21 September, 2011

سلوک کی شرط اولین :/راز کی حفاظت کرنے کا بیان/ان شاء اللہ کہنے سے کام بنتے ہیں

سلوک کی شرط اولین :


راہ سلوک میں نااہل کا گزر نہیں اس میں صادق ہی کامیاب ہوسکتے ہیں چنانچہ حضرت مخدوم نے فرمایا کہ اگرکوئی نااہل اس راہ سلوک میں قدم رکھ دیتا ہے تو اسے بڑی فضیحت ہوتی ہے اور وہ اس میں کامیاب نہیں ہوتا ،کیونکہ اس راہ میں صادق ہی کامیاب ہوسکتا ہے ، صوفیہ کے یہاں کچھ علامتیں مقرر ہیں جن سے وہ اہل اور نااہل کی تمییزکرلیتے ہیں-
ابویزید رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں ایک آدمی کو زہدوتقوی اور باطنی صفائی میں بہت شہر ت حاصل تھی ابو یزید رحمۃ اللہ علیہ اس کو دیکھنے کے لئے گئے اتفاق سے وہ آدمی اپنے گھر سے مسجد جارہا تھا چلتے چلتے قبلہ کی طرف منہ کرکے اس نے تھوک دیا ، ابویزید رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: جس کے اعضاء و جوارح رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے طریقوں اور آداب کے ساتھ خوگر اور عادی نہیں ہوئے ہیں وہ اپنے دعویٰ بزرگی میں کیسے صادق ہوسکتا ہے ؟اور اسی جگہ سے وہ بلا ملاقات کئے واپس چلے گئے۔(جوامع الکلم:89/90)
حضرت بندگی مخدوم کا مسلک حق اہل سنت وجماعت :

بعض لوگ قطب الاقطاب حضرت بندگی مخدوم رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک حق اور مشرب صدق سے متعلق غلط باتیں منسوب کر کے گمراہ فرقوں سے جوڑنے کی ناپاک جسارت کرتے ہیں معاذاللہ یہ سب باتیں ہفوات وہرزہ سرائی کے سواکچھ نہیں،حقیقت سے اس کا دور کا بھی کوئی تعلق ورشتہ نہیں، اہل حق نے ہر دور میں بندگی مخدوم کے مسلک ومشرب سے متعلق حقائق کو واشگاف کیا اور روز روشن کی طرح نفس الامرکی معرفت دلائی کہ حضرت بندگی مخدوم علیہ الرحمہ نے مسلک اہل سنت وجماعت کی نشرواشاعت ،مذہب حنفی کی تشریح وتوضیح طریقہ صوفیہ کی ترویج و تبلیغ، سالکین کے تزکیہ وتصفیہ اور بندگان خدا کی تعلیم وتربیت میں اپنی حیات مقدسہ کے ایک ایک لمحہ کو اوراپنے انفاس قدسیہ سے ہر ہرنَفَس کو وقف فرمادیا تھا جس پر آپ کی گراں قدر تصنیفات و تالیفات، تحقیقات وتعلیقات،مواعظ وارشادات ،مکتوبات وملفوظات شاہدعدل ہیں ،چنانچہ آپ کے شہزادۂ اکبر جوامع الکلم میں صفحہ67/68 پر حضرت بندگی مخدوم کے حوالہ سے رقمطرازہیں:
’’ بہت سے لوگ حضرت امیرالمؤمنین علی کرم اللہ وجھہ کی فضیلت کے بارے میں مبالغہ سے کام لیتے ہیں ،کوئی انہیں نبی اور خدا تک کہہ دیتا ہے اوراس طرح غرابیہ ، صحابیہ ، نصیریہ صابیہ بہت سے گروہ پیدا ہوگئے ہیں۔
ہر ایک کے بارے میں تفصیل بیان کرنا تو بہت طویل بات ہے لیکن حق مذہب یہ ہے کہ امیرالمؤمنین ابو بکر رضی اللہ عنہ صحابہ کرام میں افضل ہیں ان کے بعد عمر رضی اللہ عنہ ان کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ ان کے بعد علی رضی اللہ عنہ ہیں اور انکے بعد تمام صحابہ اور اولیاء کرام اور اس کے علاوہ جو کچھ توہمات اور پراگندہ خیالی ہے وہ گمراہی ہے ‘‘۔(جوامع الکلم ص:67/68)
نور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نہیں:

حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مکشوفات والہامات کو ایک رسالہ میں نقل فرمایا ، حضرت بندہ نواز رحمۃاللہ علیہ نے جواہر العشاق کے نام سے اس رسالہ کی شرح فرمائی چنانچہ حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے ایک الہام کی شرح میں فرماتے ہیں :
اللہ تعالی نے فرشتوں کو حضرت محمد(مصطفی) صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے پیدا کیا اور حضرت محمد (مصطفی) صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے نور سے ، اللہ تعالی فرماتا ہے ۔۔۔۔ بموجب حدیث قدسی ۔
کنت کنزامخفیا فاحببت ان اعرف
’’میں پوشیدہ خزانہ تھا پس چاہا کہ پہچانا جاؤں‘‘
میں نے چاہا کہ جومیری شان ہے ،اور جو کچھ میرے جمال وکمال اور قدرت میں ہے اس کو ظاہر کروں ۔(تو میں نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا فرمایا )مزید آگے تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
کافروں نے یہ بات نادانی سے کہی کہ:
’’ ابشر یہد وننا‘‘
کیا بشر ہم کو راستہ بتاتے ہیں؟
پس حکم ہوا کہ
کفروا
وہ لوگ کافر ہوگئے اتنا نہ سمجھ سکے کہ
کان یمشی ولاظل لہ
(آپ چلتے تھے اورآپ کا سایہ نہ تھا)
محمد(مصطفی) صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کے نور سے ہیں نور خدا کا سایہ کیسے ہوسکتا ہے؟۔انتہی
ملخصا(جواہر العشاق ص:59)
مدینہ منورہ میں روضہ مقدسہ ہونے کی حکمت:

حضرت مخدوم علیہ الرحمہ نے فرمایا :یہ مشیت الہی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روضہ اطہر مکہ معظمہ میں نہ ہو، تاکہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی زیارت ،حج کعبہ کی طفیلی نہ ہوجائے ، حج کعبہ کے بعد علیحدہ سے خاص کرقصد،مدینہ منورہ کاکیا جائے ،امام شافعی کے قول کے مطابق تو مکہ معظمہ کی طرح مدینہ منورہ بھی حرم ہے لیکن تعظیم وتکریم کے واجب ہونے کے بارے میں تو سب ہی متفق ہیں ۔انتہی ملخصا(جوامع الکلم ص:361)
خوف الہی ،عبادت وطاعت امتیاز اہل بیت :

حضرت بندگی مخدوم علیہ الرحمہ نے ارشاد فرمایا کہ اہل بیت میں دو چیزیں عام طور پر پائی جاتی ہیں اوران سے کسی کو بھی خالی نہ دیکھو گے –
ایک تو خوف خدا ،دوسرے عبادت وطاعت الہی –
اس میں کوتاہی ان میں سے کسی میں نہیں دیکھی جاتی (جوامع الکلم ص:87)
سلوک کی بنیاد کیا ہے اور ضرورت شیخ کیوں؟

قلب کی پاکیزگی اور باطن کا تزکیہ ہی دارین کی صلاح وفلاح اور کامیابی وکامرانی ہے اور سلوک کی بنیاد تخلیہ وتجلیہ پرہے، حضرت بندگی مخدوم رحمۃ اللہ علیہ اپنے مکتوبات میں تحریرفرماتے ہیں:
تخلیہ سے مراد ہے ، اللہ جل شانہ کے سوا اور سب طرف سے دل کو ہٹالینا اورتجلیہ سے مراد ہے نفس کا تزکیہ اور جلا،توجہ تام کے ساتھ اللہ جل شانہ کی طرف متوجہ ہونے اور نفس کو طرح طرح کی عبادتوں میں مشغول رکھنے سے جلائے باطن حاصل ہوتی ہے، جس نے یہ دونعمتیں پالیں اسے دونوں جہاں کی نعمتیں مل گئیں ۔
خدائے عزوجل تک جو لوگ پہنچے ہیں وہ ہوائے نفس کے خلاف عمل کرنے ،اللہ کی یاد میں راتوں کو جاگنے ، دن میں روزے رکھنے اور کھانے پینے میں کمی کرنے اور دائمی طور پر متوجہ رہنے سے اس مرتبہ پر پہنچے ہیں –
اس نعمت کے حصول کے لئے پیر کی توجہ کی ضرورت ہے ،ہم سے جو پیر نے فرمایا ہم اس پر چلیں اوران کی اقتداء کی برکت سے فضل الہی ہمارے شامل حال ہوا اور تمام مرادیں مل گئیں ایک کلیہ ہے جو میں کہہ رہاہوں جزئیات کو اسی پر تطبیق دے لو ،جہاں ہوائے نفس ہو اسے ترک کردو جہاں کوئی آرزو ہو اسے نظر سے دور کردو، دیکھو تو پھر کیا کیا نعمتیں نصیب ہوتی ہیں ۔(مکتوبات بندہ نوازص:48/49)
سونے سے پہلے دن بھر کے عمل کا جائزہ لینا چاہئیے:

