مشترکہ تہذیب- روایت اور حقیقت
٭ پروفیسر علی احمد فاطمی
ہندوستان کے مشترکہ تہذیب کی عوامی مقبولیت کے شاعر نذیر بنارسی پر لکھتے ہوئے مشترکہ تہذیب کے بے مثال شاعر فراق گورکھپوری نے کہا تھا: ”ہندوستان محض ایک جغرافیائی لفظ یا لغت نہیں ہے بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے جسے جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ “ حقیقتیں زندہ ہوتی ہیں اپنی معاشیات سے اور اپنی تہذیب سے۔ میں نے معاشیات کا لفظ پہلے اس لیے استعمال کیا ہے کہ میں مارکس کے ان جملوں پر یقین رکھتا ہوں کہ معاشی خوشحالی تہذیب کے ارتقا میں معاون ہوتی ہے اور بدحالی اسے زوال کی طرف لے جاتی ہے۔ ہندوستانی عوام کے لیے محض اتنا جاننا کافی نہیں ہے کہ وہ ہندوستان کے اندر رہتے ہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ ہندوستان بھی ان کے اندر ہے۔ یعنی ہندوستان کی تاریخ اور تہذیب ےہاں پر میرا موضوع تہذیب زیادہ ہے اور اس سے زیادہ مشترکہ تہذیب اس لیے میں فراق کے ہی ایک شعر سے اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتا ہوں
سرزمینِ ہند پر اقوام عالم کے فراق
قافلے آتے گئے ہندوستان بنتا گیا
صدیوں میں ہندوستان بننے کا عمل قدیم وجدید تہذیب کے ہم آہنگ ہونے کا عمل۔ ہند آریائی تہذیب کے شیر وشکر ہونے کی داستان خاصی قدیم ہے جسے دہرائے جانے کا وقت ےہاں نہیں ہے۔ بس میں اردو شعرو ادب کی چند جھلکیاں پیش کروں گا جو نئی تو نہیں ہیں لیکن جن کا دہرایا جانا بہت ضروری ہے ایک ایسے وقت اور ایسی جگہ پر جہاں کچھ لوگ وحدت انسانی اور وحدت ہندوستانی کو الگ الگ دیکھنے پر مصر ہیں جو بے حد مضر ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ :
چمن میں اختلافِ رنگ و بو سے بات بنتی ہے
تمھیں تم ہو تو کیا تم ہو ہمیں ہم ہیں تو کیا ہم ہیں
اردو زبان و ادب کے حوالے سے مشترکہ تہذیب کے حوالے سے گفتگو کرنا ایسا ہی ہے جیسے شیریں میں شکر کو تلاش کرنا اس لیے کہ اردو اور مشترکہ تہذیب لازم و ملزوم ہیں۔ ایک ہی سکے کے دو پہلو۔
اردو کے ابتدائی شعراءکا کلام ملاحظہ کیجئے ان میں بیشتر کا کلام دوہے کی شکل میں ملتا ہے۔ سودا حاتم، انشائ، نظیر وغیرہ کے ےہاں دوہے ملتے ہیں اور بالکل ہندوستانی و زمینی تہذیب میں رچے ہوئے۔ ولی دکنی سے قبل اردو کی بیشتر شاعری میں چھند اور دوہے ہی نظر آتے ہیں۔ ولی کے آنے کے بعد اس میں ایرانی کلچر کے اثرات نظر آنے لگتے ہیں لیکن اس کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس میں مقامی اور مشترکہ رنگ نہیں رہ گیا ، ایسا ممکن ہی نہ تھا کہ ہیئت کچھ بھی ہو شعر و ادب مقامیت سے کبھی الگ نہیں ہوپاتے۔ یہ فطری طور پر ممکن ہی نہیں اور نہ ہی فکری طور پر کہ مقامیت سے ہی آفاقیت کا سفر طے ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جو جہاں کا ہے اگر وہیں کا نہیں ہے تو پھر کہیں کا نہیں ہے۔
بابائے اردو عبدالحق نے ایک جگہ صاف طور پر کہا ہے کہ اردو خالص ہندوستانی زبان ہے تو اس کی گرامر بھی ہندوستانی ہونی چاہیے اور اس کا کلچر بھی ۔ گرامر کا معاملہ بحث طلب ہوسکتا ہے لیکن کلچر کے بارے میں کوئی بحث نہیں ہے کہ اردو ادب کا خمیر ہی مشترکہ کلچر سے اٹھا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ تہذیب کا معاملہ اکثر دو سطحوں پر چلتا ہے ایک اوپری سطح پر جلدی سے نظر آنے والا اور دوسرا اندرونی سطح پر جذب اور پیوست جو بظاہر نظر نہیں آتا۔ اردو شعرو ادب میں ا بتدا سے ہی یہ دونوں سطح کے کلچر متوازی طور پر ساتھ ساتھ رہے لیکن یہ الگ بات ہے کہ مفاد پرست طبقہ نے نچلے طبقہ کے کلچر کو منہ نہیں لگایا۔ ےہی وجہ ہے کہ غالب کے دوست نواب مصطفی علی خاں شیفتہ نے جب گلشن بے خار تذکرہ لکھا تو عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی کا ذکر تک نہ کیا کہ وہ نچلے درجے کا عوامی شاعر ہے حالاں کہ اس سے قبل استاد سخن میر تقی میر کہہ گئے تھے
