بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم
ادب اور اخلاقی اقدار
ترجمہ: اور شعرا، تو ان کے پیچھے بہکے ہوئے لوگ چلتے ہیں۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے ہیں اور وہ ایسی باتیں کہتے ہیں جو کرتے نہیں۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے، جنہوں نے نیک اعمال کیے اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا۔
عَن اُبَّیِ بِن کَعْبٍؓ قَالَ قَا لَ رَسُولُ اللّٰہِ ؐ اِنَّ مِنَ الشِعْرِ حِکْمَۃً (بخاری مسلم۔ کتاب نبوت 3/342) ابی بن کعبؓ نے کہا رسولُ اللہؐ نے فرمایا بے شک بعض اشعار سراسر حکمت ہوتے ہیں۔
قرآن انسانی زندگی کے جملہ انفرادی و اجتماعی امور کے لیے ہدایت و رہنمائی ہے۔ ( ہُدًی لِّلنّاسِ۔ البقرہ : 185) اس کی ہدایت آفاقی ہے۔ یعنی یہ ہر زمانے، ہر خطے اور رنگ و نسل کے انسانی سماج کے لیے ہے۔ نیز یہ ہر سماجی سطح کے انسانوں کے لیے ہے۔ چنانچہ اس میں ادیبوں اور شاعروں کی زندگیوں اور ان کی تخلیقات دونوں کے لیے ہر طرح کی رہنمائی موجود ہے۔ قرآن صراط مستقیم یعنی اسلام کی طرف انسانوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ (اِہْدِنَا الصِّراطَ المستقیم ۔ الفاتحہ: 6) یعنی شاعر و ادیب خود بھی مسلمان بنیں اور ان کی تخلیقات بھی مسلمان ہوں۔ تخلیقات کے مسلمان بننے کا مطلب ہے کہ وہ بہترین احساسات و خیالات سے مُزیَّن اور برائیوں سے پاک ادب ہو۔ بقول مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ ’’اس میں پاکیزہ جذبات و خیالات کا اظہار ہو۔ جو حقائق بیان کرے۔ جو انسان کو برائیوں کی طرف لے جانے والا نہ ہو۔ جو بھلائی کو نگاہ سے اوجھل نہ کرے۔ ‘‘
قرآن سے اہل علم و ادب کو حسب ذیل اخلاقی رہنمائیاں ملتی ہیں:
قرآن کا آغاز اللہ کے نام اور اس کی حمد و ثنا سے ہوتا ہے۔ (بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم o اَلحَمدُلِلّٰہِ رِبِّ العَالَمِین۔ الفاتحہ:1۔2) اس کے ہر باب کا آغاز بھی بسم اللہ سے ہی ہوتا ہے نیز اس کا ہر صفحہ اللہ کی پاکی اور بڑائی کے بیان سے مزین ہے۔ اس میں ہمارے لیے یہ رہنمائی ہے کہ ہم بھی اپنی نثرو نظم کا آغاز ہمیشہ خدا کے نام سے کیا کریں اور دونوں اصناف میں خدا کی حمد و ثنا، اس کی پاکی و بزرگی اور اس کی قدرتوں کا بیان ہو۔ شعراء کے لیے تو ضروری ہے کہ وہ حمد و مناجات کہا کریں۔ نثر نگاروں کا حال تو اور بھی برا ہے کہ وہ اللہ کی بخشی ہوئی نثرنگاری کی صلاحیت اور دیگر نعمتوں سے فیضیاب ہوتے ہیں مگر خدا کی حمد و ثناء میں چند جملے یا ایک آدھ مضمون بھی کبھی نہیں لکھتے۔ اللہ ہم سب کو توفیق دے۔
