آئی تو خدا کو یہ حق ہے کہ اس شخص کو اس بادشاہ کی جگہ دوزخ میں ڈال دیں۔ لوگو ! خبردار ہو جاؤ ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت اختیار کی اور رحمن کی اطاعت چھوڑ دی ‘ ملک میں فساد برپا کیا ‘ حدود الہٰی کو معطل کیا ہے‘ مال غنیمت میں اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں‘ خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال اور حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام کر تے ہیں‘ اس لیے مجھ کو غیرت آنے کا زیادہ حق ہے‘‘۔ (تاریخ اسلام)

یہ خطبہ آپؓ کی اس عظیم قربانی کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتا ہے ۔ جو انہوں نے اسلام کی سربلندی کے لیے میدان کربلا میں پیش کی ۔ اس لیے کہ ظالم و جابر بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنے کا حق عمومی طور پر ہر مسلمان کے لیے ہے مگر نبی ﷺ کے اقرباء کے لیے یہ حکم خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ دین ہمیں انہیں کے واسطے سے ملا ہے اگر یہ حضرات احکام خدا وندی کے قائم کرنے میں اتنی سختی نہ دکھاتے تو آج دین مٹ چکا ہوتا ‘ دین کو حیات تازہ بخشنے کے لیے قربانی کی ضرورت ہوتی ہے۔

علامہ اقبال نے کیا خوب کہاہے۔۔۔۔۔۔

ٗٗ قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے۔

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

اس خطبہ سے مستشرقین کے ان باطل دعوؤں کی تکذیب ہوجاتی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ امام حسینؓ نے تخت و تاج کے حصول کے لیے یزید کے خلاف لشکر کشی کی۔ کیونکہ اگر فی الواقعی ایسا ہوتا تو وہ وقتی طور پر یزید کی بیعت کرکے باآسانی اپنی جان بچالیتے اور پھر کبھی موقع پاکر اس کے خلاف لشکر کشی کرتے۔ مگر انہوں نے اسلام کی سربلندی اور رضائے الہی کے حصول کے لیے سچائی اور راستی کے دامن کو ہاتھ سے نہ جانے دیاور جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔ بہرحال شہادت حسینؓ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ مالک حقیقی کی رضامندی کے لیے اگر جان کی بازی بھی لگانی پڑے تو دریغ نہ کرنا چاہیے

نیچی نگاہیں
ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’آپ (اے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم) ایمان والے مردوں سے فرمادیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں (اسی طرح آپٌ) ایمان والی عورتوں سے فرما دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں‘‘ (القرآن) ان آیات کریمہ میں مؤمن مردوں اور عورتوں کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم ہے وجہ یہ ہے کہ اگرنگاہیں نیچی ہوں گی اور انمیں شرم و حیا اور پاکیزگی ہو گی تو زناکاری کا دروازہ ہمیشہ کیلئے بند ہو جائے گا اور اسکی جڑ کٹ جائے گی کیونکہ اصل پردہ نگاہوں کا ہے اگر چہرہ نقاب سے ڈہکا ہوا ہو گا مگر نگاہیں بے باک ہوں گی تو کوئی فائدہ نہیں اس لئے نگاہوں کو نیچا رکھنا چاہئے اور ان میں پاکیزگی پیدہ کرنی چاہئے کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔
جنت کی ضمانت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مجھے دو باتوں کی ضمانت دے میں اسکو جنت کی ضمانت دیتا ہوں ایک زبان کی اور دوسری شرمگاہ کی (المشکوٰۃ) تشریح اسکی یہ ہے کہ انسان زبان سے اچھی بات کہ سکتا ہے مثلا اچھی بات کی نصیحت کرنا ، بری بات سے روکنا،ذکر و اذکار اور قرآن پاک کی تلاوت وغیرہم اسیطرح وہ زبان کا غلط استعمال بھی کر سکتا ہے مثلا کسی کو گالی دینا ، غیبت کرنا کا کسی کو برابھلاکہنا وغیرہ۔آنحضرتٌ نے فرمایا کہ انسان بعض دفعہ ایسی بات منہ سے نکال دیتاہے کہ اسکو پتہ نہیں چلتا کہ میں نے کیا کہ دیاہے اور ہو اسکی وجہ سے جہنم میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ اسی لئے علماء کرام کہتے ہیں کہ جب صبح ہوتی ہے تو جسم کے تمام اعضاء زبان سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ دیکھنا کوئی ایسی بات منہ سے نہ نکال دینا کہ جسکی وجہ سے ہم جہنم میں پڑ جائیں لہٰذا زبان کے صحیح استعمال کی کوشش کرنی چاہئے۔ اسی طرح شرمگاہ کوغلط کاری سے روکنا چاہئے کہ جوشخص ان دو باتوں کی ضمانت دے گا اسے جنت کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔
محمد رفیق اعتصامی
انسان خسارے میں ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے قسم ہے زمانہ کی انسان خسار ے میں ہے مگروہ لوگ جو ایمان لائے اور اچھے اعمال کئے او ر ایک دوسرے کو حق بات کی نصیحت کرتے رہے اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کرتے رہے‘‘ (العصر:پ۳۰)
ان آیات کریمہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے قسم کھانے کے بعد ارشاد فرمایا کہ دنیا میں جتنے بھی انسان ہیں وہ تمام کے تمام خسارے میں ہیں گھاٹے میں ہیں مگر چار قسم کے افراد اس ابدی اور دائمی نقصان سے بچے ہوئے ہیں یعنی(۱) وہ لوگ جواللہ تبارک وتعالیٰ پر ایمان لائے،اسکے ساتھ ساتھ اسکے فرشتوں پرایمان ، اسکی نازل کردہ کتابوں (تورٰۃ ،زبور ، انجیل اور قرآن)پرایمان،اسکے رسولوں پرایمان، یوم آخرت پر ایمان اورتقدیرپر ایمان لائے یعنی دین اسلام قبول کیا (۲)وہ لوگ جوایمان لانے کے بعد اچھے اعمال کرتے ہیں یعنی نماز روزہ حج زکوٰۃ وغیرہم (۳)وہ لوگ جوایک دوسرے کو حق بات کی نصیحت کرتے ہیں (۴)اور وہ لوگ جو ایکدوسرے کو صبر کی نصیحت کرتے ہیں۔
محمدرفیق اعتصامی

No comments:

Post a Comment

Followers