شعر میرے ہیں گو خواص پسند
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے
ہندوستان کے مشترکہ تہذیب کی عوامی مقبولیت کے شاعر نذیر بنارسی پر لکھتے ہوئے مشترکہ تہذیب کے بے مثال شاعر فراق گورکھپوری نے کہا تھا: ”ہندوستان محض ایک جغرافیائی لفظ یا لغت نہیں ہے بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے جسے جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ “ حقیقتیں زندہ ہوتی ہیں اپنی معاشیات سے اور اپنی تہذیب سے۔ میں نے معاشیات کا لفظ پہلے اس لیے استعمال کیا ہے کہ میں مارکس کے ان جملوں پر یقین رکھتا ہوں کہ معاشی خوشحالی تہذیب کے ارتقا میں معاون ہوتی ہے اور بدحالی اسے زوال کی طرف لے جاتی ہے۔ ہندوستانی عوام کے لیے محض اتنا جاننا کافی نہیں ہے کہ وہ ہندوستان کے اندر رہتے ہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ ہندوستان بھی ان کے اندر ہے۔ یعنی ہندوستان کی تاریخ اور تہذیب ےہاں پر میرا موضوع تہذیب زیادہ ہے اور اس سے زیادہ مشترکہ تہذیب اس لیے میں فراق کے ہی ایک شعر سے اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتا ہوں
سرزمینِ ہند پر اقوام عالم کے فراق
قافلے آتے گئے ہندوستان بنتا گیا
صدیوں میں ہندوستان بننے کا عمل قدیم وجدید تہذیب کے ہم آہنگ ہونے کا عمل۔ ہند آریائی تہذیب کے شیر وشکر ہونے کی داستان خاصی قدیم ہے جسے دہرائے جانے کا وقت ےہاں نہیں ہے۔ بس میں اردو شعرو ادب کی چند جھلکیاں پیش کروں گا جو نئی تو نہیں ہیں لیکن جن کا دہرایا جانا بہت ضروری ہے ایک ایسے وقت اور ایسی جگہ پر جہاں کچھ لوگ وحدت انسانی اور وحدت ہندوستانی کو الگ الگ دیکھنے پر مصر ہیں جو بے حد مضر ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ :
چمن میں اختلافِ رنگ و بو سے بات بنتی ہے
تمھیں تم ہو تو کیا تم ہو ہمیں ہم ہیں تو کیا ہم ہیں
اردو زبان و ادب کے حوالے سے مشترکہ تہذیب کے حوالے سے گفتگو کرنا ایسا ہی ہے جیسے شیریں میں شکر کو تلاش کرنا اس لیے کہ اردو اور مشترکہ تہذیب لازم و ملزوم ہیں۔ ایک ہی سکے کے دو پہلو۔
اردو کے ابتدائی شعراءکا کلام ملاحظہ کیجئے ان میں بیشتر کا کلام دوہے کی شکل میں ملتا ہے۔ سودا حاتم، انشائ، نظیر وغیرہ کے ےہاں دوہے ملتے ہیں اور بالکل ہندوستانی و زمینی تہذیب میں رچے ہوئے۔ ولی دکنی سے قبل اردو کی بیشتر شاعری میں چھند اور دوہے ہی نظر آتے ہیں۔ ولی کے آنے کے بعد اس میں ایرانی کلچر کے اثرات نظر آنے لگتے ہیں لیکن اس کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس میں مقامی اور مشترکہ رنگ نہیں رہ گیا ، ایسا ممکن ہی نہ تھا کہ ہیئت کچھ بھی ہو شعر و ادب مقامیت سے کبھی الگ نہیں ہوپاتے۔ یہ فطری طور پر ممکن ہی نہیں اور نہ ہی فکری طور پر کہ مقامیت سے ہی آفاقیت کا سفر طے ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جو جہاں کا ہے اگر وہیں کا نہیں ہے تو پھر کہیں کا نہیں ہے۔
