کیا علم رکھنے والے اور علم سے کورے افراد یکساں ہوسکتے ہیں؟
ایک مشہور دانشور نے ایک بار کہا تھا کہ ’’انسانوں میں چار قسم کے لوگ ہوتے ہیں، ایک قسم ان لوگوں کی ہے جو جاننے والے ہیں اور ان کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ جاننے والے ہیں، یہ لوگ عالم ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کی اقتدا کرنی چاہئے، کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بہت کچھ جانتے ہیں لیکن ان کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ وہ جانتے ہیں ایسے لوگ نیند کا شکار ہیں، ان کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے، ایک قسم ان لوگوں کی ہے جو کچھ نہیں جانتے اور ان کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ انہیں کچھ بھی نہیں معلوم، وہ طالب علم ہوتے ہیں، ان کو تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے، ایسے لوگوں کو تعلیم دینا چاہئے، ایک قسم ان لوگوں کی ہوتی ہے جو کچھ بھی نہیں جانتے اور ان کو نہیں معلوم ہوتا کہ وہ کچھ بھی نہیں جانتے، یہ بے وقوف لوگ ہوتے ہیں ان سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
علم روشنی ہے۔ جاہلیت اندھیرا ہے۔ روشنی سے نفرت کرنے والے افراد بہت کم ہی ہوتے ہیں کیوں کہ روشنی راہ یابی کے لیے بہت مددگار ہوتی ہے، اسی طرح علم ہے جوانسان کی نجات کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔
گزشتہ چار پانچ صدیوں میں انسانیت کی بھرپورکوشش اور توجہ صرف مادی علم کے ارتقاء اور فروغ پر مبنی تھی، اس میدان میں بہت کچھ اور غیرمعمولی ترقی ہوئی،تہذیب وتمدن میں، معاشرے کی فلاح میں، تہذیب کے ارتقاء میں انسان کی حصولیابیوں کا راستہ سائنس نے ہموار کیا ہے۔ سائنس اور ٹکنالوجی کا بھی یہی حال ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسان نے روحانی اور غیبی علم کے سلسلہ میں عدم توجہی برتی ہے، چنانچہ روحانیت کے میدان میں معاملہ صفر درجہ تک پہنچ گیا، دنیا کی تباہی کی جانب لے جانے والی مذہب بیزاری اور اقدار کا انحطاط اسی کا نتیجہ ہے، انسان کی ختم نہ ہونے والی اندرونی بے چینی کا اصل سبب بھی یہی ہے۔
دراصل علم ایک بہت بڑی نعمت ہے، لیکن اس کے منفعت بخش ہونے کے لیے دوشرطیں ہیں، ایک اس کی اہمیت کا ادراک ہے، اور دوسری بات حاصل کردہ علم کا شعور ہے، اگر یہ دونوں نہیں ہیں تو ایسے علم سے ذاتی یا معاشرتی زندگی میں کچھ فائدہ حاصل ہونے والا نہیں ہے، وہ نور اور روشنی نہیں بن سکے گا، وہ راہ یابی میں کچھ بھی معاون نہیں ہوگا۔
جاہل کی مثال ایک اندھے کی ہے، یا گھٹا ٹوپ تاریکی میں بھٹکتے مسافر کی ہے، اگر اپنی ذات کے سلسلہ میں شعور نہیں ہے، تو دوسروں سے مدد لی جاسکتی ہے، نہیں تو اندھیرے ہی میں آگے بڑھنا ہوگا، ایسے لوگ بہت سے خطرات کا شکار ہوجاتے ہیں، اپنی جاہلیت سے ناواقف افراد اپنی تباہی کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی تباہی کی طرف لے جاتے ہیں، اگر ایک اندھاشخص ایک صحیح وسالم فرد کی طرح حرکتیں کرنے لگے، تو اس کو کن خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا، اس کا اندازہ آپ لگاسکتے ہیں۔
اگر روحانی علم حاصل کرنے والے مادی علم سے دور ہوں گے، تو یہ ضروی نہیں کہ ایک روحانی علم رکھنے والا فرد مادی علم سے بھی واقف ہو، مادی تعلیم میں دینی تعلیم حاصل نہیں ہوتی ہے، لیکن اس حقیقت سے بہت سے لوگ ناآشنا ہوتے ہیں اور اس کا انجام بہت خطرناک ہوتا ہے، مذہبی علم کی بنیادی چیزوں سے ناواقفیت کے باوجود مذہبی امورمیں صلاح دینا اور اپنی رائے پیش کردینا آج ایک عام سی بات ہوگئی ہے، مذہبی علم حاصل کرنے والے دوسرے میدانوں میں جنگ کی کو شش کرتے ہیں، اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہے کہ حساب کا ماہر ایک فرد مریض کا آپریشن کرنے لگ جائے، اس طرح اپنے علم کے حدود سے ناواقف رہنے والے اپنے ساتھ دیگر افراد کو بھی تباہی کی طرف لے جاتے ہیں، ان کے سلسلہ میں ہوشیار رہنا چاہئے۔ (ھل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون۔ کیا علم رکھنے والے اور علم سے کورے افراد یکساں ہوسکتے ہیں۔
(مرحوم ابراہیم سعید صاحب: ترجمہ محمد شوکت علی ، کرناٹک)
Talha Siddibapa
Jeddah
No comments:
Post a Comment