25 February, 2011

نعت گوئی

نعت گوئی فن شاعری کے زیور کا نگینہ ہے۔نعت کا فن بہ ظاہر جس قدر آسان نظر آتا ہے بباطن اسی قدر مشکل ہے۔ ایک طرف وہ ذات گرامی ہے جس کی مد ح خود رب العالمین نے کی ہے، دوسری طرف زبان اور شاعری کے جمالیاتی تقاضے ہیں۔اس لیے نعت کا حق وہی ادا کر سکتا ہے جو جذبہٴ عشق رسول سے سرشار ہو اور یہ وصف وہبی ہے۔ بس جسے اللہ توفیق دے وہی نعت کہہ سکتا ہے ایک طرح سے یہی کہا جائے گا۔

    آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں 

سہ حرفی لفظ نعت ( ن ع ت ) عربی زبان کا مصدر ہے اس کے لغوی معنی کسی شخص میں قابل تعریف صفات کا پایا جانا ہے۔ یوں تو عربی زبان میں متعدد مصادر تعریف و توصیف کے لیے استعمال ہو تے ہیں۔ مثلاً حمد، اللہ جل شانہ کی تعریف کے لیے مخصوص ہے اور نعت حضور سرور کائنات صلعم کی تعریف و توصیف کے لیے مستعمل ہو کر مخصوص ہوئی۔

اسی طرح اردو شاعری میں نظم کی اصناف سخن میں نعت وہ صنف سخن ہے جس کے اشعار میں رسول مقبو ل صلعم کی تعریف و توصیف بیان کی جاتی ہے۔ اردو میں شاید ہی ایسی کو ئی صنف سخن ہو جس میں نعتیں نہ کہی گئی ہوں۔ اس کے لیے اس کے اسالیب طے شدہ نہیں ہیں۔ اس طرح سے اس کا دائرہ بھی بہت وسیع ہو جاتا ہے۔ مگر سب سے اہم تقاضا عشق رسول سے سرشاری کا ہے۔ شاہ معین الدین ندوی اپنی کتاب ”ادبی نقوش “ میں رقم طراز ہیں: 

”نعت کہنا آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔محض شاعری کی زبان میں ذات پاک نبی صلعم کی عامیانہ توصیف کر دینا بہت آسان ہے، لیکن اس کے پورے لوازم و شرائط سے عہدہ بر آ ہونا بہت مشکل ہے ․․․ حب رسول صلعم کے ساتھ نبوت کے اصلی کمالات اور کارناموں، اسلام کی صحیح روح، عہد رسالت کے واقعات اور آیات و احادیث سے واقفیت ضروری ہے جو کم شعراء کو ہوتی ہے۔ اس کے بغیر صحیح نعت گوئی ممکن نہیں۔ نعت کا رشتہ بہت نازک ہے۔ اس میں ادنیٰ سی لغزش سے نیکی برباد گناہ لازم آجاتا ہے۔ اس پل صراط کو عبور کرنا ہر شاعر کے بس کی بات نہیں۔ یہ وہ بارگاہ اقدس ہے جہاں بڑے بڑے قدسیوں کے پاؤں لرز جاتے ہیں۔ (ادبی نقوش صفحہ 284)

شاہ معین الدین ندوی نے نعت گوئی کے لیے شاعر کا صاحبِ بصارت اور صاحب بصیرت ہونا اولین شرط قرار دیا ہے۔ کیوں کہ حضور سرور کائنات صلعم کی ذات مقدس، نبوت اور عبدیت کے کمال پر خالق بی نازاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مدح رسول اور ذکر رسول کو اعلیٰ و ارفع قرار دیا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے، ’ورفعنا لک ذکرک‘ (اور ہم نے تمہارے ذکر کو بلند کیا)۔

خالق جس کی تخلیق پر نازاں ہوں اور مدح سرائی فرمائی ہو اس کی ثنا خوانی انسان سے کہاں ممکن ہے۔ کیوں کہ ذات مقدس کو وجہ تخلیق کائنات ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اس لیے الفاظ پر کتنی ہی قدرت کیوں نہ ہو شاعر اپنے آپ کو عاجز پاتا ہے اور یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ 
 بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر 

 نعت گوئی کی بنیادی شرط ہے کہ عشقِ رسول میں فنا ہو جانا اور فنا کس طرح ہو؟ ایک مجلس میں آں حضورصلعم نے ارشاد فرمایا کوئی انسان اس وقت تک مومن نہیں بن سکتا جب تک میری ذات اس کے لیے ماں، باپ، اولاد، سب سے زیادہ محبوب نہ بن جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ وہاں تشریف فرما تھے۔ 

انہوں نے عرض کیا کہ جناب والا کی ذات ستودہ صفات والدین اور اولاد سے زیادہ محبوب ہے، لیکن ابھی یہ کیفیت نہیں ہے کہ میں آپ کی ذات کو اپنی جان سے بھی زیادہ پیارا سمجھوں۔ حضور صلعم نے فرمایا کہ ابھی ایمان کی تکمیل نہیں ہوئی ہے۔ حضور صلعم کا فرمانا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ کے دل پر ضرب کاری لگی اور آں حضرتصلعم کی توجہ سے دل کی کیفیت بدل گئی۔ حضرت عمر نے عرض کیا کہ خدا کا شکر ہے اب دل میں کیفیت پیدا ہوئی کہ جناب صلعم کی ذات گرامی مجھے اپنی ذات سے بھی زیادہ محبوب ہے۔ آں حضرت صلعم نے فرمایا کہ اب تمہارا ایمان مکمل ہو گیا۔ 

اس فرمانِ نبوی صلعم کی رو سے ایک مومن کی تکمیل ایمانی کے لیے اس کے قلب کی یہی کیفیت ضروری ہے کہ اس کے اندر مکمل سپردگی ہو۔ 

نعت گوئی کا محرک قرآن کریم ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے حبیب لبیب کی شان میں جو الفاظ استعمال کیے اس کا ثانی تو ہو ہی نہیں سکتا۔انسان ضعیف البنیان کی کیا بساط ہے۔ جو لب کشائی کرے۔ ایک سچے عاشق رسول صلعم اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں بریلوی فرماتے ہیں:

قرآں سے میں نے نعت گوئی سیکھی 
 یعنی رہے احکام شریعت ملحوظ

مولانا رؤف امروہوی کہتے ہیں:
 
لکھوں کیا وصف شاہ انس و جاں سے 
زباں اللہ کی لاؤں کہاں سے 

علامہ محسن کاکوروی کہتے ہیں:
 
ادھر مخلوق میں شامل ادھر اللہ سے واصل 
خواص اس برزخِ کبریٰ میں ہے حرف مشدد کا

 ایک او رشاعر کا اعتراف ہے:

حدیثوں میں خدا کا ذکر ان کا ذکرقرآں میں 
خدا کے مدح خواں وہ ہیں خدا ہے مدح خواں ان کا 

جس کا ثنا خواں اللہ تعالیٰ ہے وہاں انسان کیا جسارت کر سکتا ہے؟لیکن اپنے محبوب کی مداحی کرنے سے خود کو روک بھی نہیں سکتا۔ اس لیے نعت کا ورودِ مسعود ہوا اور ہمارے شعرا نے ا س کے لیے آسمان سے زمینیں تراشیں۔ 

نعت گوئی کا آغاز حضورصلعم کی حیات و طیبہ میں ہو چکا تھا۔ اس ذیل میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ کا نام نامی اسم گرامی خصوصیت سے لیا جاتا ہے۔ جنہوں نے رسول اکرم صلعم کی شان میں بے شمار نعتیہ اشعار کہے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں دعا فرمائی۔ ان کے لیے اپنے سامنے منبر رکھوایا۔ اسی سے نعت گو کے اعلیٰ و ارفع مقام کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ 

حضورصلعم کی حیات و طیبہ کے دور میں جن صحابہ کرام نے نعتیں کہیں ان میں ابو طالب بن عبد المطلب، حضرت حمزہ بن عبد المطلب بن ہاشم، حضرت عبد الرحمن بن رواحہ، حضرت عباس بن عبد المطلب، حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی، حضرت علی مرتضیٰ، حضرت فاطمہ، حضرت کعب بن زبیر، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ، امام زین العابدین علی سجادالحسین کے نام نامی اسم گرامی آتے ہیں۔ عرب کے شعرا نے فن نعت گوئی کو بام عروج پر پہنچا دیا تھا۔ مگر ہندوستان کے شعرا بھی اس میں پیچھے نہیں رہے اسی لیے شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال نے اس سرزمین کے بارے میں کہا تھا:

 میرِ عرب کوآئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے 
یہ کہنا مشکل ہے کہ ہندوستان میں نعت گوئی کا آغاز کب ہوا۔ کبیر داس نے ایک دوہے میں لکھا ہے:

عدد نکالوں ہر چیز سے چوتن کر لو دائے 
دو ملا کہ پچگن کر لو بیس کا بھاگ لگائے 
باقی بچے کے نو تن کر لو دو اس میں دو اور ملائے 
کہت کبیرسنو بھئی سادھو نام محمد صلعم آئے 

اسی طرح گرو گرنتھ میں آتا ہے:

میم محمد من تو ں من کتابہ چار 
من خدائے رسول نو ں سچا ای دربار 

 ان کے علاوہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، خواجہ معین الدین چشتی سنجری اجمیری، حضرت شمس الدین تبریز، شاہ بو علی شاہ قلند ر پانی پتی، خواجہ نظام الدین اولیا، حضرت امیر خسرو نے بھی نعتیں کہی ہیں۔
 
ہندوستان کے اردو اور فارسی شعرا میں نہ صرف مسلمان بلکہ اہل ہنود نے بھی نعتیں لکھی ہیں۔ ان میں کئی تو ایسے ہیں جن کے نعتیہ کلام کے دواوین بھی موجود ہیں۔ نور میرٹھی نے ہندو نعت گو شعرا  پر ایک کتاب مرتب کی ہے۔ جس کا نام ہے ”بہ ہر زماں، بہ ہر زباں“۔ جس میں 326ہندو نعت گو شعرا کا ذکر ہے اور ان کی نعتیں یکجا کر دی گئی ہیں۔

اردو میں شاعری کی ابتدا عرض دکن سے ہوئی۔ اسی لیے سلطان قلی قطب شاہ اور محمد شاہ کو اردو کے پہلے نعت گو شاعر ہونے کا فخر حاصل ہے۔ ان کے کلام کا خاصا حصہ نعت رسول صلعم پر مشتمل ہے۔ اسی لیے ولی دکنی کے دور سے لے کر عہد جدید کے شعراء تک نعت گوئی کا سلسلہ برابر قائم ہے اور اردو کا ہر شاعر نعت کہنا اپنے لیے باعث سعادت تصور کرتا ہے۔

اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں بریلوی اگرچہ عالم دین تھے مگر ان کی شہرت نعت گو کی حیثیت سے بھی ہے۔ انہیں عربی و فارسی اور اردو کے علاوہ ہندی زبان پر بھی قدرت حاصل تھی اور ان کی ایک نعت اس قدر مشہور ہے کہ ان کا ذکر آتے ہی اس کے اشعار زبان پر آجاتے ہیں: 

لم یات نظیر ک فی نظر مثل تو نہ شُد پیدا جانا 
جگ راج کو تاج تورے سرسوہے تجھ کو شہ دوسرا جانا 
یا شمس نظرت الی لیلی چوبہ طیبہ رسی عرضے بکنی
 توری جوت کی جھلجھل جگ میں رچی موری شب نے نہ دن کو ہوا جانا 
انا فی عطش و سخاک اتم اے گیسوئے پاک اے ابر کرم 
برسن ہارے رم جھم رم جھم دو بوند ادھر بھی گرا جانا 

علامہ محسن کاکوروی نے بے معنی مبالغہ آرائی اور لفظوں کی صنعت گری سے احتراز کر کے سیدھے سادھے انداز میں نعتیہ قصیدے لکھے۔ اردو نعت گوئی میں کرامت علی خاں شہیدی،مولانا الطاف حسین حالی، علامہ اقبال، منیر شکوہا آبادی، امیر مینائی، سحر لکھنوی، اصغر گونڈوی، بہزاد لکھنوی، حفیظ جالندھری، حمید صدیقی، ماہر القادری جیسے نام ہیں جو متعبر اور معروف ہیں۔ ان کے علاوہ غیر مسلم شعرا میں پنڈت دیاشنکر نسیم، چھنو لال دلگیر، پنڈت ہری چند اختر، گوپی ناتھ امن، نوبت رائے نظر، پنڈت امر ناتھ آشفتہ دہلوی، بھگوت رائے راحت کاکوروی، مہاراجہ کشن پرساد،پنڈت برج موہن دتا تریہ کیفی، رگھوپتی سہائے، فراق گورکھپوری، اوم پرکاش، باقر ہوشیار پوری، تلوک چند محروم، تربھون ناتھ زار زتشی دہلوی، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، بال مکند عرش ملسیانی، پریم لال شفا، کالی داس گپتا رضا، جگن ناتھ آزاد، آنند موہن گلزار دہلوی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔

دور حاضر میں بھی نعتیہ شعرا کی بہت بڑی تعداد ہے۔خاص طور سے پاکستان میں نعت گوئی کو کافی عروج حاصل ہوا ہے۔ وہاں نعتوں پر تحقیق کا بھی خاصا کام ہوا ہے۔ پاکستان کے نعتیہ شعرا میں حفیظ تائب، عبد العزیز خالد، مظفر وارثی، مشکور حسین یاد اور ریاض مجید نے نعت کو نیا رنگ و آہنگ دیا ہے اور نئی لفظیات سے آراستہ کیاہے۔

اگرچہ بظاہر نعت گوئی آسان لگتی ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ اگر اللہ اگر توفیق نہ دے تو نعت گوئی انسان کے بس کا کام نہیں ہے۔حضرت شیخ سعدی کا مشہور واقعہ ہے کہ انہوں نے مدح رسول میں تین مصرعے کہے۔ کوشش کے باوجود چوتھا مصرعہ نہ ہو تا تھا اور سخت پریشان تھے۔ ایک شب انہیں خواب میں بشارت ہوئی۔ حضور سرور کائناتصلعم بنفس نفیس موجود ہیں اور شیخ سعدی سے فرماتے ہیں سعدی تم نے تین مصرعے کہے ہیں ذرا سناؤ۔ شیخ سعدی نے تینوں مصرعے سنائے اور خاموش ہو گئے۔ آ پ صلعم نے فرمایا یہ مصرعہ بڑھا لو۔ صلو علیہ و آلہ۔اور یوں حضرت شیخ سعدی کی نعتیہ رباعی مکمل ہوئی۔اللہ تعالیٰ نے اس رباعی کو شرف قبولیت بخشا اور اس طرح شیخ سعدی نعت گو شعرا میں ممتاز ہو گئے۔ اس رباعی کے چار مصرعے ہمیشہ توصیف مدح رسول صلعم کرتے ہیں۔

بلغ العلےٰ بکمالہ
 کشف الدجیٰ بجمالہ 
حسنت جمیع خصالہ
 صلوا علیہ و آلہ 
لیکن جب نعت محمدصلعم کی بات آتی ہے تو پھر اس قطعے  پر آکر ختم ہو جاتی ہے:

یا صاحب الجمال و یا سید البشر
من وجہک المنیر لقد نور القمر 
لا یمکن الثنا کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
(وایس آف امریکہ کی سایٹ سے)

18 February, 2011

Sirat


خطاط عورتیں

خطاط عورتیں


مردوں کی اجارہ داری کسی فن پر نہیں۔ عورتوں نے بھی فنِ خطاطی میں خوب قدم جمائے ہیں۔ ذیل میں مخزنِ خطاطی سے نقل شدہ ان خطاطات کا تذکرہ ہے جو گزشتہ دور میں تھیں۔ میں نے ایک عربی فورم پر کسی عورت کی کاوش دیکھی تھی اس نے معاصر خطاطات کا تذکرہ باتصویر کیا ہوا تھا۔ ان شاء اللہ پہلی فرصت میں ان خطاطات کے تذکرے کا ترجمہ کرکے اس بلاگ پر پیش کروں گا۔
کسی بھی موضوع  کو دل سے پڑھنے سے انسان کے سامنے بیش بہا مواضیع سامنے آتے ہیں جن پر وہ خود لکھ سکتا ہے۔ میرا وتیرہ یہی رہا ہے کہ جب میں مطالعہ کرتا ہوں تو اہم اور خوبصورت باتوں کو نوٹ کرلیا کرتا ہوں۔ اور پھر وہ لکھنے کے قابل ہوئیں تو ان پر مواد جمع کرنے بیٹھ جاتا ہوں۔ بہر کیف درجِ ذیل تذکرہ عورتوں کا ایک ہی کتاب سے مستخلص ہے اور وہ ہے خورشید عالم گوہر قلم کی  مخزنِ خطاطی۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں ان تمام مذکورہ شخصیات کو مفصل مطالعہ کرکے مزید کچھ لکھتا۔ لیکن وقت اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ بہر کیف امید ہے کہ آپ کو یہ انتخاب پسند آئے گا۔
(1) امۃ العزیز ساجدہ (2) امۃ اللطیف (3) امۃ المتین ثریا:
غالبا یہ تینوں بہنیں تھیں اور نستعلیق ونسخ بہت خوب لکھتی تھیں۔
(4) بادشاہ بیگم:
خفی تخلص۔ چھوٹی بیگم کی بیٹی تھیں جس کا ڈیرہ دلی میں یوسف والیوں کے نام سے مشہور تھا۔ مؤلف (تذکرۃ النساء) نے ان کے متعلیق لکھا ہے کہ زبان انگریزی سے بہرہ ور اور فارسی خوانی وخوش خطی میں صاحب ہمزہ ہے۔ میں نے اس کے ہاتھ کی تحریر انگریزی اور فارسی جلی قلم کی دیکھی ہے۔ سبحان اللہ خوب لکھتی ہیں۔ بہت سے لوگوں کو اصلاح دیتی ہیں۔
(5) جہاں آرا بیگم:
شہنشاہ شاہجہان کی بڑی لڑکی۔ اور عالمگیر کی بہن تھیں۔ خوشخطی میں ان کا مرتبہ استادانہ تھا۔ 1093ھ میں انتقال ہوا۔ حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی درگاہ میں ان کی قبر ہے۔ جس پر یہ شعر کندہ ہے:
بغیر سبزہ نہ بوشد کسے مزار مرا
کہ قبر پوشِ غریبان ہمی گیاہ بس است
(6) شاہزادی زیب النساء:
بنت شہنشاہ جہانگیر تھیں۔ تخلص مخفی تھا۔ بہترین شاعرہ وادیبہ اور عمدہ ترین خوشنویس تھیں۔ آقا عبد الرشید سے اصلاح لی۔ اور درجہ استادی تک خط نستعلیق کو پہنچادیا۔ ان کا دیوان طبع ہوچکا ہے۔ دوسری تصنیف فن انشاء میں زیب المنشات ہے۔ ان کی فنی اور شعری صلاحیتوں کا ایک عہد معترف ہے۔
(7) زینب شہدہ:
یہ احمد مفرج خراسانی کی صاحبزادی تھیں۔ حسن وجمال اور فضل وکمال میں شہرہ آفاق تھیں۔ اور خوشنویسی میں خوشنویسانِ عصر پر فضیلت حاصل تھی۔ متعدد قطعات ان کی یادگار ہیں۔ یاقوت مستعصمی نے تعلیم خط انہیں سے حاصل کی تھی۔ خطوطِ نسخ وثلث بہترین لکھتی تھیں۔ اسی 80 سال کی عمر میں 574ھ 1179ء میں انتقال ہوا۔
(8) سعید جہاں بیگم:
یہ اپنے عہد کی نامور خطاط تھیں۔ دہلی کی بہت سی خواتین کو تربیت دی۔
ان شاء اللہ بقیہ خواتین کا تذکرہ جاری رہے گا۔ اسی طرح دیگر خطاطوں کا تذکرہ بھی ہوگا جو کاتبان قرآن تھے۔ یا پھر نستعلیق میں ماہر تھے۔ اسی طرح ان لوگوں کا بھی تذکرہ ہوگا جو خوشنویس بھی تھے اور وزارت کے عہدے پر فائز تھے۔ نیز شاعر خوش نویس کا تذکرہ بھی ہوگا۔
(9) صفینہ:
اندلس کی وہ بلند مرتبہ خاتون جس کی نسبت صاحب ِ ( اسلامی کتب خانوں کی سیر) صفحہ 19 پر لکھتے ہیں کہ خطاطی میں بڑی ماہر تھیں۔ ان کی لکھی ہوئی کتابیں ان کے معاصرین کو محو حیرت بنادیتی تھیں۔
(10) نواب ملکہ جہاں:
محمد نواب علی شاہ کی ملکہ تھیں۔ خطِ نسخ میں کمال حاصل تھا۔ لکھنؤ وطن تھا۔ ایک قرآن مجید اور دو ڈھائی سو صفحات کی حضرت سیدۃ النساء کی سوانح عمری ان کا قلمی شاہکار ہے۔
(11) ملکہ نور جہاں:
مشہور ملکہ جہانگیر جو شاعر بھی تھیں اور اعلی درجہ کی نفاست پسند بھی۔ خطِ نستعلیق بھی نہایت نفیس لکھتی تھیں۔
(12) بادشاہ خاتون:
قطب الدین سلطان محمد کرمان کی بیٹی تھیں۔ اور خوشنویس وعالم فاضل شاہ زادی تھیں۔ اپنی بسر اوقات قرآن مجید کی اجرت کتابت سے زیادہ کرتی تھیں۔ مگر جب باپ کے بعد برسر اقتدار ہوئیں تو ارباب فضل وکرم کو نہال کردیا۔