اسی طرح قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ خود بھی اور اس کے فرشتے بھی حضرت محمدؐ پر درود و سلام بھیجتے رہتے ہیں۔ (اِنَّ اللّٰہٰ وَمَلٓاءِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ط یَا اَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا صَلُّوعَلَیہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیماً ۔الاحزاب : 56) نیز دیگر مقامات پر بھی قرآن میں اللہ نے آپؐ کی تعریف و توصیف فرمائی ہے۔ چنانچہ ادباء و شعراء کو بھی سیرت مبارک پر مضامین اور نعتیں و سلام لکھتے رہنا چاہیے۔ البتہ اس کام میں غلو اور حد سے تجاوز کرنے کو اللہ ناپسند فرماتا ہے۔ مثلاً محمدؐ کو خدا کے برابر یا خدا بنالینا جیسا کہ بعض شعراء نے کیا ہے۔ اس معاملے میں سخت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی نے کہا ہے باخدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار۔
قرآن میں بہت سے غیر انبیاء مرد و خواتین کے تذکرے بھی ہیں جنہوں نے اچھے اور نیک کام انجام دیے تھے۔ اس سے ہمیں یہرہنمائی ملتی ہے کہ نیک لوگوں کی تعریف و توصیف میں مضامین اور قصیدے لکھنا جائز ہے۔ البتہ منہ پر کسی کی تعریف کرنے سے آنحضورؐ نے منع فرمایا ہے۔ مبادہ نفس موٹا ہونے سے وہ شخص مغرور و متکبر ہوجائے۔ لیکن دین کی غیر معمولی خدمت کرنے پر آپؐ نے منہ پر بھی تعریف فرمائی ہے۔ غزوۂ احد کے موقع پر آپؐ نے حضرت سعدؓ بن وقاص کی تیراندازی کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا ’’سعد تم پر میرے ماں باپ قربان، اسی طرح تیر چلائے جاؤ۔‘‘
قرآن نے برے لوگوں کو فہمائش اور ان پر لعنت ملامت بھی کی ہے۔ چنانچہ ادیبوں اور شاعروں کو سماج کے برے اور شریر لوگوں کو اپنی تخلیقات کے ذریعے ٹوکتے رہنا چاہیے تاکہ ان کی اصلاح کے راستے انہیں معلوم ہوجائیں۔ قرآن نے اہل اقتدار کی خرابیوں پر زیادہ گرفت کی ہے کیونکہ ان کی خرابیوں کے اثرات ہمہ گیر اور دوررس ہوتے ہیں۔ ظالم اور جابر صاحب اقتدار کے سامنے کلمہ حق کہنا سب سے بڑا جہاد ہے نیز مستحقین یعنی کمزوروں اور مظلوموں کے حق کے لیے آواز اُٹھانا سب سے بڑی نیکی ہے۔ اس لیے ادباء و شعراء کو اہل اقتدار کی حاشیہ برداری کرنے کی بجائے مظلوموں اور کمزوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی تخلیقات استعمال کرنی چاہیے۔
قرآن کی رہنمائی اور ہدایت کے مطابق مسلمان شعرا و ادباء کی تخلیقات توحید، رسالت اور آخرت کے پختہ یقین نیز حسن اخلاق اور تمام تر معروفات سے معمور و مزین نیز کفر و شرک اور تمام سیئات و منکرات سے پاک ہونی چاہئیں۔ اُردو کے ابتدائی دور کی شاعری کا بڑا حصہ مذہبی اور اخلاقی قدروں سے معمور نظر آتا ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ یہ چشمۂ صافی گدلا ہوتا گیا۔ اس میں شراب و شباب کے مضامین بڑھتے گئے اور مذہبی و اخلاقی مضامین کم سے کم تر ہوگئے۔ مولانا شبلی نعمانی، مولانا حالی، اکبر الہ آبادی، اقبالؒ وغیرھم نے اس خرابی کی روک تھام کرنے کی پوری کوشش کی۔
