21 September, 2011

دعا کی قبولیت کی شرائط/فلسفہ قربانی اور شہادت حسین/نیچی نگاہیں

دعا کی قبولیت کی شرائط

محمد رفیق اعتصامی

اسلام امن وسلامتی کا مذہب ہے ۔ اسکے اصول سادہ اور آسان فہم ہیں ۔ اور بنی نوع انسان کو رشدو ہدایت کا سبق دیتے ہیں یہ ایک ایسا مذہب ہے جو خدا اور بندے کے درمیان براہ راست تعلق پیدا کرتا ہے۔ کہ بندہ جب بھی ایک عاجز و لاچار مخلوق ہونے کی حیثیت سے اس شہنشاہ مطلق کے حضور عرض گزار ہوتا ہے۔ اس کی طرف سے بندہ کی پکار کا فوراًجواب دیا جاتا ہے۔ اس کی حاجت برآری کی جاتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (ترجمہ) ’’ مجھ سے دعا کرو میں قبول کرونگا‘‘ اور فرمایا اے نبیؐ ! جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق سوال کریں (کہ میں کہاں ہوں) تو میں توان کے قریب ہوں جواب دیتا ہوں پکارنے والے کی پکار کا جب بھی وہ مجھے پکارے پس انہیں بھی چاہیے کہ وہ میری بات کا جواب دیں۔ مجھ پرایمان لائیں تاکہ فلاح پائیں (البقرہ : 186)۔

یہ دنیا دار التکلیف اور آزمائش کا گھر ہے یہاں انسان کو ہر قسم کے اچھے برے حالات سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ لہذا زندگی کے نشیب و فراز انقلاب زمانہ ناکامیوں سے اور مایوسیوں سے گھبراجانا ایک فطری امر ہے۔ بقول غالب ۔۔۔

کیوں گردش مدام سے گھبرانہ جائے دل

انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں

مگر ایسے دل گرفتہ حالات میں خدا نے انسان کودعا کا سہارا دیا ہے کہ وہ جب کسی مصیبت کے عالم میں خدا کو پکارتا ہے تو اسے سکون مل جاتا ہے۔ کیوں کہ خدا تعالیٰ انسان کا سچا دوست ہے جو ہر لمحہ اس کی مدد کرتا ہے۔ (چنانچہ فرمایا (ترجمہ) ’’ قائم رکھو نماز اور دیتے رہو زکوۃ اور مضبوط پکڑو اللہ کو وہ تمہارا دوست ہے تو کیا ہی اچھا دوست اور کیا ہی اچھا مددگار ہے ‘‘ (17:78)سرور کائنات ﷺکا ارشاد گرامی ہے کہ ’’ خدا سے دعا کرو اس حال میں کہ تمہیں اس کے قبول ہونے کا یقین ہو‘‘ (احمد ابو داؤد نسائی)فرمایا کہ ‘‘ جو شخص خدا کے حضور دست سوال دراز نہیں کرتا تو وہ اس سے ناراض ہوتے ہیں ۔۔۔

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں

راہ دکھلائیں کسے کوئی راہ رو منزل ہی نہیں

مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ دعائیں تو لوگ خدا سے مانگتے ہی رہتے ہیں بلکہ نہایت خشوع خضوع اور گڑ گڑ ا گر دعا مانگتے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ اکثر لوگوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں اور وہ اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہتے ہیں ؟ ا س کا جواب یہ ہے کہ اصولی طور پر دعا کے قبول ہونے میں کوئی شک نہیں مگر اس کی کچھ شرائط ہیں اور کچھ صورتیں ہیں جو علماء نے تحریر کی ہیں کہ دعا کس صورت میں قبول ہوتی ہے جو مندرجہ ذیل ہیں ۔

قبولیت دعا کی اہم شرط یہ ہے کہ صاحب دعا رزق حلال کماتا ہوا حکام شرع کا پابند ہو اور حقوق العباد کا خیال رکھتا ہو حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک شخص خدا سے دعا کرتا ہے مگر اس کا کھانا حرام ہے اور لباس حرام کی کمائی سے بنا ہوا ہے اور وہ کہتا ہے۔۔۔۔۔۔یا اللہ یا اللہ تو اس کی دعا کیسے قبول سکتی ہے؟ تاوقتیکہ وہ حرام کھانے سے توبہ نہ کرے اور دوسری شرط یہ ہے کہ دعا کرنے سے پہلے خدا تعالیٰ سے توبہ و استغفار کیا جائے اپنے گناہوں پر نادم ہو اور دوبارہ انہیں نہ کرنے کا عہدہ کیا جائے۔ آنحضرت ﷺ کا فرمان ہے کہ میں روزانہ اپنے رب سے سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں ‘‘ (صحیح بخاری )