تصوف میں غیبی کردار کی جستجو

تصوف میں غیبی کردار کی جستجو
ابو زید


اس کائنات کو پیدا کرنے کا اصل مقصد حق و باطل کی وہ کشمکش ہے جو ابلیس کی متکبرانہ بغاوت سے شروع ہوئی ، جو آج بھی جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گی۔یہی مقصد ہے کہ اللہ تعالی نے ایسی با شعور مخلوق بھی پیدا کی جس میں خیر و شر دونوں کو قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی استعداد و تحریک موجود ہے۔ اگر یہاں پر خیر ہی خیر مطلوب ہوتا اور اللہ صرف یہ چاہتا کہ اس کی عبادت کے سوا کچھ بھی نہ ہو تو اللہ کے فرشتے کچھ کم نہ تھے۔ اسی حقیقت کو قران پاک میں تخلیق آدم سے پہلے فرشتوں کی زبان سے یوں بیان کیا گیا ہے۔
وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُواْ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاء وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ  (سورۃ بقرۃ :30)
اُنہوں نے کہاکہ ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں فساد کرے اور خون بہائے ہم تیری تسبیع اورپا کیزگی بیان کرنے والے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اس دنیا میں اللہ سبحانہ وتعالی باطل کو بھی ایک حد تک پنپنے کا موقعہ دیتا ہے کہ یہ باطل خوب پھلے پھولے پھر اللہ اس باطل کو اپنی قہاریت کی مارسے توڑ پھوڑ کر رکھ دے۔
وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاء وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ۔ لَوْ أَرَدْنَا أَن نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنَاهُ مِن لَّدُنَّا إِن كُنَّا فَاعِلِينَ۔ بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ۔ (سورہ انبیاء 16۔18)
ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو کھیلتے ہوئے نہیں بنایا۔اگر ہم یوں ہی کھیل تماشے کا ارادہ کرتے تو اسے اپنے پاس سے ہی بنا لیتے، اگر ہم کرنے والے ہی ہوتے۔بلکہ ہم سچ کو جھوٹ پر پھینک مارتے ہیں پس سچ جھوٹ کا سر توڑ دیتا ہے اور وہ اسی وقت نا بود ہو جاتا ہے تم جو باتیں بناتے ہو وہ تمہارے لئے باعث خرابی ہیں:
باطل کو پھلنے پھولنے کا موقعہ دے کر پھر جب اس پر حق کا کوڑا برستا ہے تو یہ اللہ کی حقانیت کی شان کا اظہار کچھ اور ہی انداز میں ہوتا ہے بجائے اس کے کہ باطل کو ابھرنے ہی نہ دیا جائے۔
ّٓآدم ؑ کے اس دنیا میں آنے کے بعد سے اب تک یہی کشمکش جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گی یہاں تک کہ قیامت میں اللہ رب العزت اپنی شان قہاری کا اظہار کچھ اور ہی انداز میں کرے گا جس کے بعد باطل کو کوئی مہلت نہیں دی جائے گی۔ دنیامیں خیر و شر کی اس کشمکش میں باطل کا سرخیل ابلیس لعین ہے اور اس کے ساتھ اس کے تمام چیلے چانٹے ہیں جن کو شیاطین کہا گیا ہے جس میں انسان اور جنات دونوں شامل ہیں۔اور اس کشمکش میں انبیاءعلیہم السلام کی جماعت اور ان کے متبعین حق کی نمائندگی کرتے رہے ہیں۔
ختم نبوت کے ساتھ ہی اب یہ طے ہے کہ اس کشمکش میں حق کا پرچم رہتی دنیا تک صرف اور صرف محمد ﷺ کی اس اُمّت کے ہاتھ میں ہی رہے گا۔اسی لئے اللہ تعالی حق کی اس رہنمائی کے لئے قران پاک میں انبیاء علیہم السلام کے واقعات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور اگر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انبیاءکے تقریبا ہر ہر واقعے میں حق و باطل کی اسی مخاصمت اور ٹکراؤ کو نمایاں کیا گیا ہے۔حق و باطل کے اس معرکے میں حق کے علمبرداروں کی اصل ذمہ داریاں یہ ہیں۔
1۔ ایمان لانا اپنے تمام لوازمات کے ساتھ
2۔ اس ایمان کے مطابق عمل کرکے اپنی زندگی کو اس ایمان کی عملی شکل دینا
3۔ اسی ایمان کے مطابق حق کی شہادت دیناجس میں باطل کی زوردار انداز میں نفی بھی شامل ہے۔
4۔ شہادت حق کے نتیجے میں جو بھی تکالیف اور آزمائشیں آئے اس کو برداشت کرنا اور ایک دوسرے کو ان آزمائشوں پر صبر و ثبات کی تلقین کرنا۔
اللہ تعالی کلام پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔
وَالْعَصْرِ ۔إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ۔إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ۔
زمانے کی قسم۔ بیشک(بالیقین) انسان سرا سر نقصان میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور (جنہوں نے) آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔
یہ راستہ اہل حق کا وہ صراط مستقیم ہے جس کی گواہی قرآن پاک کے مواعظ، قرآن پاک میں موجود انبیاء علیہ السلام کے واقعات اور ایام اللہ سے صاف ثابت ہے۔ اپنی تمام حقیقتوں کے ساتھ یہ ایک دین مبین اور روشن راستہ جس پر چل کر ہی کامیابی مل سکتی ہے ۔ اسی راستے پر ہم کو چلنے کی ہدایت دی گئی ہے اور اسی راستے پر چلنے کی دعا بھی کرنے کا ہم کوحکم دیا گیا ہے۔
اهدِنَــــا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَ ۔ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمتَ عَلَيهِمْ
ہمیں سچی اور سید ھی راہ دکھا۔ اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا۔
صحابہ اور سلف صالحین نے بھی یہی راستہ اختیار کیااور اسی وجہ سے مختلف آزمائشوں میں ڈالے گئے اور نبی ﷺ کی پوری نبوی زندگی اسی جدو جہد اور آزماشوں سے عبارت ہے۔ بلکہ جیسے ہی اس جدو جہد میں نبوت کی ذمہ داری پوری ہوئی آپ ﷺ کو رفیق اعلی کی طرف اُٹھا لیا گیا۔کہ اب رسالت کے بعد صدیقیت کو اپنا کردار ادا کرنا تھا اور اس میں صدیق اکبر نے وہ استقامت دکھائی کہ اس کا حق ادا کردیا۔
الغرض بنی آدم کا اس دنیا میں یہی کام ہے اور یہی کردار ہے۔ اس ستھرے اور روشن راستے سے جو بھی بچھڑا وہ گمراہی پر پڑگیا۔
دوسری طرف شیاطین جن و انس کا راستہ فریب اور دھوکے کا راستہ ہے۔ باطل کا داعی کبھی باطل کی دعوت لے کر نہیں آتا بلکہ وہ باطل کو بھی حق کے قالب میں پیش کرتا ہے اور اس کے لئے دلفریب اوردلکش االفاظ اور پر کشش تصورات کو بروئے کار لاتا ہے۔ حق کا راستہ مشکل، نفس کی خواہشات کے خلاف ہے اور انسان سے صبر و استقامت کا مطالبہ کرتا ہے جبکہ باطل اسے اسی آزمائش میں ڈٹنے کے مقابلے اس آزمائش سے فرار اور گریز کر کے کنارہ کشی کا راستہ دکھاتا ہے۔ اور جب یہ حق گریزی میں پختہ ہوجاتا ہے تو پھر یہ بھی حق کے نام پر باطل کا پرچم ہاتھ میں لے کر باطل کا داعی بن جاتا ہے۔
چونکہ انسان اپنی فطرت میں عمداً باطل کا علمبردار اور داعی نہیں بن سکتا اس لئے شیاطین اس کو دینی نصوص کی اس طرح سے تاویلات کرکے دیتے ہیں کہ وہ اس کے فریب میں آجاتا ہے۔ ان شیطانی تاویلات کا سب سے اہم نشانہ انسان کا وہ کردار ہے جس کو اسے اس دنیا میں ادا کرنا ہے یعنی، ایمان، عمل صالح، شہادت حق اور صبر کی تلقین۔ ان ذمہ داریوں کے بدلے اس کا نصب العین کچھ اور ہی کر کے پیش کردیا جاتا ہے جو کہ الفاظ و تصورات کی حد تک تو بہت پر کشش ہوتے ہیں لیکن نہ اللہ نے انسان کو اس لئے بنایا ہوتا ہے اور نہ یہ اس کے لئے قابل حصول ہوتے ہیں۔
راہ حق سے روگرادنی کرنے کی ایک معروف جہت یہ ہے کہ دنیا کے ان ہنگاموں میں حق کی آذان دینے کے بجائے کوئی خفیہ قسم کا روحانی کردار ادا کرنے کی کوشش کی جائے۔اس کی مختلف شکلیں مروجہ تصوف کے نام سے پائی جاتی ہیں۔ اس راستے پر پڑ کر کوئی فنا فی اللہ ہوکر عین حق بننے کی کوشش کرتا ہے، کوئی نبی کی برابری کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کچھ اور ہیں جنہوں نے نئے نئے عہدے بنا لئے ہیں جیسے ابدال، قطب اور غوث۔اور اس میں جو مجموعی طور پر طریق اہل سنت کی پابندی کا اہتمام کرتے ہیں وہ بھی کم از کم روحانی اعمال کے ذریعے سے شرف صحابیت کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ حالانکہ جن کو اللہ نے پسند کیا ان کو صحابی بنا لیا اور اس میں مزید کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اللہ نے انسان کواپنا بندہ بنانے کے لئے پیدا کیا ہے اور یہ اس سے زیادہ کچھ نہیں بن سکتا۔سلسلہ نبوت ختم ہوچکا ہے اور اب اللہ سے براہ راست ہدایت لینے کے بجائے ہر ہدایت کے لئے نبی سے رجوع کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے اور یہ دین کا طے شدہ امر ہے۔
اس گمراہی کے راستے پر پڑ کر انسانوں کے لئے وہ مقام طے کئے جاتے ہیں جن کے لئے نہ انسان بنا ہے اور نہ اللہ کے کلام میں اس کا کوئی ذکر پایا جاتا ہے۔ یہی گمراہی ہے جس میں یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ ابدال، قطب اور غوث اس دنیا میں رہ کر دنیا کے اوامر کے بارے میں فیصلے کرتے ہیں بلکہ ان کو نافذ بھی کرتے ہیں ۔ حق وباطل کی کشمکش میں اللہ کے رسول اور صحابہ کا جو معلوم و معروف کردار ہے اس کو نظر انداز کر کے ان کے کچھ خفیہ رول کی جستجو کی جاتی ہے اور ان کے بارے میں ایسی باتیں منسوب کی جاتی ہے جس کا نہ انہوں نے دعوی کیا نہ ہی قرآن نے اس کی طرف کوئی اشارہ کیا۔ انکے ایسے غیبی اور باطنی کردار متعین کئے جاتے ہیں جس میں اللہ کی بعض صفات جیسے، تدبیر امر ، تکوین ، علم غیب وغیرہ میں وہ اللہ کے شریک بن جاتے ہیں۔ بلکہ یہی صفات نہ صرف ان کے لئے بلکہ اپنے لئے بھی یا تو متعین کئے جاتے ہیں یا پھر ان کی جستجو کی جاتی ہے۔اس پورے سلسلے میں ضعیف اور موضوع احادیث ان کا سب سے بڑا سہارا ہے۔ اتنی اہم بات چونکہ قرآن پاک میں دور دور تک پائی نہیں جاتی اس لئے کلام اللہ جو کہ ایک روشن اور محکم کتاب ہے اس میں کچھ چھپے ہوئے باطنی نکات جو کہ صحابہ کرام کے فہم سے مختلف ہوتے ان کی اتباع کی جاتی ہے۔
هُوَ الَّذِيَ أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ في قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاء الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاء تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الألْبَابِ۔ (آل عمران: 7)
وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اُتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں۔پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں ، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے ،حالانکہ ان کی حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتااور پختہ اور مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے ہیں،یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں۔
ایک طرف قرآن کے ساتھ یہ معاملہ دوسری طرف رسول ﷺ کی مکی اورمدنی زندگی کے بجائے قبل ولادت اور مابعد الموت حیات و کردار ان کی توجہ کے خصوصی مرکز ہوتے ہیں۔ محمد ﷺ کی زندگی کا ذکر ہوگا تو بھی حق کے عظیم ترین قائد کے بجائے اس حیثیت میں ہوگا کہ نبی کا علم واختیار کتنا تھا، نبی نوری ہے یا خاکی، اللہ نے کائنات سے کتنے لاکھوں برس پہلے نبی کو پیدا کیا، نبی کی موت کی بعد ان کی حیات کی کیفیت کیسی ہے، نبی کو کلی علم غیب یا جزوی!! پھر ان نکات کو ایسے اعمال و اقوال کے جواز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جن کی کوئی اصل دین میں نظر نہیں آتی۔ کبھی اُمت کی حالت زار پر رسول سے فریاد کی جاتی ہے، کبھی اصحاب قبر سے "استفادہ" کیا جاتا ہے ، کبھی "غوث پاک" کی مدد طلب کی جاتی ہے، کبھی روحانی منزلوں کو سر کرنے کے لئے رسول ﷺ سے براہ راست تعلق قائم کرنے کا دعوی کیا جاتا ہے۔اور یہ سب کچھ کر کے یہی باور کیا جاتا ہے کہ اصل دین یہی ہے۔
الغرض اس گمراہی میں اول سے آخر تک اس رزم گاہ حق و باطل میں کوئی کردار ادا کرنے کے بجائے ایک خفیہ اور غیبی کردار و اختیار کی جستجو ان کا نصب العین ہوتی ہے۔خیر و شر کی اس جنگ میں ان کی حیثیت بس یہی رہی کہ وہ قضا و قدر کی رسیاں ہلا ہلا کر دور سے نظارہ کرتے رہیں۔صاف اور سیدھی سی بات ہے کہ اس گمراہ کن راستے پر پڑ کر انسان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایک متبع حق امتی کے بجائے کچھ اور بن جائے، کوئی فنا کے ذریعے سے خدا بننے کی کوشش میں ہے، کوئی براہ راست خدا سے علم حاصل کرکے نبی بننے کی جستجو میں، کوئی خدائی اموامر کو نافذ کر کے فرشتے بننا چاہتا ہے اور کم از کم اگر کچھ ممکن نہیں تو صحابی بننے کے فراق میں ہے۔(1)
اور تو اور اسلام کی اس غربت ثانیہ میں اس طبقے نے "پورے خلوص" کے ساتھ اپنے لئے جو رول متعین کیا ہے وہ باقاعدہ باطل کا علمبردار بن کر ظاہر ہوا ہے۔ حق و باطل کے اس معرکے سے کنارہ کشی کے شوق میں صدیوں سے جو فکر پلی ہے اس میں ایک اور اضافہ یہ ہوا ہے کہ حق و باطل کا فرق ہی سرے سے مٹادیا جائے۔ حق و باطل میں فرق کرنے والے اجزاءمیں سب سے بنیادی عنصر توحید و شرک کا فرق ہے۔وحدۃ الوجود کے نام پر اس باطنی فکر نے توحید کی ہی ایسی تشریح کرڈالی کہ توحید ہی شرک بن گیا اور شرک عین توحید۔ جب حق و باطل میں فرق ہی مٹ گیا تو اس طبقے نے ایسے کسی معرکے میں اللہ اور رسول کے نام لیواؤں کے بجائے ان کا ساتھ دینا پسند کیا جو ان کے اس تصور دین کی مخالفت نہ کریں۔ نتیجتاً مغرب اور اسلام کے اس حقیقی معرکے میں اہل تصوف کے ایک طبقے نے مغرب کا آلہ کار بننے میں کوئی حرج نہیں جانا۔
تصوف کا یہ سلسلہ اگرچیکہ اہل سنت کے دعویداروں میں ہی پایا جاتا ہے بلکہ برصغیر میں ان کے اپنے زعم کے مطابق یہی اہل سنت ہیں،لیکن اس معاملے میں روافض سے اس طبقے کو خصوصی نسبت حاصل ہے۔شیعیت کا امامت اور تقیہ کا عقیدہ اس خفیہ رول سے بڑی حد تک مماثلت رکھتا ہے۔ اہل بیت کے نام نہاد شیدائیوں نے جب دیکھا کہ ان کی خواہشات کے علی الرغم علی ؓ چوتھے نمبر پر خلیفہ بنے ہیں، حسن ؓ کو مختصر سی خلافت ملی ہے اور حسین ؓ تو ان کے روحانی آباءکے فریب کے شکار ہوکر شہید ہوگئے تو انہوں نے اپنے معصومین کے لئے وہ کردار متعین کئے جن کی حیثیت مکمل طور پر غیبی تھی اور عملاً نہ ان کی تصدیق کی جاسکتی تھی اور نہ تردید۔کہیں پر انکی خفیہ امامت کے دعوے کئے گئے، کہیں انہیں تخلیق کائنات کے لئے واسطے قرار دیا گیا، کہیں انہیں مدبر امر مانا گیا تو کہیں عالم غیب۔پھر تقیہ کے عقیدے نے ان کوپوری آزادی دے دی کہ جس سے جو چاہے منسوب کردیں اور دعوی کریں کہ انہوں نے تقیہ کیا تھا۔یہ پورا سلسلہ جذبہ محرومی اور ایک قسم کے فرسٹریشن (frustration) کا عملی اظہار تھا۔یہ فرسٹریشن ان گروہوں کا بھی ہے جو ایک امتی بن کر حق کی شہادت دینے کے بجائے خدا، رسول، فرشتہ یا انہیں کے کچھ متبادل کردار کی طلب میں مجاہدے کرتے ہیں۔جس طرح ایسے غیبی کردار کا طلب کرنا ایک گمراہی ہے اسی طرح اس طلب میں جو مجاہدے کئے جاتے ہیں وہ بھی روح دین سے کوئی نسبت نہیں رکھتے اگرچیکہ ان اذکار و اشغال کی حمایت میں ان کو کچھ نہ کچھ نکات غیر مستند احادیث میں مل بھی جاتے ہیں۔
اسی غیبی نظام میں تصوف کے وہ سلاسل بھی ہیں جن کے بارے میں دعوی کیا جاتا ہے کہ یہ صحابہ سے ہوتے ہوئے رسول اللہ ﷺ تک جاملتے ہیں۔ اور اس میں تعجب کی بات یہ بھی ہے کہ ایک دو کو چھوڑ کر تقریباً سب کے سب سلسلے حضرت علی ؓ کے ذریعے ہی نبی سے جاملتے ہیں ۔ اہل سنت کی تشفی کے لئے ان میں ایک ادھ ہی کو بواسطہ حضرت ابوبکرؓ صدیق کے رسول اللہ ﷺ تک ملایا جاتا ہے۔ باقی صحابہ کے بارے میں غالباً ان کا خیال ہے کہ وہ روحانی طور پر نبیﷺ کے وراثت کے قابل تھے ہی نہیں۔اس ضمن میں خاص طور پر نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ شہادت حق دینے والے صحابہ، تابعین اور تبع تابعین نے ان سلاسل کو کچھ ایسے خفیہ رکھا کہ ثقہ راویوں کو ان کی ہوا بھی نہیں لگنے دی۔مستند احادیث سے ایسے کسی خفیہ سلسلے کا پتہ نہیں چلتا ہے۔ قابل غور ہے کہ روافض کی امامت اور صوفیا کی خلافت میں کتنی مماثلت ہے۔
آخر کوئی تو بات ہے کہ انہیں اپنی دلیل کے طور پر ضعیف اور موضوع احادیث ہی ملتی ہیں یا قرآن پاک میں کوئی باطنی نکتہ اور خفیہ اشارہ جو سلف کے دائرۂ فہم میں نہیں آسکا! اگر موازنہ کرنا ہی ہے تو مسیحیوں کے تثلیث کے عقیدے،روافض کے امامت کے عقیدے اور صوفیاءکے وحدت الوجود اور فنا فی اللہ میں بہت یکسانیت پائی جاتی ہے۔ کیوں نہ ہو، یہ سب چیزیں دین میں غلو کے ہی نتائج ہیں۔
اللہ ہمیں سیدھی راہ دکھائے اور شیاطین جن و انس کی فریب کاریوںسے بچائے۔
رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ
اللہم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعۃ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابۃ

(1)۔بعض ایسے طبقے جو مجموعی طور پر سنت کا التزام کرنے کے باوجود مروجہ تصوف پر بھی عمل کرتے، جب ان کو تصوف کی اصل کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو ان کا یہ کہنا ہوتا ہے کہ: صحابہ کرام کو تو نبی ﷺ کی صحبت کی وجہ روحانی درجات حاصل ہو گئے تھے۔ لیکن چونکہ ہم اس روحانی استفادے سے محروم ہیں اس لئے اذکار و اشغال کے ذریعے اس کا متبادل حاصل ہوسکتا ہے۔

12 February, 2011

SUBJECT: ISLAMIC FINANCE KEY TO ENSURING LONDON AS TOP FINANCIAL CENTER

SUBJECT: ISLAMIC FINANCE KEY TO ENSURING LONDON AS TOP FINANCIAL
CENTER

1. (SBU) Summary: The British government is promoting the growth of the Islamic finance industry in the UK, although HMT has decided against issuing a sovereign Islamic finance bond, a sukuk, in the current economic climate.  HMG is courting Islamic finance, and eliminating barriers to its growth, to ensure London preserves its standing as a top financial center, despite the financial crisis. Islamic financiers, pleased with HMG's efforts, are also pressing to advance their presence in the UK.  End Summary

Pursuit of Islamic Finance ---------------------------------

2. (SBU) HM Treasury's policy objectives, released in December 2008, are to establish and maintain London as the gateway for international Islamic finance and to ensure that no person in the UK is denied access to competitively priced financial products on account of their faith.  Islamic finance describes financial transactions in accordance with Islamic law (Shari'a).  The key principles: prohibit the payment or receipt of interest; prohibit uncertainty or speculation; prohibit financing economic sectors considered to be socially detrimental; share profits and losses; and underpin financial transactions with identifiable and tangible underlying assets.  HMG perceives supporting Islamic finance as a way to differentiate London from New York and advance London's image as the world financial center.  London, being closer to the Middle East, has both a physical and time zone advantage over Wall Street, as well as necessary Islamic finance back office skills already present, which HMG is looking to exploit.