قرآن نے شراب کو حرام قرار دیا ہے۔ چنانچہ مسلمان ادیبوں اور شاعروں کو اس سے کلی اجتناب کرنا چاہیے اور اپنی تخلیقات کو بھی اس ام الخبائث کے ذکر سے پاک رکھنا چاہیے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اُردو کے بیشتر ادباء و شعراء نے اپنی ذات اور تخلیقات دونوں کو اس حرام سے آلودہ کرکے خدا کی نافرمانی کی۔ یہاں تک کہ بہت سے پابند شرع شعراء نے بھی حالات کے دباؤ سے مے ومے کشی پر اشعار کہے ہیں۔
نامحرموں سے خلط ملط قرآن نے ممنوع قرار دیا۔ مردوں کو نظریں نیچی رکھنے اور خواتین کو حجاب اختیار کرنے کا حکم دیا۔ قرآن نے عشق و عاشقی کے مکروہ فعل کو چوری چھپے آشنائی سے موسوم کیا ہے۔ یہی فعل آگے جاکر زنا جیسے فحش عمل میں بدلنے کا امکان رہتا ہے۔ اس لیے قرآن اور حدیث میں یہ لفظ ہی کہیں استعمال نہیں کیا گیا۔ اس سے اس کی شناعت ظاہر ہوتی ہے۔ لیکن عشق و عاشقی ہمارے ادب اور کا جزوِلاینفک بن گئے ہیں اور فحش نگاری سے ہمارے ناول، افسانے، نظمیں، گیت غزلیں بھرے پڑے ہیں۔ اردو شاعروں اور ادیبوں کے لیے بس یہی ایک موضوع رہ گیا ہے۔ ہند کے شاعر و صورت گرو افسانہ نویس آہ بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار
حال ہی میں ماہنامہ تحریر نومیں ایک قاری سنجے کمار کا خط شائع ہوا ہے۔ بہت دکھ سے لکھتے ہیں کہ وہ اُردو ہندی دونوں زبانوں کے رسائل پڑھتے ہیں، اُردو کے رسائل میں تشنگی پاتے ہیں۔ خاص طور سے عصر حاضر کے مسائل، تانیثیت اور دلتوں کے مسائل اور دیگر دلچسپ موضوعات اردو میں بہت کم دیکھنے کو ملے ہیں۔ ایک سنجے کمار ہی کیا، ہر سنجیدہ اور شریف قاری یہی سوچتا ہے۔ افسوس کہ اُردو ادب میں فحاشی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ بعض لوگ تو اس کو منظم سازش کے تحت کررہے ہیں۔ اگر اُردو ادب سے یہ صورتحال ختم نہ ہوئی تو قاریوں کو اجتماعی فیصلہ کرنا پڑے گاکہ جس طرح پارلیمنٹ اور اسمبلی میں یا دیگر سنجیدہ محافل و مجالس میں کوئی بے ہودہ بات زبان سے نکال دے تو اسے معافینگنی پڑتی ہے اور اپنی بات واپس لینی پڑتی ہے نیز کاروائی کی روداد میں اسے درج نہیں کیا جاتا ہے، بالکل اسی طرح الحاد و تشکیک ، زندگی سے فراریت اور مایوسی ، ہوس رانی اور فحاشی، مے نوشی اور ناجائز عشق و عاشقی وغیرہ برائیوں پر مبنی نثر اور شاعری لکھنے والے ادباء و شعراء اہلیان اُردو سے معافی مانگیں اور اپنی بے ہودہ تخلیقات واپس لیں۔ ورنہ اُردو ادب سے ایسی تخلیقات کو جبراً خارج کیا جائے گا۔
ایسا نہیں ہے کہ قرآن صرف خشک قسم کی وعظ و نصیحت سے ہی بھرا پڑا ہے۔ اس میں جابجا خوبصورت ادبی اسلوب کے لعل و گوہر بکھرے پڑے ہیں۔ قصۂ یوسف ؑ اس کی حسین مثال ہے۔ حضرت سلیمانؑ ، ابراہیمؑ اور موسیؑ کے واقعات بھی بے حد دلچسپ اسلوب میں بیان ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ قرآن نے جابجا بڑی خوبصورتی سے نازک اور پیچیدہ باتوں کو اس طرح بیان کردیا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی اور استعارہ کی خوبصورتی دل کو گدگداتی اور اثر ڈالتی ہے۔ دو مثالیں:
(1) حضرت مریم کو فرشتے عیسیؑ ٰ کے پیدا ہونے کی خوشخبری دیتے ہیں تو کنواری مریم حیرت خوف اور شرم سے جو لاجواب ، جواب دیتی ہیں وہ استعارہ دنیا کی کسی زبان کے ادب میں موجود نہیں ہوگا۔ وہ کہتی ہیں ’’میرے ہاں بچہ کہاں سے ہوگا، مجھے تو کسی مرد نے ہاتھ تک نہیں لگایا‘‘ (ترجمہ : آل عمران:47)
(2) ایک بہت نازک اور خوبصورت استعارہ شوہر بیوی کے لیے سورہ البقرہ: 187 میں استعمال کیا گیا ہے۔ فرمایا ’’وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔ یعنی جیسے لباس او رجسم کے درمیان کوئی اور شے نہیں ہے اور وہ جسم کی سترپوشی، حفاظت اور تزئین کرتا ہے یہی حال میاں بیوی کا ہے کہ ان کے درمیان کوئی اور نہیں ہوتا کہ ان کے رازوں سے واقف ہو اور وہ ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرتے ہیں اور تسکین و محبت کا سامان فراہم کرکے باہم ایک دوسرے کو برائیوں سے بچاتے اور ایک دوسرے کو خوش رکھتے ہیں۔
قرآن نے شوہر بیوی کے تعلقات کو جہاں بیان کیا ہے محض استعاراتی زبان میں ہی بیان کیا ہے تاکہ بات بھی پوری ہوجائے اور پردہ بھی برقرار رہے چنانچہ فرمایا (1) تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں۔ تمہیں اختیار ہے جس طرح چاہو اپنی کھیتی میں جاؤ۔ (2) اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے (الاعراف:189) ۔ (3) پھر جب مرد نے عورت کو ڈھانک لیا تو اسے ایک خفیف سا حمل رہ گیا (الاعراف:189) ۔ (4) تم پر کچھ گناہ نہیں، اگر اپنی عورتوں کو چھونے سے قبل ہی طلاق دے دو (البقرہ:236)۔ میاں بیوی کے تعلقات کو قرآن جس طرح بیان کررہا ہے وہ ان ہم عصر ادیبوں اور شاعروں کے لیے ہدایت اور سبق ہے جو مرد اور عورت کے تعلقات کو عریاں اور فحش انداز میں بیان کرتے ہیں۔ اس سے یہ رہنمائی بھی ملتی ہے کہ اگر ایسی باتیں بیان کیے بنا چارہ نہ ہو تو مجبوراً اشاروں، کنایوں میں بیان کی جاسکتی ہیں۔
ادب پر مذہب کی یہ اخلاقی پابندیاں فرض کے درجے کی ہیں۔ ان سے مفر ممکن نہیں۔ کوئی ان حدود کو توڑتا ہے تو گناہگار ہوتا ہے۔ ادب کو اخلاقی حدود کا پابند ہونا چاہیے، یہ صرف قرآن و حدیث سے ہی ثابت نہیں ہوتا بلکہ تمام ادیان کی مذہبی کتب یہ پابندیاں عائد کرتی ہیں۔
اس پابندی کا جواز دوسرے پہلو سے بھی ثابت ہوتا ہے ، وہ یہ کہ ادب تو اللہ کی طرف سے انسان کو بخشے گئے بہترین انعام’’ نطق و گویائی‘‘ کا بہترین مظہر ہے جس کے بارے میں قرآن میں اللہ نے اشارہ فرمایا ہے : اَلرَّحمٰن O عَلَّمَ القُرآن O خَلَقَ الاِنْسَانَ عَلَّمَہُ البَیَانَ O (سورہ الرحمن: 1تا 3 ) ترجمہ: رحمن نے اس قرآن کی تعلیم دی ہے۔ اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا۔ قوت نطق و گویائی نے ہی انسان کو تمام مخلوقات میں اشرف و افضل بنایا ہے۔ انسان جو کچھ دیکھتا اور سوچتا سمجھتا ہے اسے بیان کرسکتا ہے۔ بیان کے معنیپنے خیالات، جذبات و احساسات اور مدعا ظاہر کرنا ہے۔ اس کے دوسرے معنی فرق و امتیاز کو واضح کرنا بھی ہے۔ اس میں برائی اور بھلائی میں امتیاز کرنے کی اہمیت و فوقیت زیادہ ہے۔ گویائی کی قوت کے پیچھے عقل و شعور ، فہم و ادراک اور تمیزوارادہ وغیرہ کی قوتیں بھی کارفرما ہیں۔ چنانچہ اس عظیم نعمت کا صحیح استعمال انتہائی ضروری ہے۔ چاہے شاعری ہو یا اظہار خیال کی کوئی اور صنف مثلاً نثر، گفتگو، تقریر، وعظ وغیرہ۔ آدمی کو ہر وقت چوکنّا رہنا چاہیے کہ نعمت نطق و گویائی کا غلط استعمال نہ ہو۔ قرآن و حدیث میں اس کی بڑی تاکید آئی ہے۔
(i) یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُواللّٰہُ وَقُوْلُوٰ قَوْلًا سَدِیدًا O (الاحزاب: 70) ترجمہ: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کہو۔
(ii) وَ قُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُواالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ .... (بنی اسرائیل:531) ترجمہ: اے نبیؐ میرے بندوں سے کہہ دو کہ وہ بات کہیں جو بہترین ہو۔
(iii) وَعَن ابی ہریرہؓ عنِ النَّبِیِّؐ قَالَ مَنْ کَانَ یُوْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ لآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْراً اَوْیَصْمُت (بخاری مسلم) ترجمہ: حضرت ابوہریرہؓ نے نبیؐ سے روایت کیا کہ آپؐ نے فرمایا ’’جو اللہ و آخرت پر ایمان رکھے وہ اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے۔ ‘‘
(iv) عَن عبُداللہؓ بن عُمرٍؓ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِؐ: مَن صَمَتَ نَجَا (احمد ترمذی) ترجمہ: حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت نبیؐ نے فرمایا ’’جو خاموش رہا اس نے نجات پائی۔ ‘‘
(v) آپؐ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ جو مجھے اپنی رانوں کے درمیان کی چیز (شرمگاہ) اور جبڑوں کے درمیان کی چیز (زبان) کی ضمانت دیتا ہے (کہ ان کا صحیح استعمال ہوگا، غلط نہ ہوگا) میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔
درج بالا قرآنی آیات اور احادیث طے کردیتی ہیں کہ شعر و ادب اگر وہ اسلامی حدود کے اندر ہوں تو فنکار اور معاشرہ دونوں کے لیے مفید ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تہذیب میں ادب ہی نہیں دیگر فنون لطیفہ نے بھی ان حدود کا لحاظ رکھا اور تحریمات و مکروہات سے پرہیز و اجتناب کیا۔
اسلامی تہذیب کے بنیادی عناصر ہمیشہ توحید ،رسالت و آخرت رہے ہیں اور ان شاء اللہ آئندہ بھی رہیں گے۔ اسلامی تعلیمات کے اثرات ہی ہیں جن سے مسلم تہذیب و تمدن اور فنون لطیفہ میں شرک و بت پرستی سے اجتناب اور حرام سے دوری نظر آتی ہے۔ اس سلسلے میں اُردو دائرۃ المعارف اسلامیہ مطبوعہ لاہور میں بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے جس کا مختصر تذکرہ حسب ذیل ہے۔