بابائے اردو عبدالحق نے ایک جگہ صاف طور پر کہا ہے کہ اردو خالص ہندوستانی زبان ہے تو اس کی گرامر بھی ہندوستانی ہونی چاہیے اور اس کا کلچر بھی ۔ گرامر کا معاملہ بحث طلب ہوسکتا ہے لیکن کلچر کے بارے میں کوئی بحث نہیں ہے کہ اردو ادب کا خمیر ہی مشترکہ کلچر سے اٹھا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ تہذیب کا معاملہ اکثر دو سطحوں پر چلتا ہے ایک اوپری سطح پر جلدی سے نظر آنے والا اور دوسرا اندرونی سطح پر جذب اور پیوست جو بظاہر نظر نہیں آتا۔ اردو شعرو ادب میں ا بتدا سے ہی یہ دونوں سطح کے کلچر متوازی طور پر ساتھ ساتھ رہے لیکن یہ الگ بات ہے کہ مفاد پرست طبقہ نے نچلے طبقہ کے کلچر کو منہ نہیں لگایا۔ ےہی وجہ ہے کہ غالب کے دوست نواب مصطفی علی خاں شیفتہ نے جب گلشن بے خار تذکرہ لکھا تو عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی کا ذکر تک نہ کیا کہ وہ نچلے درجے کا عوامی شاعر ہے حالاں کہ اس سے قبل استاد سخن میر تقی میر کہہ گئے تھے
شعر میرے ہیں گو خواص پسند
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے
تہذیب کی طرح ادب کا وسیع اور ہمہ گیر تصور طبقوں کی نمائندگی کے بغیر پورا نہیں ہوتا۔ تاریخی اور کلاسیکی ادب خواص اور عوام دونوں میں اپنی جگہ بناتا ہے اور غیر طبقاتی ہو کر لازوال ہوجاتاہے جس میں صرف فکر و خیال ، نظریہ و فلسفہ ہی نہیںہوتا بلکہ معاشرت ۔ ثقافت، رہن سہن، رسم و رواج، تیج تیوہار سبھی کچھ آجاتے ہیں اس نقطہ نظر سے اگر ہم صرف نظیر اکبر آبادی اور جعفر زٹلی کو ہی لے لیں تو اردو کی ہندوستانیت یا ہندوستان کی زمینی معاشرت اور مشترکہ ثقافت کی بھرپور تصویر نظر آتی ہے۔ ایک مسلمان شاعر ہوتے ہوئے بھی نظیرنے ہولی پر گیارہ نظمیں۔ دیوالی پر دو نظمیں، راکھی پر ایک نظم۔ کنھیا جی کے جنم ۔ شادی بیاہ تک۔ ایک نظم تو کنھیا جی کی بانسری پر بھی ہے اس کے علاوہ ہر کی تعریف ۔ بھیمروں کی تعریف۔ مہادیو کا بیان۔ جوگی جوگن وغیرہ اسی طرح میلے ٹھیلے میں بلدیوجی کا میلہ۔ تیراکی کا میلہ وغیرہ بھی جن میں ہندو مذہب اور رسم و راج کو نہایت باریکی سے پیش کیا گیا ہے۔ کرشن جی کی پیدائش کے بارے میںان کی معلومات دیکھئے اور ساتھ ہی ان کا لہجہ بھی۔ جن اشٹمی کا تیوہار پورے برج میں منایا جانا فطری ہے۔ بچے کے پیدا ہوتے ہی والدین کے گھر میں اندھیرا دور ہوتا ہے اور اُجالا پاس آتا ہے اور کہاوت بھی ہے۔ ”بن بالک بھوت کا ڈیرا“ اب اس کی روشنی میں ان کی نظم کنھیا جی کے یہ بند دیکھئے
ہے ریت جنم کی یوں ہوتی جس گھر میں بالا ہوتا ہے
اس منڈل میں ہرمن بھیتر سکھ چین دوبالا ہوتا ہے
سب بات تبھاکی بھولے ہیں جب بھولا بھالا ہوتا ہے
آنند مند لیے باجت ہیں نت بھون اُجالا ہوتا ہے
یوں نیک نچھتر لیتے ہیں اس دنیا میں سنسار جنم
پر ان کے اورہی لچھن ہیں جب لیتے ہیں اوتار جنم
............
32 بند کی اس طویل نظم میں جس طرح کنس۔ واسودیو۔دیوکی اور یشودا کے کرادر۔ گفتار اور تکرار ملتی ہے اور پوری کرشن جم بھومی سے لے کررن بھومی کی سچی داستان سمٹ آتی ہے وہ نظیر کی ہندو مذہب او ر تہذیب کی واقفیت کا تو پتہ دیتی ہی ہے نیز ان کی عقیدت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ ایک اور نظم کاایک بند ملاحظہ کیجئے:
یارو سنو یہ دودھ کے لٹیا کا بالپن
اور بدھ پوری نگر کے بتیا کا بالپن
موہن سروپ نرت کریا کا بالپن
بن بن کے گوال گویں چریا کا بالپن
ایسا تھا بانسری کے بجایا کا بالپن
فراق گورکھپوری نے اپنی کتاب نظیر بانی میں لکھا ہے :
”وہ مقامی تہذیب و ثقافت میں رنگ گئے تھے۔ ہندو تیوہاروں۔ میلوں ٹھیلوں میں بہت دلچسپی لیتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا کہ ہندو و مسلمانوں میں کوئی بیگانگی نہ تھی۔“
ہے ریت جنم کی یوں ہوتی جس گھر میں بالا ہوتا ہے
اس منڈل میں ہرمن بھیتر سکھ چین دوبالا ہوتا ہے
سب بات تبھاکی بھولے ہیں جب بھولا بھالا ہوتا ہے
آنند مند لیے باجت ہیں نت بھون اُجالا ہوتا ہے
یوں نیک نچھتر لیتے ہیں اس دنیا میں سنسار جنم
پر ان کے اورہی لچھن ہیں جب لیتے ہیں اوتار جنم
............