3. (SBU) The Bank of England first identified the potential for Islamic financial instruments in the UK in 2000.  Since then, the Financial Services Authority (FSA), the key regulator of financial services in the UK, and HMT have introduced legislative changes to eliminate unfavorable tax treatment of Islamic financing structures and create a "level playing field".  London also hosted the First Annual World Islamic Banking Conference European Summit in July 2008, and the government-sponsored organization UK Trade and Investment (UKTI) served as the conference's strategic partner and provided a specific UK pavilion.  The UK now has the only stand-alone Islamic financial institution in the EU, the Islamic Bank of Britain. According to government figures, the UK has the highest value of Shari'a compliant assets (over BPS 18 billion worth) of any non-Muslim country and the eighth largest amount in the world.  It is difficult to determine the exact size of the global market but the amount of assets under Islamic management worldwide has grown from $150 billion in the mid-1990s to around $700 billion in 2007, according to an HMT source.  Prospects for growth from a Standard and Poor forecast assesses the industry to potentially contain up to $4 trillion of assets.  Other estimates put growth figures even higher, since Muslims account for 20 percent of the world population.  Presently only about 1percent of global financial assets are controlled under finance compliant with Islamic law.

4. (SBU) HMG, to overcome barriers to the growth of Islamic finance in the UK, is reforming taxation and regulatory codes; forming a set of commonly accepted standards for products and practices; raising awareness of the existence and availability of Islamic products; and ensuring a steady flow of personnel skilled in Islamic finance.  The UK Islamic financial market is mainly aimed at British and international Muslims, but Islamic financial instruments are available to everyone.  Products include the sukuk, an alternative investment bond; takaful, a Shari'a compliant mutual insurance arrangement, which was just launched in Britain for automobiles, a global first; and murabaha, a purchase and resale contract that functions similar to a mortgage. 

5. (SBU) HMT decided in November, as announced in its 2008 Pre-Budget report, to not issue a sovereign sukuk because it currently "would not offer value for the money."  Nonetheless, HMG pledged to keep the situation under review and wrote the UK government "remained committed to promoting the UK as a center for global and Islamic finance."  The government plans to introduce new legislation into the 2009 Finance Bill to provide further tax relief.  In a recent paper, HMG reiterated it would continue to examine the feasibility of issuing sovereign wholesale and retail Islamic finance products.

Muslim Investor Preference for the UK -------------------------------------

6. (SBU) For investments in Islamic finance made outside the Middle East, the UK is the preferred locale, according to conversations at closed roundtables hosted by the Centre for the Study of Financial Innovation (CSFI).  The underwriting director at a London-based Shari'a-compliant insurance group stated many investors feel London is already the center of Islamic finance.  Additionally, experts from outside the UK, who come to London to sit on boards composed of  LONDON 00000024  002 OF 002   Shari'a scholars for UK-based Islamic finance businesses, are well connected to London, where many already have homes.  There is a concept of 'London-Istan,' a CSFI director told us.  Investors see the UK as the best place to start expansion into Europe because of the higher degree of openness, the support the UK government and FSA offer, and the belief that UK business models and products could be replicated throughout the EU.

7. (SBU) Clive Briault, the FSA's former Managing Director of Retail Markets, recently stated "English law is already the preferred jurisdiction for Islamic transactions."  A strategic director for an Islamic finance company claimed at a closed conference sponsored by CSFI that the UK's large Muslim population offers an additional appeal for setting up shop in Britain, as Islam is the country's fastest growing religion.  Most experts attending the conference agreed that since UK Muslims are engaged with their religion, Islamic finance products offer an additional way for them to further connect.

The Effect of the Financial Crisis ----------------------------------

8. (SBU) The financial crisis has heightened HMG's desire to court Islamic finance, but to date, the government has only done so largely through public rhetoric, rather than deeds.  "In these times, it is more important than ever that we make the most of growing sectors like Islamic finance," the Chief Executive of UKTI, Andrew Cahn, stated in a November.  UKTI has supported moves of the Association of Corporate Treasurers (ACT) to educate UK companies on the Islamic finance sector and its opportunities for growth during the financial crisis.  ACT Chief Executive Richard Raeburn noted that the reduction in funding options and the more expensive rates in conventional markets made seeking alternative funding an increasing trend.  "The credit crunch has made an understanding of the [Islamic financial] market essential," he said.  HMT asserted in a December government paper that the financial instability in the global economy must not deter the government from its long-term objective for Islamic finance, and HMG will continue to support the development of Islamic finance in the UK.

9. (SBU) At separate Islamic finance events in the last months, the question was raised whether the credit crunch would have happened under an Islamic system.  Experts argued that in a purely Shari'a compliant system, the financial crisis would not have occurred. Mohammed Amin, director of PricewaterhouseCooper's UK Islamic finance division, pointed out that Islamic practices based on Western products inherently could possess the same faults.  However, in his opinion, some basic principles innate to Islamic finance should make a preventable difference, such as lending to only those who can afford it; using the right 'just' price instead of the market price; and following standards against complicated contracts and speculative activity. Comment 

10. (SBU) Comment:  Islamic finance is a small but growing sector, which the UK is actively pursuing, to preserve and increase London's credentials as the seat of global finance.  Should London successfully position itself as a leading Islamic finance center, it could gain an edge on New York, when the global financial markets recover.  With the UK's fast-growing Muslim minority, HMG also recognizes the potential political and electoral advantage of courting Islamic finance.
TUTTLE







 






--
""A meaningful life is not a matter of speed or efficiency, it's much more a matter of wat u do and why u do it, not how fast u get it done""

With Regards ,

ABUZAR K.

11 February, 2011

Why do Muslims pray ?

Subject: Why do Muslims pray ?
 


After Looking at the pictures below do you still think you have
any EXCUSE to Leave Namaaz
Why do Muslims pray ?
After a long and hectic day at work, some might think that it is difficult for a tired person to concentrate on his prayers to Allah, the Almighty. Snuggled up in a warm and cozy bed, how difficult it is to get up at the call of the Mu`azzin (calling to prayers): "Come to prayer! Come to success!"

Describing this moment, the famous doctor and philosopher, Ibn Sina (Avicenna), narrated that on one cold and icy night, he and his slave were resting at an inn in a remote part of Khuraasaan. During the night, he felt thirsty, so he called to his slave to bring him some water. The slave had no desire to leave his warm bed, so he pretended not to hear Ibn Sina's call. But finally, after repeated calls, he reluctantly got up and went to fetch the water. A little while later, the melodious sound of the azaan (call to prayer) filled the air.

Ibn Sina began to think about the person calling the people to prayer. "My slave, 'Abdullaah, he mused, has always respected me and admired me. He seizes any opportunity to lavish praise and affection on me, but tonight he preferred his own comfort to my needs. On the other hand, look at this Persian slave of Allaah: He left his warm bed to go out into the chilly night, he made ablution in the icy water of the stream, and then he ascended the high minaret of the mosque to glorify Allah whom he truly serves; calling for the prayer;

"I bear witness that there is none worthy of worship except Allah. I bear witness that Muhammad is the Messenger of Allah."
Ibn Sina records: "I learned the essence of true love, that love which results in complete obedience." The love of Allah demands total and unconditional obedience.
Allah, the Almighty says:
(Say [oh, Muhammad!]: "If you love Allah, follow me: Allah will forgive your sins, for Allah is Oft-forgiving, Most Merciful)(Qur'an 3:31)
After Prophet Muhammad (pbuh) was commissioned for Prophet Hood, the first thing he was commanded to do by Allah was to pray.
The angel Jibreel came to him and a spring of water gushed out of the rocks in front of them. Jibreel then showed Prophet Muhammad (pbuh) how to make ablution. He then showed him how to pray to Allah (swt). Then Prophet Muhammad (pbuh) went home and showed his wife Khadeejah what he had learnt from the angel Jibreel.
At first the prophet (pbuh) prayed two rak'ah twice a day, once in the morning and once in the evening.
From that time, the Prophet (pbuh) never went through a day without praying. Just before his migration to Madinah, he was taken on a night journey to Jerusalem and then to the heavens (Mi`raaj).
During this journey, Allah, Almighty, ordered him to pray five times a day. This prayer was a gift given to every Believer to enable him to experience a spiritual ascension five times a day.
Prophet Muhammad (pbuh) said:
"The prayer is the Mi`raaj of the Believer."
Prayers give every Muslim the chance to communicate with his Lord. During each prayer, the Muslim recites "Soorah Al-Fatihah": This recitation is not a dull monologue by the Believer, but Allah promises that it is a conversation between Him and the worshipper.
Prophet Muhammad (pbuh) reported that Allah, the Almighty says:
'When my slave says in his prayer: "All praise is for Allah, the lord of the worlds" I say: "My slave has praised me" When he says: "The Merciful, the Compassionate, Master of the Day of Judgment," I say: "My slave has glorified me." When he says: "You alone we worship and your aid we seek," I say: "This is between me and my slave." When he says: "Show us the straight path," I say: "This is for my slave, and I give my slave what he wants."
The Prophet (pbuh) once said:
"Prayer is the pillar of religion."(Narrated by Al-Baihaqi)
He also informed us that Islam is built upon five pillars, the second being to establish prayer five times a day. (Narrated by Al-Bukhaari)
This makes the image very clear: Islam is like a building supported by five columns; remove just one column and the entire building weakens. In the same way, when a person stops praying, his faith becomes weak, and the mildest blows can cause it to crumble.
The prayer is so very important that the Prophet (pbuh) said:
"Verily, between man and polytheism and disbelief is abandoning prayer."(Narrated by Muslim)
Regarding the plight of disbelievers on the Day of Judgment, Allah (swt) says:
(What led you into the Hell-fire?" They will say: "We were not of those who prayed.)(Qur'an 74:43).
Allah (swt) also says:
(Successful indeed are the Believers, those who humble themselves in their prayers)(Qur'an 23:2),
(And those who guard [strictly] their worship, such will be the honoured ones in the Gardens [of Bliss])(Qur'an 70:35).
Allah (swt) has emphasized the need for humility and concentration in prayers. There is no doubt that Satan is the bitterest enemy of man; he always tries to disturb the Believer's prayers.
A Muslim (the worshipper) may find his/her mind suddenly engulfed with memories, problems, worries, work and family and will often find himself wondering whether he has prayed three rak`ah or four. This is how Satan steals the prayer. Allah (swt) says that man was created only to worship him, He (swt) says:
(I created not the jinns and mankind except to worship me) (Qur'an 51:56)
Man is to live in this world as a worshipper of Allah and prayer is the best form of worship. On the Day of Judgment, man will have to answer for his deeds.
Allah (swt) says:
(Then shall you be questioned about the joy [you indulged in])(Qur'an 102:8)