اور دعا کی قبولیت اس طرح ہوتی ہے کہ کبھی تو بعینہ وہی چیز عنایت کر دی جاتی ہے جس کے لئے دعا کی گئی ہے۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ اگر باری تعالیٰ اپنے علم محیط کی رو سے یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہی چیز دے دی جائے جو مانگی گئی ہے تو یہ صاحب دعا کے لئے نقصان دہ ہے۔ تو اس چیز کے بدلہ میں کوئی اور چیز دے دی جاتی ہے۔ جو اس سے بہتر ہوتی ہے ۔اور تیسری صورت یہ ہے کہ اس دعا کوآخرت میں ذخیرہ کر دیا جاتا ہے کہ اس کا ثواب آخرت میں عطا کیا جائے گا اور قبولیت دعا کی تیسری صورت یہ ہے کہ اس دعا کے بدلہ میں آدمی کے گناہ محو ہو جاتے ہیں یا اس کے درجات بلند کر دیئے جاتے ہیں یا کوئی بلا اور مصیبت جو اس شخص پر آنے والی تھی ٹال دی جاتی ہے بہرحال دعا کبھی رائیگاں نہیں جاتی کیوں کہ خدا تعالی ہر چیز پر قادر ہے اور مسبب الاسباب ہے اور اس نے خود ہی فرمایا کہ ’’ مجھ سے دعا کرو میں قبول کرونگا‘‘ (شرح عقائد از علامہ تفتازانی)۔

واضح رہے کہ دعا کی جو شرائط تحریر میں لائی گئی ہیں ان سے لازم نہیں آتا کہ گناہ گار شخص خدا سے دعا ہی نہیں کر سکتا کہ ایک شخص دن رات گناہوں میں غرق ہے وہ یہ سوچ کر میں تو گناہ گار ہوں پتہ نہیں خدا تعالی میری سنتے بھی ہیں کہ نہیں وہ خدا سے دعا ہی نہیں کرتا یہ بات غلط ہے گناہ گار کی طرف تو خدا کی رحمت اور بھی زیادہ متوجہ ہوتی ہے بشرطیکہ وہ صدق دل سے دعا کرے حدیث قدسی میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اگر ابن آم مجھے اس حال میں ملے کہ اس کے گناہ زمین و آسمان درمیانی فاصلے کو پر کرتے ہوں تو میں اسے بخش دونگا بشرطیکہ اس نے میرے ساتھ شرک نہ کیا ہو۔ (المشکوٰۃ المصابیح)ہر حال خدا کی رحمت گناہ گار کی طرف بھی ایسے ہی متوجہ ہوتی ہے جیسے کسی صالح آدمی کی طرف البتہ دعا کے جملہ آداب کا خیال رکھنا ضروری ہے ورنہ یہ تو اسی کی ذات والا صفات کی بے پایاں رحمت و جود و سخا ہے کہ وہ بڑے سے بڑے عاصی کو بھی اپنی آغوش رحمت میں لے لیتا ہے وللّٰہ درمن قال

اے برتراز خیال و قیاس و گمان و وہم

وزیر ہرچہ گفتہ اندو خواندہ ایم

دفتر تمام گشت وبپایاں رسید عمر

ماھمچناں در اول وصف توماندہ ایم

حدیث:، آنکھ بھی زنا کرتی ہے،زبان بھی زناکرتی ہےاورشرمگاہ اسکی تصدیق یاتکذیب کرتی ہے(المشکوٰۃالمصابیح)

تشریح۔۔۔۔آنکھوں کا زنا کسی نا محرم عورت کوبنظر شہوت دیکھنا ہےاورکانوں کا زنا فحش اورگندی باتوں کاسنناہے اورزبان کا زنافحاشی اوربےحیائی کی باتیں کرناہے اورشرمگاہ کی تصدیق یا تکذیب سے مراد یہ ہے کہ اگر انسان زنا کاری میں ملوث ہو گیا تو آنکھ ،کان اور زبان کازناکرناثابت ہو گیااور اگر شرمگاہ زناکاری میں ملوث نہ ہوئی تو اللہ کی رحمت سے قوی امیدہے کہ وہ بقیہ اعضاءکی زناکاری کو معاف فرمادیں گے۔

آپPBUH)) نے فرمایا کہ جو عورت بناؤ سنگھار اورٹیپ ٹاپ کیساتھ (بغیر کسی ضرورت کے) گھرسے باہر نکلتی ہے تو لوگ اسکے بارہ میں طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں کہ یہ عورت ایسے ایسے ہے یعنی بدکار ہے۔

فلسفہ قربانی اور شہادت حسین

رضائے الہی تب ہی حاصل ہو سکتی ہے کہ جب اپنی محبوب اور پسندیدہ چیز کو اس کی راہ میں قربان کیا جائے۔ محبوب چیزیں کئی ہو سکتی ہیں مگر سب سے زیادہ پیاری چیزانسان کی اپنی جان ہے اس سے زیادہ پیاری کوئی اور چیز نہیں اور قاعدہ یہ ہے کہ جب جان خدا کی راہ میں قربان کی جاتی ہے تو وہ امر بن جاتی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ (ترجمہ) ‘‘ جو لوگ خدا کی راہ میں شہید کیے جائیں انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں مگر تمہیں اس کا شعور نہیں ۔ ‘‘ (القرآن) یعنی وہ ایسی زندگی ہے جس کی رفعت و بلندی کا تم تصور نہیں کر سکتے اور ایسی زندگی کو حاصل کرنے کے لیے جان کو کر ب و بلا کے مقام سے گزارنا ضروری ہے۔