32 بند کی اس طویل نظم میں جس طرح کنس۔ واسودیو۔دیوکی اور یشودا کے کرادر۔ گفتار اور تکرار ملتی ہے اور پوری کرشن جم بھومی سے لے کررن بھومی کی سچی داستان سمٹ آتی ہے وہ نظیر کی ہندو مذہب او ر تہذیب کی واقفیت کا تو پتہ دیتی ہی ہے نیز ان کی عقیدت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ ایک اور نظم کاایک بند ملاحظہ کیجئے:
یارو سنو یہ دودھ کے لٹیا کا بالپن
اور بدھ پوری نگر کے بتیا کا بالپن
موہن سروپ نرت کریا کا بالپن
بن بن کے گوال گویں چریا کا بالپن
ایسا تھا بانسری کے بجایا کا بالپن
فراق گورکھپوری نے اپنی کتاب نظیر بانی میں لکھا ہے :
”وہ مقامی تہذیب و ثقافت میں رنگ گئے تھے۔ ہندو تیوہاروں۔ میلوں ٹھیلوں میں بہت دلچسپی لیتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا کہ ہندو و مسلمانوں میں کوئی بیگانگی نہ تھی۔“
کچھ ہندو ادیبوں کا خیال کہ نظیر ہندو مذہب کے بارے میں کم جانتے تھے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ خیال درست ہوکہ کسی پنڈت اور گیانی کے مقابلے ان کی معلومات کا کم ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں لیکن جس نوع کی وہ عوامی تہذیب اور ذہنی ثقافت میں رچے بسے ہوئے تھے وہاں اس طرح کی خارجی تفریق عموماً مٹ جایا کرتی ہے پھر مذہب کی عوامی تہذیب و ثقافت ، ایمان و عرفان اپنا ایک الگ دائرہ بنالیتا ہے۔ ہندی کے بعض شاعروں نے تو پھر بھی کرشن کی عاشق، چھیڑ چھاڑ کر نے والے نوجوان یا بھگوان کی تصویر پیش کی ہے لیکن نظیر کے ےہاں عقیدت و احترام تو ہے اور اسلوب بیان اور لفظیات میں ہندو تہذیب کا غیر معمولی فنکارانہ اظہار جس میں اگر ایک طرف اسلام کا صوفیانہ وجدان ہے تو دوسری طرف بھگتی کا گیان اور آتم سماّن بھی۔ اس ملے جلے صوفیانہ تصور کا رس نیا ہے تو نظیر کی ان نظموں کا مطالعہ بھی ضروری ہے جو محض موضوع کے اعتبار سے براہِ راست ہندو دھرم کے دائرے میں نہیں آتی لیکن ہندوستانی عوامی تہذیب ،زندگی اور رسم و رواج کے دائرے میں براہِ راست آتی ہیں مثلاً ان کی نظمیں روٹی نامہ۔ آدمی نامہ۔ بنجارہ نامہ۔ فقیروں کی صدا۔ کلجگ۔ مفلسی وغیرہ ایسی ہیں جو مذہبی نظموں کے مزاج و مذاق اور ہندو و ہندوستانی عوامی تہذیب اور نظیر کے اپنے مزاج۔ تجربات۔ زندگی کی صداقت متوسط طبقہ کی سماجی بصیرت اور لوک گیتوں کی حرکت و حرارت سب اس قدر گھُل مل گئے ہیں اور اس روایت کو زندہ کرتے ہیں جو امیر خسرو کے بعد کسی وجہ سے بکھر گئی تھی۔
جعفر زٹلی بنیادی طور پر مزاحمت اور احتجاج کے شاعر تھے۔ لیکن ےہاں میں ان کی ایک غزل کے صرف تین اشعار پیش کروں گا
گیا اخلاص عالم سے عجب یہ دور آیا ہے
ڈرے سب خلق ظالم سے عجب یہ دور آیا ہے
نہ یاروں میں رہی یاری نہ بھیوں میں وفاداری
محبت اُٹھ گئی ساری عجب یہ دور آیا ہے
نہ بوئی راستی کوئی، عمر سب جھوٹ میں کھوئی
’اتاری شرم کی لوٹی۔ عجب یہ دور آیا ہے
................
یہ مصرعہ دیکھئے نہ یاروں میں رہی یاری نہ بھیوں میں وفاداری“ خالص اودھی لہجہ اور محاورہ ہے۔ اسی طرح سے ”اتاری شرم کی لوئی“ کو بھی ملاحظہ کیجئے۔ اسی طرح سے قدم قدم پر ان کے ےہاں عوامی محاورات استعمال ہوئے ہیں ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا۔“ بھرے سمندر کھو گھا ہاتھ وغیرہ۔ ان سب کا غزل کے پیرایے میں استعمال کرنا مشکل اور غیر معمولی بات ہے۔
اب میں قصیدے کے ایک شاعر محسن، کاکوری کے ایک مذہبی قصیدے جو رسول کی شان میں لکھا گیا ہے اس کے چند اشعار پیش کرتا ہوں
سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل
برق کے کاندھے لاتی ہے صبا گنگا جل
گھر میں اشنان کریں سروقدانِ گو کُل
جاکے جمنا پہ نہانا بھی ہے اک طویل عمل
کالے کوسوں نظر آتی ہیں گھٹائیں کالی
ہند کیا ساری خدائی میں بتوں کا ہے عمل
ڈوبنے جاتے ہیں گنگا میں بنارس والے
نوجوانوں کا سنیچر ہے یہ برھوا منگل
................
جعفر زٹلی بنیادی طور پر مزاحمت اور احتجاج کے شاعر تھے۔ لیکن ےہاں میں ان کی ایک غزل کے صرف تین اشعار پیش کروں گا
گیا اخلاص عالم سے عجب یہ دور آیا ہے
ڈرے سب خلق ظالم سے عجب یہ دور آیا ہے
نہ یاروں میں رہی یاری نہ بھیوں میں وفاداری
محبت اُٹھ گئی ساری عجب یہ دور آیا ہے
نہ بوئی راستی کوئی، عمر سب جھوٹ میں کھوئی
’اتاری شرم کی لوٹی۔ عجب یہ دور آیا ہے
................