04 February, 2011

Taleem Fun Aur ismat faroshi

 

Taleem Fun aur ismat faroshi

ادب اور اخلاقی اقدار

بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم 
  ادب اور اخلاقی اقدار

ترجمہ: اور شعرا، تو ان کے پیچھے بہکے ہوئے لوگ چلتے ہیں۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے ہیں اور وہ ایسی باتیں کہتے ہیں جو کرتے نہیں۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے، جنہوں نے نیک اعمال کیے اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا۔
عَن اُبَّیِ بِن کَعْبٍؓ قَالَ قَا لَ رَسُولُ اللّٰہِ ؐ اِنَّ مِنَ الشِعْرِ حِکْمَۃً (بخاری مسلم۔ کتاب نبوت 3/342) ابی بن کعبؓ نے کہا رسولُ اللہؐ نے فرمایا بے شک بعض اشعار سراسر حکمت ہوتے ہیں۔
قرآن انسانی زندگی کے جملہ انفرادی و اجتماعی امور کے لیے ہدایت و رہنمائی ہے۔ ( ہُدًی لِّلنّاسِ۔ البقرہ : 185) اس کی ہدایت آفاقی ہے۔ یعنی یہ ہر زمانے، ہر خطے اور رنگ و نسل کے انسانی سماج کے لیے ہے۔ نیز یہ ہر سماجی سطح کے انسانوں کے لیے ہے۔ چنانچہ اس میں ادیبوں اور شاعروں کی زندگیوں اور ان کی تخلیقات دونوں کے لیے ہر طرح کی رہنمائی موجود ہے۔ قرآن صراط مستقیم یعنی اسلام کی طرف انسانوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ (اِہْدِنَا الصِّراطَ المستقیم ۔ الفاتحہ: 6) یعنی شاعر و ادیب خود بھی مسلمان بنیں اور ان کی تخلیقات بھی مسلمان ہوں۔ تخلیقات کے مسلمان بننے کا مطلب ہے کہ وہ بہترین احساسات و خیالات سے مُزیَّن اور برائیوں سے پاک ادب ہو۔ بقول مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ ’’اس میں پاکیزہ جذبات و خیالات کا اظہار ہو۔ جو حقائق بیان کرے۔ جو انسان کو برائیوں کی طرف لے جانے والا نہ ہو۔ جو بھلائی کو نگاہ سے اوجھل نہ کرے۔ ‘‘
قرآن سے اہل علم و ادب کو حسب ذیل اخلاقی رہنمائیاں ملتی ہیں:
  قرآن کا آغاز اللہ کے نام اور اس کی حمد و ثنا سے ہوتا ہے۔ (بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم o اَلحَمدُلِلّٰہِ رِبِّ العَالَمِین۔ الفاتحہ:1۔2) اس کے ہر باب کا آغاز بھی بسم اللہ سے ہی ہوتا ہے نیز اس کا ہر صفحہ اللہ کی پاکی اور بڑائی کے بیان سے مزین ہے۔ اس میں ہمارے لیے یہ رہنمائی ہے کہ ہم بھی اپنی نثرو نظم کا آغاز ہمیشہ خدا کے نام سے کیا کریں اور دونوں اصناف میں خدا کی حمد و ثنا، اس کی پاکی و بزرگی اور اس کی قدرتوں کا بیان ہو۔ شعراء کے لیے تو ضروری ہے کہ وہ حمد و مناجات کہا کریں۔ نثر نگاروں کا حال تو اور بھی برا ہے کہ وہ اللہ کی بخشی ہوئی نثرنگاری کی صلاحیت اور دیگر نعمتوں سے فیضیاب ہوتے ہیں مگر خدا کی حمد و ثناء میں چند جملے یا ایک آدھ مضمون بھی کبھی نہیں لکھتے۔ اللہ ہم سب کو توفیق دے۔
  اسی طرح قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ خود بھی اور اس کے فرشتے بھی حضرت محمدؐ پر درود و سلام بھیجتے رہتے ہیں۔ (اِنَّ اللّٰہٰ وَمَلٓاءِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ط یَا اَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا صَلُّوعَلَیہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیماً ۔الاحزاب : 56) نیز دیگر مقامات پر بھی قرآن میں اللہ نے آپؐ کی تعریف و توصیف فرمائی ہے۔ چنانچہ ادباء و شعراء کو بھی سیرت مبارک پر مضامین اور نعتیں و سلام لکھتے رہنا چاہیے۔ البتہ اس کام میں غلو اور حد سے تجاوز کرنے کو اللہ ناپسند فرماتا ہے۔ مثلاً محمدؐ کو خدا کے برابر یا خدا بنالینا جیسا کہ بعض شعراء نے کیا ہے۔ اس معاملے میں سخت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی نے کہا ہے ؂ باخدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار۔
  قرآن میں بہت سے غیر انبیاء مرد و خواتین کے تذکرے بھی ہیں جنہوں نے اچھے اور نیک کام انجام دیے تھے۔ اس سے ہمیں یہرہنمائی ملتی ہے کہ نیک لوگوں کی تعریف و توصیف میں مضامین اور قصیدے لکھنا جائز ہے۔ البتہ منہ پر کسی کی تعریف کرنے سے آنحضورؐ نے منع فرمایا ہے۔ مبادہ نفس موٹا ہونے سے وہ شخص مغرور و متکبر ہوجائے۔ لیکن دین کی غیر معمولی خدمت کرنے پر آپؐ نے منہ پر بھی تعریف فرمائی ہے۔ غزوۂ احد کے موقع پر آپؐ نے حضرت سعدؓ بن وقاص کی تیراندازی کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا ’’سعد تم پر میرے ماں باپ قربان، اسی طرح تیر چلائے جاؤ۔‘‘
  قرآن نے برے لوگوں کو فہمائش اور ان پر لعنت ملامت بھی کی ہے۔ چنانچہ ادیبوں اور شاعروں کو سماج کے برے اور شریر لوگوں کو اپنی تخلیقات کے ذریعے ٹوکتے رہنا چاہیے تاکہ ان کی اصلاح کے راستے انہیں معلوم ہوجائیں۔ قرآن نے اہل اقتدار کی خرابیوں پر زیادہ گرفت کی ہے کیونکہ ان کی خرابیوں کے اثرات ہمہ گیر اور دوررس ہوتے ہیں۔ ظالم اور جابر صاحب اقتدار کے سامنے کلمہ حق کہنا سب سے بڑا جہاد ہے نیز مستحقین یعنی کمزوروں اور مظلوموں کے حق کے لیے آواز اُٹھانا سب سے بڑی نیکی ہے۔ اس لیے ادباء و شعراء کو اہل اقتدار کی حاشیہ برداری کرنے کی بجائے مظلوموں اور کمزوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی تخلیقات استعمال کرنی چاہیے۔
  قرآن کی رہنمائی اور ہدایت کے مطابق مسلمان شعرا و ادباء کی تخلیقات توحید، رسالت اور آخرت کے پختہ یقین نیز حسن اخلاق اور تمام تر معروفات سے معمور و مزین نیز کفر و شرک اور تمام سیئات و منکرات سے پاک ہونی چاہئیں۔ اُردو کے ابتدائی دور کی شاعری کا بڑا حصہ مذہبی اور اخلاقی قدروں سے معمور نظر آتا ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ یہ چشمۂ صافی گدلا ہوتا گیا۔ اس میں شراب و شباب کے مضامین بڑھتے گئے اور مذہبی و اخلاقی مضامین کم سے کم تر ہوگئے۔ مولانا شبلی نعمانی، مولانا حالی، اکبر الہ آبادی، اقبالؒ وغیرھم نے اس خرابی کی روک تھام کرنے کی پوری کوشش کی۔
 