ان اسلامی تعلیمات نے فن کا تصور ہی بدل دیا ۔ فن نقالی، مشابہت یا تقلید نہیں ہے بلکہ فن ایک عمل مطلق ہے۔ مسلم فن کار خالق نہیں، عامل ہوتا ہے۔ مسلم تہذیب میں فن کا مقصد صرف حظ، مسرت اور تفریح حاصل کرنا نہیں ہے۔ بلکہ اتصاف بہ اوصاف اللہ یعنی خدا کی طرح حسن خلاقیت سے متصف ہونا ہے۔ وحدانیت اور امتیاز خدا کی صفات ہیں۔ چنانچہ مسلم فن کار اپنے فن میں کمال، جدت، امتیازاور تفوق پیدا کرتا ہے۔ یہ اصول مسلم فن کار کو عمل خیر اور حسن عمل پر ابھارنے والے اصول ہیں جو اس کے فن کی تطہیر کرتے، اسے استحکام دیتے اور نیکی و خیر و حسن کا دوام اور استقامت بخشتے ہیں۔ یہ اصول اسے تسخیر اور غلبہ پر آمادہ کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ زندگی کے نازک اور پرپیچ مسائل کی تسخیراپنے فن کے ذریعہ کرتا ہے۔ اس کا عقیدہ اسے سکھاتا ہے کہ ان مسائل کی جڑ باطل افکار و نظریات ہیں چنانچہ وہ باطل افکار کی تسخیرکے لیے اپنے فن کے ذریعے غلط افکار، تصورات اور اعمال کی بیخ کنی کرتا ہے۔
اسلامی عقیدہ فن کار کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ وہ دنیا میں آزاد اور خود مختار نہیں ہے بلکہ اس کا فن، اس کی صلاحیتیں اور اس کی پوری زندگی اس کے پاس اللہ کی امانت ہیں۔ وہ اللہ کا خلیفہ و نائب ہے ۔ وہ امانت میں خیانت نہیں کرسکتا۔ چنانچہ وہ خلیفہ ہونے کی ذمہ داریاں پوری کرتا اور اپنے فن کو وفاداری سے استعمال کرکے نیابت کا حق ادا کردیتا ہے۔
اسلامی تہذیب نے سابقہ تہذیبوں سے اخذ و استفادہ کے لیے خُذمَا صَفَاء وَدَع مَا کَدَرَ یعنی صالح وصفا اجزا اخذ کرو اور غیر صالحترک کرو کا اصول اپنایا جس کے نتیجے میں برصغیر ہند و پاک ، مشرق بعید انڈونیشیا اور ملیشیا ، حجاز و عرب، ترکی، ایران، مشرقی و جنوبی یوروپ ، افریقہ اور چین وغیرہ میں درخشاں اور ممتاز مسلم تہذیب و تمدن کا آغاز ہوا اور یہ صدیوں تک قائم رہا۔ اسی تہذیب و تمدن نے آج کی جدید دنیا اور اس کے اعلیٰ تہذیب و تمدن کی بنیادیں فراہم کیں۔
اس موضوع کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ ادب ایک اعلیٰ درجے کا فن ہے۔ ادب کے معنی تہذیب و شائستگی، حفظِ مراتب، لحاظ، اچھی تربیت، اخلاق سکھانا وغیرہ ہے۔ وہ علم جس کے ذریعہ تقریر و تحریر میں غلطیوں اور لغزشوں سے بچا سکے اسے بھی ادب کہتے ہیں۔ وہ علم زبان جس میں نَحو، لغت، عَروض، انشاء ، معانی اور بیان شامل ہیں۔ (المنجد، فیروز الغات)۔ شعر کا لغوی مطلب سمجھ داری ، جانکاری ، شعورہے اور اس کا اصطلاحی مفہوم موزوں ، بامقصد اور بالارادہ کلام ہے۔ شعر کو بامقصد ہونا چاہیے۔ موجودہ دور میں زندگی کے تمام مسائل شاعری خصوصاً غزل میں سموئے جاتے ہیں جس سے غزل کی مقصدیت میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ اسی لیے رشید احمد صدیقی نے غزل کو اُردو شاعری کی آبرو کہا ہے۔ لیکن ہم عصر شاعر جاوید ندیم کا قول اس سے زیادہ منطقی اور پُرمعنی ہے جو غزل کو اُردو شاعری کا چہرہ کہتے ہیں۔ چہرہ آدمی کی شخصیت اور ذات کی شناخت ہوتا ہے۔ غزل بھی اُردو شاعری کی شناخت بن گئی ہے۔