یہ مصرعہ دیکھئے نہ یاروں میں رہی یاری نہ بھیوں میں وفاداری“ خالص اودھی لہجہ اور محاورہ ہے۔ اسی طرح سے ”اتاری شرم کی لوئی“ کو بھی ملاحظہ کیجئے۔ اسی طرح سے قدم قدم پر ان کے ےہاں عوامی محاورات استعمال ہوئے ہیں ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا۔“ بھرے سمندر کھو گھا ہاتھ وغیرہ۔ ان سب کا غزل کے پیرایے میں استعمال کرنا مشکل اور غیر معمولی بات ہے۔
اب میں قصیدے کے ایک شاعر محسن، کاکوری کے ایک مذہبی قصیدے جو رسول کی شان میں لکھا گیا ہے اس کے چند اشعار پیش کرتا ہوں
سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل
برق کے کاندھے لاتی ہے صبا گنگا جل
گھر میں اشنان کریں سروقدانِ گو کُل
جاکے جمنا پہ نہانا بھی ہے اک طویل عمل
کالے کوسوں نظر آتی ہیں گھٹائیں کالی
ہند کیا ساری خدائی میں بتوں کا ہے عمل
ڈوبنے جاتے ہیں گنگا میں بنارس والے
نوجوانوں کا سنیچر ہے یہ برھوا منگل
................
ان قصیدوں اور مثنویوں کو ملاحظ کیجئے ان میں جس طرح سے ہند و تہذیب ، عوامی رنگ اور ہند کی مشترکہ تہذیب رچ بس گئی ہے وہ محسوس کرنے کے لایق ہے۔ یہ اردو شاعری کا ایک ایسا اضافہ اور خزانہ جس پر جس قدر فخر کیا جائے کم ہے۔
اسی طرح سے حالی کی نظمیں۔ آزاد و شبلی کی نظمیں ۔ چکبست کی قومی نظمیں ۔ سرور جہان آبادی۔ اقبال جوش اور فراق کی نظمیں و غزلیں۔ ان سب نے اس تہذیب میں ایسی رونق اور جگمگاہٹ بخشی کہ اردو شاعری اور مشترکہ تہذیب ایک ہی تصویر کے دو رخ ہوگئے۔ اقبال کے ےہاں جو اسلامی فکر کے شاعر کہے جاتے ہیں امام ہند کے عنوان سے بھگوان رام پر غیر معمولی نظم ملتی ہے۔ جوش نے تلسی داس پر عمدہ نظم کہی۔ فراق نے اپنی رباعیوں میں پریم رس اور شر نگار رس کے ایسے ایسے جلوے بکھیرے ہیں کہ ہندوستان کی گھریلو مشترکہ تہذیب ۔عوامی تہذیب قوس قزح کا روپ اختیار کرگئی ہے۔ عمدہ اور پختہ روایت کے زیر ا ثر ترقی پسند شعرا نے ان رویوں کو اس قدردل جمعی سے استعمال کیا ہے کہ ہندوستانی تہذیب نہ جانے کتنی اور جہتوں میں نکھر کر چاند اور سورج کی طرح چمکنے اور جگمگانے لگی۔ اب میں غزل کے چند اشعار بھی پیش کرتا ہوں
جودھا جگت کے کیوں نہ ڈریں تجھ سوں اے صنم
ترکش میں تجھ نین کے ہیں ارجن کے بان آج
- ولی دکنی
میر کے دین و مذہب کو کیا پوچھتے ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
- میر
آتش عشق نے راون کو جلا کر مارا
گرچہ لنکا میں تھا اس دیو کا گھر پانی میں
-میر
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو کیوں راکھ جستجو کیا ہے
- غالب
ہندو ہیں بُت پرست مسلماں خدا پرست
پوجوں میں اس کسی کو جو ہو آشنا پرست
- سودا
قشقہ ہندو مذہب کی علامت اور جسم کے جلائے جانے کی رسم بھی ہندو اور ہندوستانی ہے لیکن کس قدر سلیقے سے اردو شاعری میں جذب ہوئی ہے اسی طرح بُت اور برہمن کا ذکر۔ دیر و حرم کے چرچے تو اردو غزل میں بھرے پڑے ہیں لیکن ان کو صناعی کاری گری اور امیجز کی شکل دے دینا غیر معمولی فنکاری اور عقیدت مندی کا ہنر ہے۔ فراق کے یہ چندشعر دیکھئے
ہر لیا ہے کسی نے سیتا کو
زندگی جیسے رام کا بن باس
جیسے تاروں کی چمک بہتی ہوئی گنگا میں
اہل غم یوں ہی یاد آﺅ کہ کچھ رات کٹے
دلوں کو تیرے تبسم کی یاد یوں آئی
کہ جگمگا اٹھیں جس طرح مندروں میں چراغ
شیو کا وش پان تو سنا ہوگا
میں بھی اے دوست پی گیا آنسو
فراق توخیر ہندو تھے لیکن انھوں نے اپناایک مکمل دبستان قائم کیا جس کے اثر ات بعد کے شعراءمیں دکھائی دیتے ہیں لیکن مومن تو صرف نام کے ہی مومن نہ تھے انسان دوستی کے حوالے سے کہتے ہیں
کیا مومن کیا کافر کون ہے صوفی کیا رند
بشر ہیں سارے بندے حق کے سارے جھگڑے شرکے ہیں
چند شعر اور ملاحظہ کیجئے