  قرآن نے شراب کو حرام قرار دیا ہے۔ چنانچہ مسلمان ادیبوں اور شاعروں کو اس سے کلی اجتناب کرنا چاہیے اور اپنی تخلیقات کو بھی اس ام الخبائث کے ذکر سے پاک رکھنا چاہیے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اُردو کے بیشتر ادباء و شعراء نے اپنی ذات اور تخلیقات دونوں کو اس حرام سے آلودہ کرکے خدا کی نافرمانی کی۔ یہاں تک کہ بہت سے پابند شرع شعراء نے بھی حالات کے دباؤ سے مے ومے کشی پر اشعار کہے ہیں۔
  نامحرموں سے خلط ملط قرآن نے ممنوع قرار دیا۔ مردوں کو نظریں نیچی رکھنے اور خواتین کو حجاب اختیار کرنے کا حکم دیا۔ قرآن نے عشق و عاشقی کے مکروہ فعل کو چوری چھپے آشنائی سے موسوم کیا ہے۔ یہی فعل آگے جاکر زنا جیسے فحش عمل میں بدلنے کا امکان رہتا ہے۔ اس لیے قرآن اور حدیث میں یہ لفظ ہی کہیں استعمال نہیں کیا گیا۔ اس سے اس کی شناعت ظاہر ہوتی ہے۔ لیکن عشق و عاشقی ہمارے ادب اور کا جزوِلاینفک بن گئے ہیں اور فحش نگاری سے ہمارے ناول، افسانے، نظمیں، گیت غزلیں بھرے پڑے ہیں۔ اردو شاعروں اور ادیبوں کے لیے بس یہی ایک موضوع رہ گیا ہے۔ ؂ ہند کے شاعر و صورت گرو افسانہ نویس آہ بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار
حال ہی میں ماہنامہ تحریر نومیں ایک قاری سنجے کمار کا خط شائع ہوا ہے۔ بہت دکھ سے لکھتے ہیں کہ وہ اُردو ہندی دونوں زبانوں کے رسائل پڑھتے ہیں، اُردو کے رسائل میں تشنگی پاتے ہیں۔ خاص طور سے عصر حاضر کے مسائل، تانیثیت اور دلتوں کے مسائل اور دیگر دلچسپ موضوعات اردو میں بہت کم دیکھنے کو ملے ہیں۔ ایک سنجے کمار ہی کیا، ہر سنجیدہ اور شریف قاری یہی سوچتا ہے۔ افسوس کہ اُردو ادب میں فحاشی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ بعض لوگ تو اس کو منظم سازش کے تحت کررہے ہیں۔ اگر اُردو ادب سے یہ صورتحال ختم نہ ہوئی تو قاریوں کو اجتماعی فیصلہ کرنا پڑے گاکہ جس طرح پارلیمنٹ اور اسمبلی میں یا دیگر سنجیدہ محافل و مجالس میں کوئی بے ہودہ بات زبان سے نکال دے تو اسے معافینگنی پڑتی ہے اور اپنی بات واپس لینی پڑتی ہے نیز کاروائی کی روداد میں اسے درج نہیں کیا جاتا ہے، بالکل اسی طرح الحاد و تشکیک ، زندگی سے فراریت اور مایوسی ، ہوس رانی اور فحاشی، مے نوشی اور ناجائز عشق و عاشقی وغیرہ برائیوں پر مبنی نثر اور شاعری لکھنے والے ادباء و شعراء اہلیان اُردو سے معافی مانگیں اور اپنی بے ہودہ تخلیقات واپس لیں۔ ورنہ اُردو ادب سے ایسی تخلیقات کو جبراً خارج کیا جائے گا۔
ایسا نہیں ہے کہ قرآن صرف خشک قسم کی وعظ و نصیحت سے ہی بھرا پڑا ہے۔ اس میں جابجا خوبصورت ادبی اسلوب کے لعل و گوہر بکھرے پڑے ہیں۔ قصۂ یوسف ؑ اس کی حسین مثال ہے۔ حضرت سلیمانؑ ، ابراہیمؑ اور موسیؑ کے واقعات بھی بے حد دلچسپ اسلوب میں بیان ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ قرآن نے جابجا بڑی خوبصورتی سے نازک اور پیچیدہ باتوں کو اس طرح بیان کردیا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی اور استعارہ کی خوبصورتی دل کو گدگداتی اور اثر ڈالتی ہے۔ دو مثالیں:
(1) حضرت مریم کو فرشتے عیسیؑ ٰ کے پیدا ہونے کی خوشخبری دیتے ہیں تو کنواری مریم حیرت خوف اور شرم سے جو لاجواب ، جواب دیتی ہیں وہ استعارہ دنیا کی کسی زبان کے ادب میں موجود نہیں ہوگا۔ وہ کہتی ہیں ’’میرے ہاں بچہ کہاں سے ہوگا، مجھے تو کسی مرد نے ہاتھ تک نہیں لگایا‘‘ (ترجمہ : آل عمران:47)
(2) ایک بہت نازک اور خوبصورت استعارہ شوہر بیوی کے لیے سورہ البقرہ: 187 میں استعمال کیا گیا ہے۔ فرمایا ’’وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔ یعنی جیسے لباس او رجسم کے درمیان کوئی اور شے نہیں ہے اور وہ جسم کی سترپوشی، حفاظت اور تزئین کرتا ہے یہی حال میاں بیوی کا ہے کہ ان کے درمیان کوئی اور نہیں ہوتا کہ ان کے رازوں سے واقف ہو اور وہ ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرتے ہیں اور تسکین و محبت کا سامان فراہم کرکے باہم ایک دوسرے کو برائیوں سے بچاتے اور ایک دوسرے کو خوش رکھتے ہیں۔

قرآن نے شوہر بیوی کے تعلقات کو جہاں بیان کیا ہے محض استعاراتی زبان میں ہی بیان کیا ہے تاکہ بات بھی پوری ہوجائے اور پردہ بھی برقرار رہے چنانچہ فرمایا (1) تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں۔ تمہیں اختیار ہے جس طرح چاہو اپنی کھیتی میں جاؤ۔ (2) اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے (الاعراف:189) ۔ (3) پھر جب مرد نے عورت کو ڈھانک لیا تو اسے ایک خفیف سا حمل رہ گیا (الاعراف:189) ۔ (4) تم پر کچھ گناہ نہیں، اگر اپنی عورتوں کو چھونے سے قبل ہی طلاق دے دو (البقرہ:236)۔ میاں بیوی کے تعلقات کو قرآن جس طرح بیان کررہا ہے وہ ان ہم عصر ادیبوں اور شاعروں کے لیے ہدایت اور سبق ہے جو مرد اور عورت کے تعلقات کو عریاں اور فحش انداز میں بیان کرتے ہیں۔ اس سے یہ رہنمائی بھی ملتی ہے کہ اگر ایسی باتیں بیان کیے بنا چارہ نہ ہو تو مجبوراً اشاروں، کنایوں میں بیان کی جاسکتی ہیں۔

ادب پر مذہب کی یہ اخلاقی پابندیاں فرض کے درجے کی ہیں۔ ان سے مفر ممکن نہیں۔ کوئی ان حدود کو توڑتا ہے تو گناہگار ہوتا ہے۔ ادب کو اخلاقی حدود کا پابند ہونا چاہیے، یہ صرف قرآن و حدیث سے ہی ثابت نہیں ہوتا بلکہ تمام ادیان کی مذہبی کتب یہ پابندیاں عائد کرتی ہیں۔
اس پابندی کا جواز دوسرے پہلو سے بھی ثابت ہوتا ہے ، وہ یہ کہ ادب تو اللہ کی طرف سے انسان کو بخشے گئے بہترین انعام’’ نطق و گویائی‘‘ کا بہترین مظہر ہے جس کے بارے میں قرآن میں اللہ نے اشارہ فرمایا ہے : اَلرَّحمٰن O عَلَّمَ القُرآن O خَلَقَ الاِنْسَانَ عَلَّمَہُ البَیَانَ O (سورہ الرحمن: 1تا 3 ) ترجمہ: رحمن نے اس قرآن کی تعلیم دی ہے۔ اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا۔ قوت نطق و گویائی نے ہی انسان کو تمام مخلوقات میں اشرف و افضل بنایا ہے۔ انسان جو کچھ دیکھتا اور سوچتا سمجھتا ہے اسے بیان کرسکتا ہے۔ بیان کے معنیپنے خیالات، جذبات و احساسات اور مدعا ظاہر کرنا ہے۔ اس کے دوسرے معنی فرق و امتیاز کو واضح کرنا بھی ہے۔ اس میں برائی اور بھلائی میں امتیاز کرنے کی اہمیت و فوقیت زیادہ ہے۔ گویائی کی قوت کے پیچھے عقل و شعور ، فہم و ادراک اور تمیزوارادہ وغیرہ کی قوتیں بھی کارفرما ہیں۔ چنانچہ اس عظیم نعمت کا صحیح استعمال انتہائی ضروری ہے۔ چاہے شاعری ہو یا اظہار خیال کی کوئی اور صنف مثلاً نثر، گفتگو، تقریر، وعظ وغیرہ۔ آدمی کو ہر وقت چوکنّا رہنا چاہیے کہ نعمت نطق و گویائی کا غلط استعمال نہ ہو۔ قرآن و حدیث میں اس کی بڑی تاکید آئی ہے۔
(i) یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُواللّٰہُ وَقُوْلُوٰ قَوْلًا سَدِیدًا O (الاحزاب: 70) ترجمہ: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کہو۔
(ii) وَ قُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُواالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ .... (بنی اسرائیل:531) ترجمہ: اے نبیؐ میرے بندوں سے کہہ دو کہ وہ بات کہیں جو بہترین ہو۔
(iii) وَعَن ابی ہریرہؓ عنِ النَّبِیِّؐ قَالَ مَنْ کَانَ یُوْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ لآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْراً اَوْیَصْمُت (بخاری مسلم) ترجمہ: حضرت ابوہریرہؓ نے نبیؐ سے روایت کیا کہ آپؐ نے فرمایا ’’جو اللہ و آخرت پر ایمان رکھے وہ اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے۔ ‘‘
(iv) عَن عبُداللہؓ بن عُمرٍؓ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِؐ: مَن صَمَتَ نَجَا (احمد ترمذی) ترجمہ: حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت نبیؐ نے فرمایا ’’جو خاموش رہا اس نے نجات پائی۔ ‘‘
(v) آپؐ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ جو مجھے اپنی رانوں کے درمیان کی چیز (شرمگاہ) اور جبڑوں کے درمیان کی چیز (زبان) کی ضمانت دیتا ہے (کہ ان کا صحیح استعمال ہوگا، غلط نہ ہوگا) میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔

درج بالا قرآنی آیات اور احادیث طے کردیتی ہیں کہ شعر و ادب اگر وہ اسلامی حدود کے اندر ہوں تو فنکار اور معاشرہ دونوں کے لیے مفید ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تہذیب میں ادب ہی نہیں دیگر فنون لطیفہ نے بھی ان حدود کا لحاظ رکھا اور تحریمات و مکروہات سے پرہیز و اجتناب کیا۔