شاعری کے اچھے برے اثرات انسانی سماج پر لازماً پڑتے ہیں کیونکہ شعر کی تاثیر مسلّم ہے۔ اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ شعر میں اختصار مضمون، موزونیت یعنی الفاظ کے مخصوص و منظم دروبست اور قافیہ ردیف کے لزوم کی بناء پر ایک قسم کی غنائیت پیدا ہوجاتی ہے جو اس کے زبان زد ہونے اور حافظہ میں محفوظ رہنے میں معاون ہوتی ہے۔ آدمی شاعری کو آسانی سے یاد رکھ سکتا ہے نثر کو نہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ شاعری سامع میں حزن یا نشاط اور جوش یا افسردگی پیدا کرتی ہے۔ مولانا الطاف حسین حالیؒ نے اپنی کتاب’’ مقدمۂ شعر و شاعری‘‘ میں اس کی کئی مثالیں دی ہیں۔ مثلاً :
(i) لارڈ بائرن انگلینڈ کا قومی شاعر تھا۔ اس کی شاعری مقبول عام تھی۔ اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ لوگ اس کی ہوبہو نقل کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اس کی ماتھے کی سلوٹوں جیسی سلوٹیں، اپنے ماتھے پر بھی پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
(ii) ایتھنز اور مگارا کی جنگ میں ایتھنز کی بار بار شکست ہوئی جس سے ایتھنز والوں کے حوصلے پست ہوگئے۔ ایک قانون داں سولن کو غیرت محسوس ہوئی اور اس نے اپنی قوم کو بیدار کرنے کے لیے کچھ اشعار کہے جو اتنے پراثر تھے کہ ایتھنز والے پھر سے لڑنے پر تیار ہوگئے۔ دوبارہ جنگ ہوئی تو پر جوش اہل ایتھنز کی فتح ہوئی۔ یعنی سولن کے اشعار نے نہ صرف لوگوں کو بیدار کیا بلکہ انہیں فتح سے ہمکنار کیا۔
(iii) انگلینڈ کے کنگ ایڈورڈ نے ویلز پر حملہ کیا۔ انگلینڈ کے آگے Wales کی کوئی حقیقت نہیں تھی۔ لیکن ویلز کے شاعروں نے قوم کو غیرت دلائی جس کے نتیجے میں اہل ویلز نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ایڈورڈ کو سخت پریشان کیا۔
(iv) میمون بن قیس نابینا تھا۔ اعشٰی اس کا تخلص تھا۔ اس کی شاعری اتنی پراثر تھی کہ شعروں میں جس کی تعریف کرتا وہ مشہور ہوجاتا اورجس کی ہجو کرتا وہ بدنام ہوجاتا۔ ایک بار اس کے پاس ایک عورت آئی جس کی بہت سی لڑکیاں تھیں لیکن کسی کی شادی نہیں ہورہی تھی۔ اس نے اعشٰی سے کہا کہ اپنے اشعار میں لڑکیوں کی تعریف کردے تو ان کی شادیاں ہوجائیں گی اور انہیں بر مِل جائیں گے۔ چنانچہ اعشیٰ نے ایک قصیدہ لکھا جس میں ان لڑکیوں کے حسن و جمال اور اخلاق و عادات کی زبردست تعریف و توصیف کی گئی تھی۔ جب یہ قصیدہ لوگوں تک پہنچا تو نتیجے میں عرب امراء سے ان لڑکیوں کی شادیاں ہوگئیں۔