اس پس منظر میں ہم جب شہادت حسینؓ کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اس شہادت سے ان کی مراد محض رضائے الہٰی تھی۔دنیاوی تاج و تخت مطلوب نہ تھا۔ حضرت امام حسینؓ جب مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے تو ذی حشم کے مقام پرحربن یزید بن تمیمی سے ملاقات ہوئی جو ایک ہزار کا لشکر اپنے ہمراہ لایا تھا اس نے آپ ؓ کو عبید اللہ بن زیاد کا حکم سنایا کہ ان کو کوفے بھیج دیا جائے۔ اس نے آپؓ کو کوفے لے جانے پر اصرار کیا۔ اس موقع پر کچھ تلخ کلامی بھی ہوئی ’ حر نے آپؓ کے رتبہ کا خیال رکھتے ہوئے نرمی اختیار کی اور مشورہ دیا کہ وہ حجاز اور عراق کی بجائے کوئی اور راستہ اختیار کر لیں۔ ممکن ہے کہ مفاہمت کی کوئی صورت نکل آئے۔ امام حسینؓ اس پر رضامند ہو گئے اور مقام بیضا میں پہنچ کر ایک ولولہ انگیز خطبہ ارشاد فرمایا اس کے مندرجات قابل غور ہیں۔

آپؓ نے فرمایا ’’ لوگو ! انحضرت ﷺنے فرمایا ہے کہ جس نے ظالم ‘ حرام کو حلال کرنے والے‘ خدا کے عہد کو توڑنے والے ‘ خدا اور رسول ﷺ کے مخالف اور خدا کے بندوں پر گناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اور اسے قولاً و عملاً اس پر غیرت نہ آئی تو خدا کو یہ حق ہے کہ اس شخص کو اس بادشاہ کی جگہ دوزخ میں ڈال دیں۔ لوگو ! خبردار ہو جاؤ ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت اختیار کی اور رحمن کی اطاعت چھوڑ دی ‘ ملک میں فساد برپا کیا ‘ حدود الہٰی کو معطل کیا ہے‘ مال غنیمت میں اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں‘ خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال اور حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام کر تے ہیں‘ اس لیے مجھ کو غیرت آنے کا زیادہ حق ہے‘‘۔ (تاریخ اسلام)

یہ خطبہ آپؓ کی اس عظیم قربانی کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتا ہے ۔ جو انہوں نے اسلام کی سربلندی کے لیے میدان کربلا میں پیش کی ۔ اس لیے کہ ظالم و جابر بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنے کا حق عمومی طور پر ہر مسلمان کے لیے ہے مگر نبی ﷺ کے اقرباء کے لیے یہ حکم خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ دین ہمیں انہیں کے واسطے سے ملا ہے اگر یہ حضرات احکام خدا وندی کے قائم کرنے میں اتنی سختی نہ دکھاتے تو آج دین مٹ چکا ہوتا ‘ دین کو حیات تازہ بخشنے کے لیے قربانی کی ضرورت ہوتی ہے۔

علامہ اقبال نے کیا خوب کہاہے۔۔۔۔۔۔

ٗٗ قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے۔

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

اس خطبہ سے مستشرقین کے ان باطل دعوؤں کی تکذیب ہوجاتی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ امام حسینؓ نے تخت و تاج کے حصول کے لیے یزید کے خلاف لشکر کشی کی۔ کیونکہ اگر فی الواقعی ایسا ہوتا تو وہ وقتی طور پر یزید کی بیعت کرکے باآسانی اپنی جان بچالیتے اور پھر کبھی موقع پاکر اس کے خلاف لشکر کشی کرتے۔ مگر انہوں نے اسلام کی سربلندی اور رضائے الہی کے حصول کے لیے سچائی اور راستی کے دامن کو ہاتھ سے نہ جانے دیاور جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔ بہرحال شہادت حسینؓ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ مالک حقیقی کی رضامندی کے لیے اگر جان کی بازی بھی لگانی پڑے تو دریغ نہ کرنا چاہیے