حرم و دیر کی گلیوں میں پڑے پھرتے ہیں
بزم رنداں میں جو شامل نہیں ہونے پائے
-فانی
بتوں کو د یکھ کر سب نے خدا کو پہچانا
خدا کے گھر تو بندۂ خدا نہ گیا
-یگانہ
پہنچی ےہاں بھی شیخ و برہمن کی کشمکش
اب میکدہ بھی سیر کے قابل نہیں رہا
- اقبال سہیل
اردو کی کٹوریوں میں وہ امرت گھلا ہوا
جس کا ہے کام دیو بھی پیاسا غضب غضب
- اکثر لکھنوی
اجڑی ہوئی ہر آس لگے
زندگی رام کا بن باس لگے
- جاں نثار اختر
اسی طرح سے حالی کی نظمیں۔ آزاد و شبلی کی نظمیں ۔ چکبست کی قومی نظمیں ۔ سرور جہان آبادی۔ اقبال جوش اور فراق کی نظمیں و غزلیں۔ ان سب نے اس تہذیب میں ایسی رونق اور جگمگاہٹ بخشی کہ اردو شاعری اور مشترکہ تہذیب ایک ہی تصویر کے دو رخ ہوگئے۔ اقبال کے ےہاں جو اسلامی فکر کے شاعر کہے جاتے ہیں امام ہند کے عنوان سے بھگوان رام پر غیر معمولی نظم ملتی ہے۔ جوش نے تلسی داس پر عمدہ نظم کہی۔ فراق نے اپنی رباعیوں میں پریم رس اور شر نگار رس کے ایسے ایسے جلوے بکھیرے ہیں کہ ہندوستان کی گھریلو مشترکہ تہذیب ۔عوامی تہذیب قوس قزح کا روپ اختیار کرگئی ہے۔ عمدہ اور پختہ روایت کے زیر ا ثر ترقی پسند شعرا نے ان رویوں کو اس قدردل جمعی سے استعمال کیا ہے کہ ہندوستانی تہذیب نہ جانے کتنی اور جہتوں میں نکھر کر چاند اور سورج کی طرح چمکنے اور جگمگانے لگی۔ اب میں غزل کے چند اشعار بھی پیش کرتا ہوں
جودھا جگت کے کیوں نہ ڈریں تجھ سوں اے صنم
ترکش میں تجھ نین کے ہیں ارجن کے بان آج
- ولی دکنی
میر کے دین و مذہب کو کیا پوچھتے ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
- میر
آتش عشق نے راون کو جلا کر مارا
گرچہ لنکا میں تھا اس دیو کا گھر پانی میں
-میر
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو کیوں راکھ جستجو کیا ہے
- غالب
ہندو ہیں بُت پرست مسلماں خدا پرست
پوجوں میں اس کسی کو جو ہو آشنا پرست
- سودا
قشقہ ہندو مذہب کی علامت اور جسم کے جلائے جانے کی رسم بھی ہندو اور ہندوستانی ہے لیکن کس قدر سلیقے سے اردو شاعری میں جذب ہوئی ہے اسی طرح بُت اور برہمن کا ذکر۔ دیر و حرم کے چرچے تو اردو غزل میں بھرے پڑے ہیں لیکن ان کو صناعی کاری گری اور امیجز کی شکل دے دینا غیر معمولی فنکاری اور عقیدت مندی کا ہنر ہے۔ فراق کے یہ چندشعر دیکھئے
ہر لیا ہے کسی نے سیتا کو
زندگی جیسے رام کا بن باس
جیسے تاروں کی چمک بہتی ہوئی گنگا میں
اہل غم یوں ہی یاد آﺅ کہ کچھ رات کٹے
دلوں کو تیرے تبسم کی یاد یوں آئی
کہ جگمگا اٹھیں جس طرح مندروں میں چراغ
شیو کا وش پان تو سنا ہوگا
میں بھی اے دوست پی گیا آنسو
فراق توخیر ہندو تھے لیکن انھوں نے اپناایک مکمل دبستان قائم کیا جس کے اثر ات بعد کے شعراءمیں دکھائی دیتے ہیں لیکن مومن تو صرف نام کے ہی مومن نہ تھے انسان دوستی کے حوالے سے کہتے ہیں
کیا مومن کیا کافر کون ہے صوفی کیا رند
بشر ہیں سارے بندے حق کے سارے جھگڑے شرکے ہیں
چند شعر اور ملاحظہ کیجئے
حرم و دیر کی گلیوں میں پڑے پھرتے ہیں
بزم رنداں میں جو شامل نہیں ہونے پائے
-فانی
بتوں کو د یکھ کر سب نے خدا کو پہچانا
خدا کے گھر تو بندۂ خدا نہ گیا
-یگانہ
پہنچی ےہاں بھی شیخ و برہمن کی کشمکش
اب میکدہ بھی سیر کے قابل نہیں رہا
- اقبال سہیل
اردو کی کٹوریوں میں وہ امرت گھلا ہوا
جس کا ہے کام دیو بھی پیاسا غضب غضب
- اکثر لکھنوی
اجڑی ہوئی ہر آس لگے
زندگی رام کا بن باس لگے
- جاں نثار اختر
اب دو شعر میں آج کے عہد کی ایک مقبول شاعرہ پروین شاکر کے بھی پیش کرتا ہوں
اب تو ہجر کے دکھ میں ساری عمر جلنا ہے
پہلے کیا پناہیں تھیں مہرباں چتاﺅں میں
نہ سر کو پھوڑ کے تو رو سکا تو کیا شکوہ
وفا شعار کہاں میں بھی حصیر ایسی تھی
............