اسلامی تہذیب کے بنیادی عناصر ہمیشہ توحید ،رسالت و آخرت رہے ہیں اور ان شاء اللہ آئندہ بھی رہیں گے۔ اسلامی تعلیمات کے اثرات ہی ہیں جن سے مسلم تہذیب و تمدن اور فنون لطیفہ میں شرک و بت پرستی سے اجتناب اور حرام سے دوری نظر آتی ہے۔ اس سلسلے میں اُردو دائرۃ المعارف اسلامیہ مطبوعہ لاہور میں بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے جس کا مختصر تذکرہ حسب ذیل ہے۔
ان اسلامی تعلیمات نے فن کا تصور ہی بدل دیا ۔ فن نقالی، مشابہت یا تقلید نہیں ہے بلکہ فن ایک عمل مطلق ہے۔ مسلم فن کار خالق نہیں، عامل ہوتا ہے۔ مسلم تہذیب میں فن کا مقصد صرف حظ، مسرت اور تفریح حاصل کرنا نہیں ہے۔ بلکہ اتصاف بہ اوصاف اللہ یعنی خدا کی طرح حسن خلاقیت سے متصف ہونا ہے۔ وحدانیت اور امتیاز خدا کی صفات ہیں۔ چنانچہ مسلم فن کار اپنے فن میں کمال، جدت، امتیازاور تفوق پیدا کرتا ہے۔ یہ اصول مسلم فن کار کو عمل خیر اور حسن عمل پر ابھارنے والے اصول ہیں جو اس کے فن کی تطہیر کرتے، اسے استحکام دیتے اور نیکی و خیر و حسن کا دوام اور استقامت بخشتے ہیں۔ یہ اصول اسے تسخیر اور غلبہ پر آمادہ کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ زندگی کے نازک اور پرپیچ مسائل کی تسخیراپنے فن کے ذریعہ کرتا ہے۔ اس کا عقیدہ اسے سکھاتا ہے کہ ان مسائل کی جڑ باطل افکار و نظریات ہیں چنانچہ وہ باطل افکار کی تسخیرکے لیے اپنے فن کے ذریعے غلط افکار، تصورات اور اعمال کی بیخ کنی کرتا ہے۔
اسلامی عقیدہ فن کار کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ وہ دنیا میں آزاد اور خود مختار نہیں ہے بلکہ اس کا فن، اس کی صلاحیتیں اور اس کی پوری زندگی اس کے پاس اللہ کی امانت ہیں۔ وہ اللہ کا خلیفہ و نائب ہے ۔ وہ امانت میں خیانت نہیں کرسکتا۔ چنانچہ وہ خلیفہ ہونے کی ذمہ داریاں پوری کرتا اور اپنے فن کو وفاداری سے استعمال کرکے نیابت کا حق ادا کردیتا ہے۔
اسلامی تہذیب نے سابقہ تہذیبوں سے اخذ و استفادہ کے لیے خُذمَا صَفَاء وَدَع مَا کَدَرَ یعنی صالح وصفا اجزا اخذ کرو اور غیر صالحترک کرو کا اصول اپنایا جس کے نتیجے میں برصغیر ہند و پاک ، مشرق بعید انڈونیشیا اور ملیشیا ، حجاز و عرب، ترکی، ایران، مشرقی و جنوبی یوروپ ، افریقہ اور چین وغیرہ میں درخشاں اور ممتاز مسلم تہذیب و تمدن کا آغاز ہوا اور یہ صدیوں تک قائم رہا۔ اسی تہذیب و تمدن نے آج کی جدید دنیا اور اس کے اعلیٰ تہذیب و تمدن کی بنیادیں فراہم کیں۔
اس موضوع کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ ادب ایک اعلیٰ درجے کا فن ہے۔ ادب کے معنی تہذیب و شائستگی، حفظِ مراتب، لحاظ، اچھی تربیت، اخلاق سکھانا وغیرہ ہے۔ وہ علم جس کے ذریعہ تقریر و تحریر میں غلطیوں اور لغزشوں سے بچا سکے اسے بھی ادب کہتے ہیں۔ وہ علم زبان جس میں نَحو، لغت، عَروض، انشاء ، معانی اور بیان شامل ہیں۔ (المنجد، فیروز الغات)۔ شعر کا لغوی مطلب سمجھ داری ، جانکاری ، شعورہے اور اس کا اصطلاحی مفہوم موزوں ، بامقصد اور بالارادہ کلام ہے۔ شعر کو بامقصد ہونا چاہیے۔ موجودہ دور میں زندگی کے تمام مسائل شاعری خصوصاً غزل میں سموئے جاتے ہیں جس سے غزل کی مقصدیت میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ اسی لیے رشید احمد صدیقی نے غزل کو اُردو شاعری کی آبرو کہا ہے۔ لیکن ہم عصر شاعر جاوید ندیم کا قول اس سے زیادہ منطقی اور پُرمعنی ہے جو غزل کو اُردو شاعری کا چہرہ کہتے ہیں۔ چہرہ آدمی کی شخصیت اور ذات کی شناخت ہوتا ہے۔ غزل بھی اُردو شاعری کی شناخت بن گئی ہے۔
شاعری کے اچھے برے اثرات انسانی سماج پر لازماً پڑتے ہیں کیونکہ شعر کی تاثیر مسلّم ہے۔ اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ شعر میں اختصار مضمون، موزونیت یعنی الفاظ کے مخصوص و منظم دروبست اور قافیہ ردیف کے لزوم کی بناء پر ایک قسم کی غنائیت پیدا ہوجاتی ہے جو اس کے زبان زد ہونے اور حافظہ میں محفوظ رہنے میں معاون ہوتی ہے۔ آدمی شاعری کو آسانی سے یاد رکھ سکتا ہے نثر کو نہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ شاعری سامع میں حزن یا نشاط اور جوش یا افسردگی پیدا کرتی ہے۔ مولانا الطاف حسین حالیؒ نے اپنی کتاب’’ مقدمۂ شعر و شاعری‘‘ میں اس کی کئی مثالیں دی ہیں۔ مثلاً :
(i) لارڈ بائرن انگلینڈ کا قومی شاعر تھا۔ اس کی شاعری مقبول عام تھی۔ اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ لوگ اس کی ہوبہو نقل کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اس کی ماتھے کی سلوٹوں جیسی سلوٹیں، اپنے ماتھے پر بھی پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
(ii) ایتھنز اور مگارا کی جنگ میں ایتھنز کی بار بار شکست ہوئی جس سے ایتھنز والوں کے حوصلے پست ہوگئے۔ ایک قانون داں سولن کو غیرت محسوس ہوئی اور اس نے اپنی قوم کو بیدار کرنے کے لیے کچھ اشعار کہے جو اتنے پراثر تھے کہ ایتھنز والے پھر سے لڑنے پر تیار ہوگئے۔ دوبارہ جنگ ہوئی تو پر جوش اہل ایتھنز کی فتح ہوئی۔ یعنی سولن کے اشعار نے نہ صرف لوگوں کو بیدار کیا بلکہ انہیں فتح سے ہمکنار کیا۔
(iii) انگلینڈ کے کنگ ایڈورڈ نے ویلز پر حملہ کیا۔ انگلینڈ کے آگے Wales کی کوئی حقیقت نہیں تھی۔ لیکن ویلز کے شاعروں نے قوم کو غیرت دلائی جس کے نتیجے میں اہل ویلز نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ایڈورڈ کو سخت پریشان کیا۔
(iv) میمون بن قیس نابینا تھا۔ اعشٰی اس کا تخلص تھا۔ اس کی شاعری اتنی پراثر تھی کہ شعروں میں جس کی تعریف کرتا وہ مشہور ہوجاتا اورجس کی ہجو کرتا وہ بدنام ہوجاتا۔ ایک بار اس کے پاس ایک عورت آئی جس کی بہت سی لڑکیاں تھیں لیکن کسی کی شادی نہیں ہورہی تھی۔ اس نے اعشٰی سے کہا کہ اپنے اشعار میں لڑکیوں کی تعریف کردے تو ان کی شادیاں ہوجائیں گی اور انہیں بر مِل جائیں گے۔ چنانچہ اعشیٰ نے ایک قصیدہ لکھا جس میں ان لڑکیوں کے حسن و جمال اور اخلاق و عادات کی زبردست تعریف و توصیف کی گئی تھی۔ جب یہ قصیدہ لوگوں تک پہنچا تو نتیجے میں عرب امراء سے ان لڑکیوں کی شادیاں ہوگئیں۔
(v) رودکی معروف و مشہور ایرانی شاعر تھا۔ خراسان فتح کرکے امیر نصربن احمد سامانی ہرات میں طویل عرصہ ٹھہرا اور سیر و شکار میں مصروف رہا۔ طویلِ قیام سے فوج اور امراء بیزار ہوگئے۔ انہوں نے لاکھ کوششیں کیں کہ امیر بخارا کی طرف کوچ کرے لیکن انہیں کامیابی نہملی۔ بالآخر انہوں نے رودکی کو آمادہ کیا کہ وہ امیر کا مزاج دیکھ کر اسے بخارا کی تعریف میں کوئی قصیدہ سنادے۔ رودکی نے بخارا کا قصیدہ لکھا۔ امیر قصیدہ سن کر ایسا بے قرار ہوا کہ فوراً بخارا کی طرف کوچ کرنے کا حکم دے دیا۔
(vi) یہ بات عرب تاریخ میں درج ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں شعراء کے کلام کی وجہ سے جنگیں ہوجایا کرتی تھیں۔
(vii) شعر کی اسی تاثیر کی وجہ سے حضورؐ کافروں اور مشرکوں کی ہجو کا جواب حسّانؓ بن ثابت، عبداللہؓ بن رواحہ وغیرہ سے دلاتے تھے۔

اُردو شاعری کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اُردو میں بھی انتہائی پراثر شاعری کی گئی ہے۔ اُردو کے ابتدائی دور کی شاعری تو تقریباً مذہبی مواعظ اور پندو نصائح پر مبنی ہے۔ بعد کے ادوار میں بھی شاعری سے سماجی اصلاح اور دینی شعائر عام کرنے کی خدمت لی جاتی رہی ہے۔ خصوصاً خانوادۂ حضرت حسینؓ کی شہادتوں اور واقعات کربلا کے پراثر اظہارکے لیے مرثیہ نگاری کی صنف سے بڑی خدمات لی گئی ہیں۔

مولانا شبلی نعمانیؒ ، علامہ اقبالؒ اور مولانا حالی نے بھی اپنے کلام کے ذریعہ ملت اسلامیہ ہند میں بیداری کی روح پھونک دی تھی۔
اکبر الہٰ آبادی کے طنز و مزاح سے بھرپور اشعار نے انگریزی تہذیب و تمدن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جو ہندوستانی مشرقی تہذیب پر غالب ہوتی جارہی تھی، انہوں نے اس پر ضرب کاری لگائی نیز اہل ہند خصوصاً مسلمانوں کو اس تہذیب کے مضر اثرات سے بچانے میں نمایاں رول ادا کیا۔
شاعری سے سماج پر جو مثبت اثرات پڑتے ہیں ان کے پیش نظر ہمیشہ ہی بہتر انسانی جذبات مثلاً جدوجہد، قربانی، اخوت و بھائی چارہ حب وطن، آزادی، ظلم و غلامی سے نجات، دشمن پر فتح ، کمزوروں کی مدد و حمایت وغیرہ پیدا کرنے اور بڑھانے کے لیے شاعری سے ہمیشہ مدد لی گئی ہے۔ نظموں، نغموں، ترانوں، گیتوں وغیرہ سے سامع میں ایک قسم کا جوش و خروش، پیش قدمی اور عزم و حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔
درج بالا بحث میں بیان کردہ تینوں نقطے (1) قرآن و حدیث کے احکامات (2) اللہ کی عطا کردہ نعمتِ نطق و گویائی کا درست استعمال اور (3) شعر و ادب کے انسانی سماج پر اثرات، طے کردیتے ہیں کہ ادب اور اخلاقی اقدار لازم و ملزوم ہیں۔ انہیں الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اگر خدانخواستہ ادب کو اخلاقی اقدار سے دور کردیا گیا تو یہ ہر لحاظ سے انسانوں کے لیے مضرت رساں ہی ثابت ہوگا۔


--
Mohammad Asalm Ghazi,
Sec. National & International Affairs Dept.
JAMA'AT ISALMI HIND MAHARASTRA.
--

Followers