نیچی نگاہیں
ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’آپ (اے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم) ایمان والے مردوں سے فرمادیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں (اسی طرح آپٌ) ایمان والی عورتوں سے فرما دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں‘‘ (القرآن) ان آیات کریمہ میں مؤمن مردوں اور عورتوں کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم ہے وجہ یہ ہے کہ اگرنگاہیں نیچی ہوں گی اور انمیں شرم و حیا اور پاکیزگی ہو گی تو زناکاری کا دروازہ ہمیشہ کیلئے بند ہو جائے گا اور اسکی جڑ کٹ جائے گی کیونکہ اصل پردہ نگاہوں کا ہے اگر چہرہ نقاب سے ڈہکا ہوا ہو گا مگر نگاہیں بے باک ہوں گی تو کوئی فائدہ نہیں اس لئے نگاہوں کو نیچا رکھنا چاہئے اور ان میں پاکیزگی پیدہ کرنی چاہئے کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔
جنت کی ضمانت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مجھے دو باتوں کی ضمانت دے میں اسکو جنت کی ضمانت دیتا ہوں ایک زبان کی اور دوسری شرمگاہ کی (المشکوٰۃ) تشریح اسکی یہ ہے کہ انسان زبان سے اچھی بات کہ سکتا ہے مثلا اچھی بات کی نصیحت کرنا ، بری بات سے روکنا،ذکر و اذکار اور قرآن پاک کی تلاوت وغیرہم اسیطرح وہ زبان کا غلط استعمال بھی کر سکتا ہے مثلا کسی کو گالی دینا ، غیبت کرنا کا کسی کو برابھلاکہنا وغیرہ۔آنحضرتٌ نے فرمایا کہ انسان بعض دفعہ ایسی بات منہ سے نکال دیتاہے کہ اسکو پتہ نہیں چلتا کہ میں نے کیا کہ دیاہے اور ہو اسکی وجہ سے جہنم میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ اسی لئے علماء کرام کہتے ہیں کہ جب صبح ہوتی ہے تو جسم کے تمام اعضاء زبان سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ دیکھنا کوئی ایسی بات منہ سے نہ نکال دینا کہ جسکی وجہ سے ہم جہنم میں پڑ جائیں لہٰذا زبان کے صحیح استعمال کی کوشش کرنی چاہئے۔ اسی طرح شرمگاہ کوغلط کاری سے روکنا چاہئے کہ جوشخص ان دو باتوں کی ضمانت دے گا اسے جنت کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔
محمد رفیق اعتصامی
انسان خسارے میں ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے قسم ہے زمانہ کی انسان خسار ے میں ہے مگروہ لوگ جو ایمان لائے اور اچھے اعمال کئے او ر ایک دوسرے کو حق بات کی نصیحت کرتے رہے اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کرتے رہے‘‘ (العصر:پ۳۰)
ان آیات کریمہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے قسم کھانے کے بعد ارشاد فرمایا کہ دنیا میں جتنے بھی انسان ہیں وہ تمام کے تمام خسارے میں ہیں گھاٹے میں ہیں مگر چار قسم کے افراد اس ابدی اور دائمی نقصان سے بچے ہوئے ہیں یعنی(۱) وہ لوگ جواللہ تبارک وتعالیٰ پر ایمان لائے،اسکے ساتھ ساتھ اسکے فرشتوں پرایمان ، اسکی نازل کردہ کتابوں (تورٰۃ ،زبور ، انجیل اور قرآن)پرایمان،اسکے رسولوں پرایمان، یوم آخرت پر ایمان اورتقدیرپر ایمان لائے یعنی دین اسلام قبول کیا (۲)وہ لوگ جوایمان لانے کے بعد اچھے اعمال کرتے ہیں یعنی نماز روزہ حج زکوٰۃ وغیرہم (۳)وہ لوگ جوایک دوسرے کو حق بات کی نصیحت کرتے ہیں (۴)اور وہ لوگ جو ایکدوسرے کو صبر کی نصیحت کرتے ہیں۔
محمدرفیق اعتصامی

سلوک کی شرط اولین :/راز کی حفاظت کرنے کا بیان/ان شاء اللہ کہنے سے کام بنتے ہیں

سلوک کی شرط اولین :


راہ سلوک میں نااہل کا گزر نہیں اس میں صادق ہی کامیاب ہوسکتے ہیں چنانچہ حضرت مخدوم نے فرمایا کہ اگرکوئی نااہل اس راہ سلوک میں قدم رکھ دیتا ہے تو اسے بڑی فضیحت ہوتی ہے اور وہ اس میں کامیاب نہیں ہوتا ،کیونکہ اس راہ میں صادق ہی کامیاب ہوسکتا ہے ، صوفیہ کے یہاں کچھ علامتیں مقرر ہیں جن سے وہ اہل اور نااہل کی تمییزکرلیتے ہیں-
ابویزید رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں ایک آدمی کو زہدوتقوی اور باطنی صفائی میں بہت شہر ت حاصل تھی ابو یزید رحمۃ اللہ علیہ اس کو دیکھنے کے لئے گئے اتفاق سے وہ آدمی اپنے گھر سے مسجد جارہا تھا چلتے چلتے قبلہ کی طرف منہ کرکے اس نے تھوک دیا ، ابویزید رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: جس کے اعضاء و جوارح رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے طریقوں اور آداب کے ساتھ خوگر اور عادی نہیں ہوئے ہیں وہ اپنے دعویٰ بزرگی میں کیسے صادق ہوسکتا ہے ؟اور اسی جگہ سے وہ بلا ملاقات کئے واپس چلے گئے۔(جوامع الکلم:89/90)
حضرت بندگی مخدوم کا مسلک حق اہل سنت وجماعت :