سنن ابن ماجہ شریف ص 314، میں حدیث مبارک ہے :
عن ابی یعلی شداد بن اوس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الکیس من دان نفسہ وعمل لما بعد الموت العاجز من اتبع نفسہ ہواہا ثم تمنی علی اللہ۔
ترجمہ:حضرت ابو یعلی شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کو اللہ کی رضا کا تابع وفرمانبردار بنادے اور موت کے بعد والی زندگی کے لئے عمل کرے اور نادان وہ ہے جو نفس کو اس کی خواہش کا تابع بنا دے پھر اللہ کے بھروسہ پرآرزوئیں اور امیدیں باندھے رکھے ۔
اس سلسلہ میں حضرت بندگی مخدوم علیہ الرحمہ کا ارشاد ملاحظہ ہو :
روزانہ سونے کے وقت آدمی کو اپنے دن بھر کے عمل اور قول کا جائزہ لے کر سونا چاہئیے، العیاذباللہ اگر اس سے دن میں کوئی غلط اور بے ہودہ حرکت ہوگئی ہے تو اس سے اس کو توبہ استغفار کرنا چاہیے اورکوشش کرنا چاہیے کہ آئندہ اس طرح کی حرکت اس سے نہ ہواور اگر اس سے اچھا اور مستحسن کام ہوگیا ہوتو برابر اس پر ثابت قدم رہنے کی کوشش کرے اور اللہ سے اس پر استقامت کی دعا مانگے اور اللہ کا شکر ادا کرے جو آدمی اس پر عمل پیرارہے گا وہ قیامت کے دن حساب کتاب سے بے خوف رہے گا ،
فسوف یحاسب حساباً یسیرا ۔
(جوامع الکلم:287/288)
راز کی حفاظت کرنے کا بیان

٫٫حضرت عبداللہ بن عمر رض سے راویت ہے کہ جب حضرت عمر رض کی بیٹی حفصہ بیوہ ہوگئيں تو حضرت عمر رض کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان رض سے ملا اور انہیں حفصہ سے نکاح کرنے کی پیشکش کی اور کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں اپ کا نکاح حفصہ سے کردیتا ہوں- انہوں نے فرمایا، میں اپنے معاملے میں غور کروں گا- پس کئی راتیں ٹھرا رہا، پھر وہ مجھے ملے اور کہا کہ میرے سامنے یہی بات واضح ہوئی ہے کہ میں ان دونوں میں شادی نہ کروں گا- پھر میں ابوبکر رض سے ملا، اور کہا کہ اگر آپ چاہیں تو آپ کا نکاح حفصہ بنت عمر سے کردوں- حضرت ابوبکر رض خاموش رہے ، مجھے پلٹ کر کوئی جواب نہیں دیا- پس میں ان پر عثمان رض سے زیادہ رنجیدہ ہوا- تو میں کئی راتیں ٹھر ا رہا ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ کے لیے نکاح کا پیغام بھیجا تو میں نے حفصہ کا نکاح آپ سے کردیا- پھر مجھے ابوبکر رض ملے تو انہوں نے فرمایا (اے عمر!) شاید تم مجھ سے رنجیدہ ہوئے، جب تم نے میرے لیے حفصہ کے نکاح کی پیشکش کی تھی تو میں نے تمہیں پلٹ کر کوئی جواب نہیں دیا تھا- حصرت عمر رض فرماتے ہیں کہ: میں نے کہا ہاں- حضرت ابوبکر رض نے فرمایا، جب تم نے مجھے پیشکش کی تھی تو میرے لیے تمہیں جواب دینے میں صرف یہ بات مانع (رکاوٹ) ہوئی کہ میں جانتا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ (کے ساتھ نکاح کرنے) کا ذکر کیا تھا- پس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کو ظاہر کرنا نہیں چاہتا تھا- (ہاں) اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ارادہ ترک فرمادیتے تو میں حفصہ کے ساتھ نکاح کرنے کی پیشکش یقینا قبول کرلیتا-