(v) رودکی معروف و مشہور ایرانی شاعر تھا۔ خراسان فتح کرکے امیر نصربن احمد سامانی ہرات میں طویل عرصہ ٹھہرا اور سیر و شکار میں مصروف رہا۔ طویلِ قیام سے فوج اور امراء بیزار ہوگئے۔ انہوں نے لاکھ کوششیں کیں کہ امیر بخارا کی طرف کوچ کرے لیکن انہیں کامیابی نہملی۔ بالآخر انہوں نے رودکی کو آمادہ کیا کہ وہ امیر کا مزاج دیکھ کر اسے بخارا کی تعریف میں کوئی قصیدہ سنادے۔ رودکی نے بخارا کا قصیدہ لکھا۔ امیر قصیدہ سن کر ایسا بے قرار ہوا کہ فوراً بخارا کی طرف کوچ کرنے کا حکم دے دیا۔
(vi) یہ بات عرب تاریخ میں درج ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں شعراء کے کلام کی وجہ سے جنگیں ہوجایا کرتی تھیں۔
(vii) شعر کی اسی تاثیر کی وجہ سے حضورؐ کافروں اور مشرکوں کی ہجو کا جواب حسّانؓ بن ثابت، عبداللہؓ بن رواحہ وغیرہ سے دلاتے تھے۔
اُردو شاعری کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اُردو میں بھی انتہائی پراثر شاعری کی گئی ہے۔ اُردو کے ابتدائی دور کی شاعری تو تقریباً مذہبی مواعظ اور پندو نصائح پر مبنی ہے۔ بعد کے ادوار میں بھی شاعری سے سماجی اصلاح اور دینی شعائر عام کرنے کی خدمت لی جاتی رہی ہے۔ خصوصاً خانوادۂ حضرت حسینؓ کی شہادتوں اور واقعات کربلا کے پراثر اظہارکے لیے مرثیہ نگاری کی صنف سے بڑی خدمات لی گئی ہیں۔
مولانا شبلی نعمانیؒ ، علامہ اقبالؒ اور مولانا حالی نے بھی اپنے کلام کے ذریعہ ملت اسلامیہ ہند میں بیداری کی روح پھونک دی تھی۔
اکبر الہٰ آبادی کے طنز و مزاح سے بھرپور اشعار نے انگریزی تہذیب و تمدن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جو ہندوستانی مشرقی تہذیب پر غالب ہوتی جارہی تھی، انہوں نے اس پر ضرب کاری لگائی نیز اہل ہند خصوصاً مسلمانوں کو اس تہذیب کے مضر اثرات سے بچانے میں نمایاں رول ادا کیا۔
شاعری سے سماج پر جو مثبت اثرات پڑتے ہیں ان کے پیش نظر ہمیشہ ہی بہتر انسانی جذبات مثلاً جدوجہد، قربانی، اخوت و بھائی چارہ حب وطن، آزادی، ظلم و غلامی سے نجات، دشمن پر فتح ، کمزوروں کی مدد و حمایت وغیرہ پیدا کرنے اور بڑھانے کے لیے شاعری سے ہمیشہ مدد لی گئی ہے۔ نظموں، نغموں، ترانوں، گیتوں وغیرہ سے سامع میں ایک قسم کا جوش و خروش، پیش قدمی اور عزم و حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔
درج بالا بحث میں بیان کردہ تینوں نقطے (1) قرآن و حدیث کے احکامات (2) اللہ کی عطا کردہ نعمتِ نطق و گویائی کا درست استعمال اور (3) شعر و ادب کے انسانی سماج پر اثرات، طے کردیتے ہیں کہ ادب اور اخلاقی اقدار لازم و ملزوم ہیں۔ انہیں الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اگر خدانخواستہ ادب کو اخلاقی اقدار سے دور کردیا گیا تو یہ ہر لحاظ سے انسانوں کے لیے مضرت رساں ہی ثابت ہوگا۔
--
Mohammad Asalm Ghazi,
Sec. National & International Affairs Dept.
JAMA'AT ISALMI HIND MAHARASTRA.
Mohammad Asalm Ghazi,
Sec. National & International Affairs Dept.
JAMA'AT ISALMI HIND MAHARASTRA.
No comments:
Post a Comment