بعض لوگ قطب الاقطاب حضرت بندگی مخدوم رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک حق اور مشرب صدق سے متعلق غلط باتیں منسوب کر کے گمراہ فرقوں سے جوڑنے کی ناپاک جسارت کرتے ہیں معاذاللہ یہ سب باتیں ہفوات وہرزہ سرائی کے سواکچھ نہیں،حقیقت سے اس کا دور کا بھی کوئی تعلق ورشتہ نہیں، اہل حق نے ہر دور میں بندگی مخدوم کے مسلک ومشرب سے متعلق حقائق کو واشگاف کیا اور روز روشن کی طرح نفس الامرکی معرفت دلائی کہ حضرت بندگی مخدوم علیہ الرحمہ نے مسلک اہل سنت وجماعت کی نشرواشاعت ،مذہب حنفی کی تشریح وتوضیح طریقہ صوفیہ کی ترویج و تبلیغ، سالکین کے تزکیہ وتصفیہ اور بندگان خدا کی تعلیم وتربیت میں اپنی حیات مقدسہ کے ایک ایک لمحہ کو اوراپنے انفاس قدسیہ سے ہر ہرنَفَس کو وقف فرمادیا تھا جس پر آپ کی گراں قدر تصنیفات و تالیفات، تحقیقات وتعلیقات،مواعظ وارشادات ،مکتوبات وملفوظات شاہدعدل ہیں ،چنانچہ آپ کے شہزادۂ اکبر جوامع الکلم میں صفحہ67/68 پر حضرت بندگی مخدوم کے حوالہ سے رقمطرازہیں:
’’ بہت سے لوگ حضرت امیرالمؤمنین علی کرم اللہ وجھہ کی فضیلت کے بارے میں مبالغہ سے کام لیتے ہیں ،کوئی انہیں نبی اور خدا تک کہہ دیتا ہے اوراس طرح غرابیہ ، صحابیہ ، نصیریہ صابیہ بہت سے گروہ پیدا ہوگئے ہیں۔
ہر ایک کے بارے میں تفصیل بیان کرنا تو بہت طویل بات ہے لیکن حق مذہب یہ ہے کہ امیرالمؤمنین ابو بکر رضی اللہ عنہ صحابہ کرام میں افضل ہیں ان کے بعد عمر رضی اللہ عنہ ان کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ ان کے بعد علی رضی اللہ عنہ ہیں اور انکے بعد تمام صحابہ اور اولیاء کرام اور اس کے علاوہ جو کچھ توہمات اور پراگندہ خیالی ہے وہ گمراہی ہے ‘‘۔(جوامع الکلم ص:67/68)
نور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نہیں:

حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مکشوفات والہامات کو ایک رسالہ میں نقل فرمایا ، حضرت بندہ نواز رحمۃاللہ علیہ نے جواہر العشاق کے نام سے اس رسالہ کی شرح فرمائی چنانچہ حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے ایک الہام کی شرح میں فرماتے ہیں :
اللہ تعالی نے فرشتوں کو حضرت محمد(مصطفی) صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے پیدا کیا اور حضرت محمد (مصطفی) صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے نور سے ، اللہ تعالی فرماتا ہے ۔۔۔۔ بموجب حدیث قدسی ۔
کنت کنزامخفیا فاحببت ان اعرف
’’میں پوشیدہ خزانہ تھا پس چاہا کہ پہچانا جاؤں‘‘
میں نے چاہا کہ جومیری شان ہے ،اور جو کچھ میرے جمال وکمال اور قدرت میں ہے اس کو ظاہر کروں ۔(تو میں نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا فرمایا )مزید آگے تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
کافروں نے یہ بات نادانی سے کہی کہ:
’’ ابشر یہد وننا‘‘
کیا بشر ہم کو راستہ بتاتے ہیں؟
پس حکم ہوا کہ
کفروا
وہ لوگ کافر ہوگئے اتنا نہ سمجھ سکے کہ
کان یمشی ولاظل لہ
(آپ چلتے تھے اورآپ کا سایہ نہ تھا)
محمد(مصطفی) صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کے نور سے ہیں نور خدا کا سایہ کیسے ہوسکتا ہے؟۔انتہی
ملخصا(جواہر العشاق ص:59)
مدینہ منورہ میں روضہ مقدسہ ہونے کی حکمت:

حضرت مخدوم علیہ الرحمہ نے فرمایا :یہ مشیت الہی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روضہ اطہر مکہ معظمہ میں نہ ہو، تاکہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی زیارت ،حج کعبہ کی طفیلی نہ ہوجائے ، حج کعبہ کے بعد علیحدہ سے خاص کرقصد،مدینہ منورہ کاکیا جائے ،امام شافعی کے قول کے مطابق تو مکہ معظمہ کی طرح مدینہ منورہ بھی حرم ہے لیکن تعظیم وتکریم کے واجب ہونے کے بارے میں تو سب ہی متفق ہیں ۔انتہی ملخصا(جوامع الکلم ص:361)
خوف الہی ،عبادت وطاعت امتیاز اہل بیت :

حضرت بندگی مخدوم علیہ الرحمہ نے ارشاد فرمایا کہ اہل بیت میں دو چیزیں عام طور پر پائی جاتی ہیں اوران سے کسی کو بھی خالی نہ دیکھو گے –
ایک تو خوف خدا ،دوسرے عبادت وطاعت الہی –
اس میں کوتاہی ان میں سے کسی میں نہیں دیکھی جاتی (جوامع الکلم ص:87)
سلوک کی بنیاد کیا ہے اور ضرورت شیخ کیوں؟

قلب کی پاکیزگی اور باطن کا تزکیہ ہی دارین کی صلاح وفلاح اور کامیابی وکامرانی ہے اور سلوک کی بنیاد تخلیہ وتجلیہ پرہے، حضرت بندگی مخدوم رحمۃ اللہ علیہ اپنے مکتوبات میں تحریرفرماتے ہیں:
تخلیہ سے مراد ہے ، اللہ جل شانہ کے سوا اور سب طرف سے دل کو ہٹالینا اورتجلیہ سے مراد ہے نفس کا تزکیہ اور جلا،توجہ تام کے ساتھ اللہ جل شانہ کی طرف متوجہ ہونے اور نفس کو طرح طرح کی عبادتوں میں مشغول رکھنے سے جلائے باطن حاصل ہوتی ہے، جس نے یہ دونعمتیں پالیں اسے دونوں جہاں کی نعمتیں مل گئیں ۔
خدائے عزوجل تک جو لوگ پہنچے ہیں وہ ہوائے نفس کے خلاف عمل کرنے ،اللہ کی یاد میں راتوں کو جاگنے ، دن میں روزے رکھنے اور کھانے پینے میں کمی کرنے اور دائمی طور پر متوجہ رہنے سے اس مرتبہ پر پہنچے ہیں –
اس نعمت کے حصول کے لئے پیر کی توجہ کی ضرورت ہے ،ہم سے جو پیر نے فرمایا ہم اس پر چلیں اوران کی اقتداء کی برکت سے فضل الہی ہمارے شامل حال ہوا اور تمام مرادیں مل گئیں ایک کلیہ ہے جو میں کہہ رہاہوں جزئیات کو اسی پر تطبیق دے لو ،جہاں ہوائے نفس ہو اسے ترک کردو جہاں کوئی آرزو ہو اسے نظر سے دور کردو، دیکھو تو پھر کیا کیا نعمتیں نصیب ہوتی ہیں ۔(مکتوبات بندہ نوازص:48/49)
سونے سے پہلے دن بھر کے عمل کا جائزہ لینا چاہئیے:

سنن ابن ماجہ شریف ص 314، میں حدیث مبارک ہے :
عن ابی یعلی شداد بن اوس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الکیس من دان نفسہ وعمل لما بعد الموت العاجز من اتبع نفسہ ہواہا ثم تمنی علی اللہ۔
ترجمہ:حضرت ابو یعلی شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کو اللہ کی رضا کا تابع وفرمانبردار بنادے اور موت کے بعد والی زندگی کے لئے عمل کرے اور نادان وہ ہے جو نفس کو اس کی خواہش کا تابع بنا دے پھر اللہ کے بھروسہ پرآرزوئیں اور امیدیں باندھے رکھے ۔
اس سلسلہ میں حضرت بندگی مخدوم علیہ الرحمہ کا ارشاد ملاحظہ ہو :
روزانہ سونے کے وقت آدمی کو اپنے دن بھر کے عمل اور قول کا جائزہ لے کر سونا چاہئیے، العیاذباللہ اگر اس سے دن میں کوئی غلط اور بے ہودہ حرکت ہوگئی ہے تو اس سے اس کو توبہ استغفار کرنا چاہیے اورکوشش کرنا چاہیے کہ آئندہ اس طرح کی حرکت اس سے نہ ہواور اگر اس سے اچھا اور مستحسن کام ہوگیا ہوتو برابر اس پر ثابت قدم رہنے کی کوشش کرے اور اللہ سے اس پر استقامت کی دعا مانگے اور اللہ کا شکر ادا کرے جو آدمی اس پر عمل پیرارہے گا وہ قیامت کے دن حساب کتاب سے بے خوف رہے گا ،
فسوف یحاسب حساباً یسیرا ۔
(جوامع الکلم:287/288)
راز کی حفاظت کرنے کا بیان