تخریج: صحیح بخاری، کتاب النکاح باب عرض الانسان ابنتہ اواختہ علی اھل الخیر، وغیر ھما من کتاب الصحیح، ح:5122-
فائدہ: اس میں رازوں کی حفاظت کرنی چاہیے اور وہ لوگوں کے سامنے ظاہر نہیں کرنے چاہیے-
حضرت ثابت، حضرت انس رض سے روایت کرتے ہیں- حضرت انس کہتے ہیں کہ میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے جب کہ میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، پس آپ نے ہم (بچوں) کو سلام کیا اور مجھے ایک کام کے لیے بھیج دیا چنانچہ مجھے اپنی ماں کے پاس آنے میں دیر ہوگئی، پس جب میں آیا تو والدہ نے پوچھا، تجھے کس چيز نے روکا لیا تھا؟ میں نے کہا، مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کام کے لیے بھیج دیا تھا، انہوں نے پوچھا، وہ کیا کام تھا؟ میں نے کہا، ایک راز ہے- والدہ نے فرمایا (ٹھیک ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز کسی کو مت بتلانا-
حضرت انس رض نے فرمایا، اللہ کی قسم! اگر وہ راز کسی کو بیان کرنا ہوتا تو اے ثابت! میں تجھ سے ضرور بیان کرتا-
تخریج: صحیح بخاری، کتاب الاستئذان، باب حفظ السر، ح:2689-
فوائد: اس میں بھی راز کے افشاء نہ کرنے کی تاکید ہے- انس رض کے یہ کہنے پر کہ وہ ایک راز ہے، ان کی والدہ نے اسے ظاہر کرنے پر اصرار نہیں کیا بلکہ بیٹے کے موقف کی تائيد کرتے ہوئے انہیں راز کو چھپائے رکھنے کی تاکید فرمائی- بہرحال اخلاقی تعلیمات کا یہ بھی ایک حصہ ہے کہ دوست احباب کے رازوں کو اپنے سینے میں ہی محفوظ رکھا جائے- انہیں عام نہ کیا جائے، الا یہ کہ کسی راز کے افشاء کرنے کی وہ صراحتہ اجازت دے دیں-


ان شاء اللہ کہنے سے کام بنتے ہیں

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کفار مکہ نے آنحضرت ﷺ سے اصحاب کہف کے واقعہ کے متعلق دریافت کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ کل بتا دوں گا مگر خدا کا کرناکیا ہوا کہ پندرہ دن تک آپ ؐ کے پاس وحی نہ آئی آپ ؐ بے حد پریشان ہوئے کفار کو کیا جواب دوں گا ؟ اسی اثنا میں جبرائیل علیہ السلام خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ وحی لے حاضر ہوئے۔ (اے محمد ﷺ) آپ کسی کام کے بارہ میں ہر گز یہ نہ کہیں کہ میں اسے کل کر لوں گا مگر یہ کہ اللہ چاہے (الکہف) مفسرین کہتے ہیں کہ آیت میں آپ کو یہ تنبیہ کی گئی ہے۔ کہ آپؐ جب بھی کوئی کام کرنا چاہیں تو پہلے ان شاء اللہ کہہ لیں۔

حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ تبارک و تعالیٰ کے بر گزیدہ پیغمبر ہیں ۔ انہوں نے ایک دفعہ یہ قسم کھائی کہ میں آج رات اپنی بیویوں کے پاس جاؤں گا جو تعداد میں نوے یا سو تھیں اور ہر عورت ایک بچہ جنے گی تو وہ تمام اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے ہوں گے۔ فرشتہ نے یہ القاء کیا کہ ان شاء اللہ کہہ لیجیے مگر (باوجود دل میں ہونے) زبان سے نہ کہا۔