نئی غزل اور نظم میں اس طرح کی ہندوستانی اصطلاحیں بھری پڑی ہیں اور اردو شاعری ہندو و ہندوستانی تہذیب میں اس قدر رچ بس اور گھل مل گئی ہے جیسے دودھ میں شکر۔ فکشن کے میدان میں یہ ملاوٹ اور گھلاوٹ کچھ اس انداز کی ہے کہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کون سی تہذیب کہاں سے شروع ہے۔ ہندی کے معروف فکشن نگار بھیشم ساہنی نے ایک جگہ لکھا ہے
”گذشتہ چھ سات سو برسوں میں عوامی سطح پر ہماری ایک ملی جلی تہذیب اُبھری ہے اس کی بنیاد ہمارے بھگتوں اور صوفیوں نے ڈالی ہے انھوں نے ایک مشترکہ سوچ دی ایک تہذیب دی، جو لوگ گاﺅں دیہات میں صدیوں سے رہ رہے ہیں ان کی ساجھی زبان بن جاتی ہے۔ ہماری آج کی جو زبانیں ہیں وہ سب اسی کاحصہ ہیں۔یہ ملک ۔ یہ تہذیب ۔ ہم سب اسی کاحصہ ہیں۔ ہم ہر وقت مندر مسجد میں تو بیٹھے نہیں رہ سکتے۔ ہم سماج میں ملتے جلتے ہیں۔ سارے کام مل جل کر کرتے ہیں۔ ایسا ساری دنیا میںہوتا آیا ہے ۔ آج تو ساری حدیں ٹوٹ رہی ہیں اور کچھ لوگ کہتے ہیں ٹوٹ جاﺅ ۔ بٹ جاﺅ۔ یہ قطعی نہیں ہوسکتا۔“
ہندوستانی تہذیب کی وہ روایت جو تیرہویں صدی میں امیر خسرو کے ساتھ نمو پذیر ہوئی۔ بھیشم جی کی طرح تمام وطن پرست اور انسان دوست ادیبوں کے قلم اور ذہن میں رہی اور آج بھی ہے لیکن کچھ نا سمجھ اور نادان اسے توڑنا چاہتے ہیں ،صدیوں کی اس روایت اور اس عظیم وراثت کو بکھیرنا چاہتے ہیں۔ افسوس کہ کچھ ادیب بھی ایسے ہیں جو بقول کملیشور ” ان کی اوپری جیب میں قلم اور اندر کی جیب میں ترشول ہوتا ہے۔“
جہاں فرقہ واریت فسطائیت کا روپ لے چکی ہو۔ بازار واد کی تہذیب نے چکا چوند مچا رکھی ہو۔ بُرے بھلے اور غلط صحیح کی تمیز ختم ہوچکی ہو۔ خیالات اور وچاروں کی گنجائش کم ہوگئی ہو۔ منطق اور لاجک ختم ہوچکی ہو، جہاں مشترکہ جمال و حسن کے شاہکار تاج محل اور اجنتا ایلورا بھی کاروبار کا حصہ بن چکے ہوں تو ایسے میں مشترکہ کلچر کو یاد کرنا اور بھی ضروری ہوجاتا ہے۔ صدیوں کی گنگا جمنی تہذیب اور ہندو مسلم وغیرہ کی ملی جلی وراثت کو دہرایا جانا اور بھی لازمی ہوجاتا ہے۔ کچھ لوگ اتفاق نہ کریں گے لیکن میرا ماننا ہے کہ اگر کبیر و نظیر ۔ نانک اوربلے شاہ کی پرمپرا کو ۔ فراق و نرالا۔ ٹیگور و اقبال کی ملی جلی دھارا کو پھر سے بہادیا جائے۔ ایکتا اورانیکتا کے نغمے گائے جائیں تو یہ ہندوستان بھی بدلے گا اور ہندوستان میں رہنے والا ہر انسان بھی بدلے گا۔ ہندی بھی بدل جائے گی اور اردو بھی بدل جائے گی۔ ہندو مسلمان بھی بدل جائے گا۔ اس مشترکہ تہذیب کے ذریعہ ہم ہر مشکل سے لڑ سکتے ہیں۔ مندر اور مسجد کے سوال سے بھی۔ ہندو مسلم فساد سے بھی۔ علاقائیت سے بھی اور فرقہ واریت سے بھی اور تاریخ کی گھسی پٹی عصبیت سے بھی کہ ہمیں حال میں زندہ تو رہنا ہے لیکن تاریخ کی عظیم روایت اور تہذیب کی وراثت کو سمجھے اور سمجھائے بغیر ہم محض بازار کے شوپیس ہوکر رہ جائیں گے جسے کوئی بھی خرید سکتا ہے اور کوئی بھی بیچ سکتا ہے۔
اب تو ہجر کے دکھ میں ساری عمر جلنا ہے
پہلے کیا پناہیں تھیں مہرباں چتاﺅں میں
نہ سر کو پھوڑ کے تو رو سکا تو کیا شکوہ
وفا شعار کہاں میں بھی حصیر ایسی تھی
............