٫٫حضرت عبداللہ بن عمر رض سے راویت ہے کہ جب حضرت عمر رض کی بیٹی حفصہ بیوہ ہوگئيں تو حضرت عمر رض کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان رض سے ملا اور انہیں حفصہ سے نکاح کرنے کی پیشکش کی اور کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں اپ کا نکاح حفصہ سے کردیتا ہوں- انہوں نے فرمایا، میں اپنے معاملے میں غور کروں گا- پس کئی راتیں ٹھرا رہا، پھر وہ مجھے ملے اور کہا کہ میرے سامنے یہی بات واضح ہوئی ہے کہ میں ان دونوں میں شادی نہ کروں گا- پھر میں ابوبکر رض سے ملا، اور کہا کہ اگر آپ چاہیں تو آپ کا نکاح حفصہ بنت عمر سے کردوں- حضرت ابوبکر رض خاموش رہے ، مجھے پلٹ کر کوئی جواب نہیں دیا- پس میں ان پر عثمان رض سے زیادہ رنجیدہ ہوا- تو میں کئی راتیں ٹھر ا رہا ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ کے لیے نکاح کا پیغام بھیجا تو میں نے حفصہ کا نکاح آپ سے کردیا- پھر مجھے ابوبکر رض ملے تو انہوں نے فرمایا (اے عمر!) شاید تم مجھ سے رنجیدہ ہوئے، جب تم نے میرے لیے حفصہ کے نکاح کی پیشکش کی تھی تو میں نے تمہیں پلٹ کر کوئی جواب نہیں دیا تھا- حصرت عمر رض فرماتے ہیں کہ: میں نے کہا ہاں- حضرت ابوبکر رض نے فرمایا، جب تم نے مجھے پیشکش کی تھی تو میرے لیے تمہیں جواب دینے میں صرف یہ بات مانع (رکاوٹ) ہوئی کہ میں جانتا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ (کے ساتھ نکاح کرنے) کا ذکر کیا تھا- پس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کو ظاہر کرنا نہیں چاہتا تھا- (ہاں) اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ارادہ ترک فرمادیتے تو میں حفصہ کے ساتھ نکاح کرنے کی پیشکش یقینا قبول کرلیتا-

تخریج: صحیح بخاری، کتاب النکاح باب عرض الانسان ابنتہ اواختہ علی اھل الخیر، وغیر ھما من کتاب الصحیح، ح:5122-
فائدہ: اس میں رازوں کی حفاظت کرنی چاہیے اور وہ لوگوں کے سامنے ظاہر نہیں کرنے چاہیے-
حضرت ثابت، حضرت انس رض سے روایت کرتے ہیں- حضرت انس کہتے ہیں کہ میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے جب کہ میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، پس آپ نے ہم (بچوں) کو سلام کیا اور مجھے ایک کام کے لیے بھیج دیا چنانچہ مجھے اپنی ماں کے پاس آنے میں دیر ہوگئی، پس جب میں آیا تو والدہ نے پوچھا، تجھے کس چيز نے روکا لیا تھا؟ میں نے کہا، مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کام کے لیے بھیج دیا تھا، انہوں نے پوچھا، وہ کیا کام تھا؟ میں نے کہا، ایک راز ہے- والدہ نے فرمایا (ٹھیک ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز کسی کو مت بتلانا-
حضرت انس رض نے فرمایا، اللہ کی قسم! اگر وہ راز کسی کو بیان کرنا ہوتا تو اے ثابت! میں تجھ سے ضرور بیان کرتا-
تخریج: صحیح بخاری، کتاب الاستئذان، باب حفظ السر، ح:2689-
فوائد: اس میں بھی راز کے افشاء نہ کرنے کی تاکید ہے- انس رض کے یہ کہنے پر کہ وہ ایک راز ہے، ان کی والدہ نے اسے ظاہر کرنے پر اصرار نہیں کیا بلکہ بیٹے کے موقف کی تائيد کرتے ہوئے انہیں راز کو چھپائے رکھنے کی تاکید فرمائی- بہرحال اخلاقی تعلیمات کا یہ بھی ایک حصہ ہے کہ دوست احباب کے رازوں کو اپنے سینے میں ہی محفوظ رکھا جائے- انہیں عام نہ کیا جائے، الا یہ کہ کسی راز کے افشاء کرنے کی وہ صراحتہ اجازت دے دیں-


ان شاء اللہ کہنے سے کام بنتے ہیں

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کفار مکہ نے آنحضرت ﷺ سے اصحاب کہف کے واقعہ کے متعلق دریافت کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ کل بتا دوں گا مگر خدا کا کرناکیا ہوا کہ پندرہ دن تک آپ ؐ کے پاس وحی نہ آئی آپ ؐ بے حد پریشان ہوئے کفار کو کیا جواب دوں گا ؟ اسی اثنا میں جبرائیل علیہ السلام خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ وحی لے حاضر ہوئے۔ (اے محمد ﷺ) آپ کسی کام کے بارہ میں ہر گز یہ نہ کہیں کہ میں اسے کل کر لوں گا مگر یہ کہ اللہ چاہے (الکہف) مفسرین کہتے ہیں کہ آیت میں آپ کو یہ تنبیہ کی گئی ہے۔ کہ آپؐ جب بھی کوئی کام کرنا چاہیں تو پہلے ان شاء اللہ کہہ لیں۔

حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ تبارک و تعالیٰ کے بر گزیدہ پیغمبر ہیں ۔ انہوں نے ایک دفعہ یہ قسم کھائی کہ میں آج رات اپنی بیویوں کے پاس جاؤں گا جو تعداد میں نوے یا سو تھیں اور ہر عورت ایک بچہ جنے گی تو وہ تمام اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے ہوں گے۔ فرشتہ نے یہ القاء کیا کہ ان شاء اللہ کہہ لیجیے مگر (باوجود دل میں ہونے) زبان سے نہ کہا۔

خدا کا کرنا کیا ہوا کہ اس مباشرت کے نتیجے میں کسی عور ت نے بھی کوئی بچہ نہ جنا صرف ایک عورت سے ادھورا بچہ ہوا تو دایہ نے وہی بچہ لا کر تخت پر ڈال دیا کہ لو ’ یہ تمہاری قسم کا نتیجہ ہے ۔ قرآن پاک میں اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے (ترجمہ) ’’اور ہم نے جانچا سلیمان کو اور ڈال دیا اس کے تخت پر ایک دھڑ پھر وہ رجوع ہوا بولا اے میرے رب معاف کر مجھ کو اور بخش مجھ کو وہ بادشاہی کہ مناسب نہ ہومیرے بعد کسی کو بے شک آپ ہیں سب کچھ بخشنے والے ‘‘ (ص پارہ 26)

حدیث میں ہے فرمایا نبی پاک ﷺ نے کہ اگر حضرت سلیمان ؑ ان شاء اللہ کہہ لیتے تو بے شک اللہ تعالیٰ وہی کردیتا جس کی قسم کھائی تھی۔ یعنی ہر عورت بچہ جنتی ۔

قرآن پاک میں کئی مقامات پر یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ پوری کائنات اللہ تبارک و تعالی کے قبضہ قدرت میں ہے ہر کام اس کے حکم و ارادہ سے ہوتا ہے اگر اللہ تعالی کسی کام کوکرنا چاہیں تو دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی اور اگر کسی کام کو نہ کرنا چاہئیں تو کوئی طاقت اسے کرنہیں سکتی۔ ارشاد باری تعالی ہے’’ اللہ کے ہاتھ میں ہے بادشاہی زمینوں اور آسمانوں کی اور پہلے بھی اسی کا حکم ہے اور بعد میں بھی اسی کا حکم ہے‘‘ اور فرمایا’’پاک ہے وہ ذات کہ جس کے ہاتھ میں ہے بادشاہی ہر چیز کی اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے۔‘‘(یٰسین پ23 )

مفسرین لکھتے ہیں کہ کائنات میں ظاہری اسباب کے علاوہ باطنی اسباب کا بھی ایک عظیم الشان سلسلہ جاری ہے جس کام نے ہونا ہوتا ہے اس کا پہلے حکم اترتا ہے وسیلے بعد میں مقرر ہوتے ہیں کہ اس کام نے کس ذریعے اور وسیلے سے پورا ہونا ہے ۔ ( تفسیر القرآن از علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ )

یہی وجہ ہے کہ آدمی گولی سے بچ جاتا ہے اور کنکر سے مر جاتا ہے کیونکہ اس کی موت کا حکم اب ہوا ہے اور کسی کو دنیا بھر کے ڈاکٹروں سے علاج کروانے کے باوجود بھی افاقہ نہیں ہوتا اور جب شفا ہونا ہوتی ہے تو ایک خاک کی پڑیا سے بھی ہو جاتی ہے ۔ کیونکہ اس کی شفا کا حکم اب نازل ہوا ہے اصل چیز اللہ کا حکم ہے۔

ان شاء اللہ کہنے والا شخص براہ راست مسبب الاسباب کو پکارتا ہے اور اپنی عاجزی و بے کسی کا اظہار کرتا ہے اور اس کی قدرت کاملہ کا اعتراف کرتے ہوئے اس سے یوں عرض گزار ہوتا ہے کہ باری تعالیٰ اگر آپ چاہیں تو میرا کام ہو سکتا ہے ۔ بے شک آپ ہی کی طرف تمام کام لوٹا ئے جاتے ہیں۔ تو اللہ تبارک و تعالی بھی اس کی دعا رد نہیں کرتے کیونکہ اس نے خود ہی قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ ’’مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا‘‘ (القرآن)

لہذا ہمیں بھی ہر کام کرنے سے پہلے ان شاء اللہ کہنا چاہئے تاکہ ہمارا رابطہ عالم اسباب سے جڑ جائے اور کام ہوجائے۔

Followers