18 February, 2011

خطاط عورتیں

خطاط عورتیں


مردوں کی اجارہ داری کسی فن پر نہیں۔ عورتوں نے بھی فنِ خطاطی میں خوب قدم جمائے ہیں۔ ذیل میں مخزنِ خطاطی سے نقل شدہ ان خطاطات کا تذکرہ ہے جو گزشتہ دور میں تھیں۔ میں نے ایک عربی فورم پر کسی عورت کی کاوش دیکھی تھی اس نے معاصر خطاطات کا تذکرہ باتصویر کیا ہوا تھا۔ ان شاء اللہ پہلی فرصت میں ان خطاطات کے تذکرے کا ترجمہ کرکے اس بلاگ پر پیش کروں گا۔
کسی بھی موضوع  کو دل سے پڑھنے سے انسان کے سامنے بیش بہا مواضیع سامنے آتے ہیں جن پر وہ خود لکھ سکتا ہے۔ میرا وتیرہ یہی رہا ہے کہ جب میں مطالعہ کرتا ہوں تو اہم اور خوبصورت باتوں کو نوٹ کرلیا کرتا ہوں۔ اور پھر وہ لکھنے کے قابل ہوئیں تو ان پر مواد جمع کرنے بیٹھ جاتا ہوں۔ بہر کیف درجِ ذیل تذکرہ عورتوں کا ایک ہی کتاب سے مستخلص ہے اور وہ ہے خورشید عالم گوہر قلم کی  مخزنِ خطاطی۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں ان تمام مذکورہ شخصیات کو مفصل مطالعہ کرکے مزید کچھ لکھتا۔ لیکن وقت اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ بہر کیف امید ہے کہ آپ کو یہ انتخاب پسند آئے گا۔
(1) امۃ العزیز ساجدہ (2) امۃ اللطیف (3) امۃ المتین ثریا:
غالبا یہ تینوں بہنیں تھیں اور نستعلیق ونسخ بہت خوب لکھتی تھیں۔
(4) بادشاہ بیگم:
خفی تخلص۔ چھوٹی بیگم کی بیٹی تھیں جس کا ڈیرہ دلی میں یوسف والیوں کے نام سے مشہور تھا۔ مؤلف (تذکرۃ النساء) نے ان کے متعلیق لکھا ہے کہ زبان انگریزی سے بہرہ ور اور فارسی خوانی وخوش خطی میں صاحب ہمزہ ہے۔ میں نے اس کے ہاتھ کی تحریر انگریزی اور فارسی جلی قلم کی دیکھی ہے۔ سبحان اللہ خوب لکھتی ہیں۔ بہت سے لوگوں کو اصلاح دیتی ہیں۔
(5) جہاں آرا بیگم:
شہنشاہ شاہجہان کی بڑی لڑکی۔ اور عالمگیر کی بہن تھیں۔ خوشخطی میں ان کا مرتبہ استادانہ تھا۔ 1093ھ میں انتقال ہوا۔ حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی درگاہ میں ان کی قبر ہے۔ جس پر یہ شعر کندہ ہے:
بغیر سبزہ نہ بوشد کسے مزار مرا
کہ قبر پوشِ غریبان ہمی گیاہ بس است
(6) شاہزادی زیب النساء:
بنت شہنشاہ جہانگیر تھیں۔ تخلص مخفی تھا۔ بہترین شاعرہ وادیبہ اور عمدہ ترین خوشنویس تھیں۔ آقا عبد الرشید سے اصلاح لی۔ اور درجہ استادی تک خط نستعلیق کو پہنچادیا۔ ان کا دیوان طبع ہوچکا ہے۔ دوسری تصنیف فن انشاء میں زیب المنشات ہے۔ ان کی فنی اور شعری صلاحیتوں کا ایک عہد معترف ہے۔
(7) زینب شہدہ:
یہ احمد مفرج خراسانی کی صاحبزادی تھیں۔ حسن وجمال اور فضل وکمال میں شہرہ آفاق تھیں۔ اور خوشنویسی میں خوشنویسانِ عصر پر فضیلت حاصل تھی۔ متعدد قطعات ان کی یادگار ہیں۔ یاقوت مستعصمی نے تعلیم خط انہیں سے حاصل کی تھی۔ خطوطِ نسخ وثلث بہترین لکھتی تھیں۔ اسی 80 سال کی عمر میں 574ھ 1179ء میں انتقال ہوا۔
(8) سعید جہاں بیگم:
یہ اپنے عہد کی نامور خطاط تھیں۔ دہلی کی بہت سی خواتین کو تربیت دی۔
ان شاء اللہ بقیہ خواتین کا تذکرہ جاری رہے گا۔ اسی طرح دیگر خطاطوں کا تذکرہ بھی ہوگا جو کاتبان قرآن تھے۔ یا پھر نستعلیق میں ماہر تھے۔ اسی طرح ان لوگوں کا بھی تذکرہ ہوگا جو خوشنویس بھی تھے اور وزارت کے عہدے پر فائز تھے۔ نیز شاعر خوش نویس کا تذکرہ بھی ہوگا۔
(9) صفینہ:
اندلس کی وہ بلند مرتبہ خاتون جس کی نسبت صاحب ِ ( اسلامی کتب خانوں کی سیر) صفحہ 19 پر لکھتے ہیں کہ خطاطی میں بڑی ماہر تھیں۔ ان کی لکھی ہوئی کتابیں ان کے معاصرین کو محو حیرت بنادیتی تھیں۔
(10) نواب ملکہ جہاں:
محمد نواب علی شاہ کی ملکہ تھیں۔ خطِ نسخ میں کمال حاصل تھا۔ لکھنؤ وطن تھا۔ ایک قرآن مجید اور دو ڈھائی سو صفحات کی حضرت سیدۃ النساء کی سوانح عمری ان کا قلمی شاہکار ہے۔
(11) ملکہ نور جہاں:
مشہور ملکہ جہانگیر جو شاعر بھی تھیں اور اعلی درجہ کی نفاست پسند بھی۔ خطِ نستعلیق بھی نہایت نفیس لکھتی تھیں۔
(12) بادشاہ خاتون:
قطب الدین سلطان محمد کرمان کی بیٹی تھیں۔ اور خوشنویس وعالم فاضل شاہ زادی تھیں۔ اپنی بسر اوقات قرآن مجید کی اجرت کتابت سے زیادہ کرتی تھیں۔ مگر جب باپ کے بعد برسر اقتدار ہوئیں تو ارباب فضل وکرم کو نہال کردیا۔

No comments:

Post a Comment

Followers