خدا کا کرنا کیا ہوا کہ اس مباشرت کے نتیجے میں کسی عور ت نے بھی کوئی بچہ نہ جنا صرف ایک عورت سے ادھورا بچہ ہوا تو دایہ نے وہی بچہ لا کر تخت پر ڈال دیا کہ لو ’ یہ تمہاری قسم کا نتیجہ ہے ۔ قرآن پاک میں اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے (ترجمہ) ’’اور ہم نے جانچا سلیمان کو اور ڈال دیا اس کے تخت پر ایک دھڑ پھر وہ رجوع ہوا بولا اے میرے رب معاف کر مجھ کو اور بخش مجھ کو وہ بادشاہی کہ مناسب نہ ہومیرے بعد کسی کو بے شک آپ ہیں سب کچھ بخشنے والے ‘‘ (ص پارہ 26)

حدیث میں ہے فرمایا نبی پاک ﷺ نے کہ اگر حضرت سلیمان ؑ ان شاء اللہ کہہ لیتے تو بے شک اللہ تعالیٰ وہی کردیتا جس کی قسم کھائی تھی۔ یعنی ہر عورت بچہ جنتی ۔

قرآن پاک میں کئی مقامات پر یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ پوری کائنات اللہ تبارک و تعالی کے قبضہ قدرت میں ہے ہر کام اس کے حکم و ارادہ سے ہوتا ہے اگر اللہ تعالی کسی کام کوکرنا چاہیں تو دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی اور اگر کسی کام کو نہ کرنا چاہئیں تو کوئی طاقت اسے کرنہیں سکتی۔ ارشاد باری تعالی ہے’’ اللہ کے ہاتھ میں ہے بادشاہی زمینوں اور آسمانوں کی اور پہلے بھی اسی کا حکم ہے اور بعد میں بھی اسی کا حکم ہے‘‘ اور فرمایا’’پاک ہے وہ ذات کہ جس کے ہاتھ میں ہے بادشاہی ہر چیز کی اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے۔‘‘(یٰسین پ23 )

مفسرین لکھتے ہیں کہ کائنات میں ظاہری اسباب کے علاوہ باطنی اسباب کا بھی ایک عظیم الشان سلسلہ جاری ہے جس کام نے ہونا ہوتا ہے اس کا پہلے حکم اترتا ہے وسیلے بعد میں مقرر ہوتے ہیں کہ اس کام نے کس ذریعے اور وسیلے سے پورا ہونا ہے ۔ ( تفسیر القرآن از علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ )

یہی وجہ ہے کہ آدمی گولی سے بچ جاتا ہے اور کنکر سے مر جاتا ہے کیونکہ اس کی موت کا حکم اب ہوا ہے اور کسی کو دنیا بھر کے ڈاکٹروں سے علاج کروانے کے باوجود بھی افاقہ نہیں ہوتا اور جب شفا ہونا ہوتی ہے تو ایک خاک کی پڑیا سے بھی ہو جاتی ہے ۔ کیونکہ اس کی شفا کا حکم اب نازل ہوا ہے اصل چیز اللہ کا حکم ہے۔

ان شاء اللہ کہنے والا شخص براہ راست مسبب الاسباب کو پکارتا ہے اور اپنی عاجزی و بے کسی کا اظہار کرتا ہے اور اس کی قدرت کاملہ کا اعتراف کرتے ہوئے اس سے یوں عرض گزار ہوتا ہے کہ باری تعالیٰ اگر آپ چاہیں تو میرا کام ہو سکتا ہے ۔ بے شک آپ ہی کی طرف تمام کام لوٹا ئے جاتے ہیں۔ تو اللہ تبارک و تعالی بھی اس کی دعا رد نہیں کرتے کیونکہ اس نے خود ہی قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ ’’مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا‘‘ (القرآن)

لہذا ہمیں بھی ہر کام کرنے سے پہلے ان شاء اللہ کہنا چاہئے تاکہ ہمارا رابطہ عالم اسباب سے جڑ جائے اور کام ہوجائے۔

No comments:

Post a Comment

Followers