نئی غزل اور نظم میں اس طرح کی ہندوستانی اصطلاحیں بھری پڑی ہیں اور اردو شاعری ہندو و ہندوستانی تہذیب میں اس قدر رچ بس اور گھل مل گئی ہے جیسے دودھ میں شکر۔ فکشن کے میدان میں یہ ملاوٹ اور گھلاوٹ کچھ اس انداز کی ہے کہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کون سی تہذیب کہاں سے شروع ہے۔ ہندی کے معروف فکشن نگار بھیشم ساہنی نے ایک جگہ لکھا ہے
”گذشتہ چھ سات سو برسوں میں عوامی سطح پر ہماری ایک ملی جلی تہذیب اُبھری ہے اس کی بنیاد ہمارے بھگتوں اور صوفیوں نے ڈالی ہے انھوں نے ایک مشترکہ سوچ دی ایک تہذیب دی، جو لوگ گاﺅں دیہات میں صدیوں سے رہ رہے ہیں ان کی ساجھی زبان بن جاتی ہے۔ ہماری آج کی جو زبانیں ہیں وہ سب اسی کاحصہ ہیں۔یہ ملک ۔ یہ تہذیب ۔ ہم سب اسی کاحصہ ہیں۔ ہم ہر وقت مندر مسجد میں تو بیٹھے نہیں رہ سکتے۔ ہم سماج میں ملتے جلتے ہیں۔ سارے کام مل جل کر کرتے ہیں۔ ایسا ساری دنیا میںہوتا آیا ہے ۔ آج تو ساری حدیں ٹوٹ رہی ہیں اور کچھ لوگ کہتے ہیں ٹوٹ جاﺅ ۔ بٹ جاﺅ۔ یہ قطعی نہیں ہوسکتا۔“
ہندوستانی تہذیب کی وہ روایت جو تیرہویں صدی میں امیر خسرو کے ساتھ نمو پذیر ہوئی۔ بھیشم جی کی طرح تمام وطن پرست اور انسان دوست ادیبوں کے قلم اور ذہن میں رہی اور آج بھی ہے لیکن کچھ نا سمجھ اور نادان اسے توڑنا چاہتے ہیں ،صدیوں کی اس روایت اور اس عظیم وراثت کو بکھیرنا چاہتے ہیں۔ افسوس کہ کچھ ادیب بھی ایسے ہیں جو بقول کملیشور ” ان کی اوپری جیب میں قلم اور اندر کی جیب میں ترشول ہوتا ہے۔“
جہاں فرقہ واریت فسطائیت کا روپ لے چکی ہو۔ بازار واد کی تہذیب نے چکا چوند مچا رکھی ہو۔ بُرے بھلے اور غلط صحیح کی تمیز ختم ہوچکی ہو۔ خیالات اور وچاروں کی گنجائش کم ہوگئی ہو۔ منطق اور لاجک ختم ہوچکی ہو، جہاں مشترکہ جمال و حسن کے شاہکار تاج محل اور اجنتا ایلورا بھی کاروبار کا حصہ بن چکے ہوں تو ایسے میں مشترکہ کلچر کو یاد کرنا اور بھی ضروری ہوجاتا ہے۔ صدیوں کی گنگا جمنی تہذیب اور ہندو مسلم وغیرہ کی ملی جلی وراثت کو دہرایا جانا اور بھی لازمی ہوجاتا ہے۔ کچھ لوگ اتفاق نہ کریں گے لیکن میرا ماننا ہے کہ اگر کبیر و نظیر ۔ نانک اوربلے شاہ کی پرمپرا کو ۔ فراق و نرالا۔ ٹیگور و اقبال کی ملی جلی دھارا کو پھر سے بہادیا جائے۔ ایکتا اورانیکتا کے نغمے گائے جائیں تو یہ ہندوستان بھی بدلے گا اور ہندوستان میں رہنے والا ہر انسان بھی بدلے گا۔ ہندی بھی بدل جائے گی اور اردو بھی بدل جائے گی۔ ہندو مسلمان بھی بدل جائے گا۔ اس مشترکہ تہذیب کے ذریعہ ہم ہر مشکل سے لڑ سکتے ہیں۔ مندر اور مسجد کے سوال سے بھی۔ ہندو مسلم فساد سے بھی۔ علاقائیت سے بھی اور فرقہ واریت سے بھی اور تاریخ کی گھسی پٹی عصبیت سے بھی کہ ہمیں حال میں زندہ تو رہنا ہے لیکن تاریخ کی عظیم روایت اور تہذیب کی وراثت کو سمجھے اور سمجھائے بغیر ہم محض بازار کے شوپیس ہوکر رہ جائیں گے جسے کوئی بھی خرید سکتا ہے اور کوئی بھی بیچ سکتا ہے۔
٭٭٭
No comments:
Post a Comment