نعت گوئی فن شاعری کے زیور کا نگینہ ہے۔نعت کا فن بہ ظاہر جس قدر آسان نظر آتا ہے بباطن اسی قدر مشکل ہے۔ ایک طرف وہ ذات گرامی ہے جس کی مد ح خود رب العالمین نے کی ہے، دوسری طرف زبان اور شاعری کے جمالیاتی تقاضے ہیں۔اس لیے نعت کا حق وہی ادا کر سکتا ہے جو جذبہٴ عشق رسول سے سرشار ہو اور یہ وصف وہبی ہے۔ بس جسے اللہ توفیق دے وہی نعت کہہ سکتا ہے ایک طرح سے یہی کہا جائے گا۔
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
سہ حرفی لفظ نعت ( ن ع ت ) عربی زبان کا مصدر ہے اس کے لغوی معنی کسی شخص میں قابل تعریف صفات کا پایا جانا ہے۔ یوں تو عربی زبان میں متعدد مصادر تعریف و توصیف کے لیے استعمال ہو تے ہیں۔ مثلاً حمد، اللہ جل شانہ کی تعریف کے لیے مخصوص ہے اور نعت حضور سرور کائنات صلعم کی تعریف و توصیف کے لیے مستعمل ہو کر مخصوص ہوئی۔
اسی طرح اردو شاعری میں نظم کی اصناف سخن میں نعت وہ صنف سخن ہے جس کے اشعار میں رسول مقبو ل صلعم کی تعریف و توصیف بیان کی جاتی ہے۔ اردو میں شاید ہی ایسی کو ئی صنف سخن ہو جس میں نعتیں نہ کہی گئی ہوں۔ اس کے لیے اس کے اسالیب طے شدہ نہیں ہیں۔ اس طرح سے اس کا دائرہ بھی بہت وسیع ہو جاتا ہے۔ مگر سب سے اہم تقاضا عشق رسول سے سرشاری کا ہے۔ شاہ معین الدین ندوی اپنی کتاب ”ادبی نقوش “ میں رقم طراز ہیں:
”نعت کہنا آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔محض شاعری کی زبان میں ذات پاک نبی صلعم کی عامیانہ توصیف کر دینا بہت آسان ہے، لیکن اس کے پورے لوازم و شرائط سے عہدہ بر آ ہونا بہت مشکل ہے ․․․ حب رسول صلعم کے ساتھ نبوت کے اصلی کمالات اور کارناموں، اسلام کی صحیح روح، عہد رسالت کے واقعات اور آیات و احادیث سے واقفیت ضروری ہے جو کم شعراء کو ہوتی ہے۔ اس کے بغیر صحیح نعت گوئی ممکن نہیں۔ نعت کا رشتہ بہت نازک ہے۔ اس میں ادنیٰ سی لغزش سے نیکی برباد گناہ لازم آجاتا ہے۔ اس پل صراط کو عبور کرنا ہر شاعر کے بس کی بات نہیں۔ یہ وہ بارگاہ اقدس ہے جہاں بڑے بڑے قدسیوں کے پاؤں لرز جاتے ہیں۔ (ادبی نقوش صفحہ 284)
شاہ معین الدین ندوی نے نعت گوئی کے لیے شاعر کا صاحبِ بصارت اور صاحب بصیرت ہونا اولین شرط قرار دیا ہے۔ کیوں کہ حضور سرور کائنات صلعم کی ذات مقدس، نبوت اور عبدیت کے کمال پر خالق بی نازاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مدح رسول اور ذکر رسول کو اعلیٰ و ارفع قرار دیا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے، ’ورفعنا لک ذکرک‘ (اور ہم نے تمہارے ذکر کو بلند کیا)۔
خالق جس کی تخلیق پر نازاں ہوں اور مدح سرائی فرمائی ہو اس کی ثنا خوانی انسان سے کہاں ممکن ہے۔ کیوں کہ ذات مقدس کو وجہ تخلیق کائنات ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اس لیے الفاظ پر کتنی ہی قدرت کیوں نہ ہو شاعر اپنے آپ کو عاجز پاتا ہے اور یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
نعت گوئی کی بنیادی شرط ہے کہ عشقِ رسول میں فنا ہو جانا اور فنا کس طرح ہو؟ ایک مجلس میں آں حضورصلعم نے ارشاد فرمایا کوئی انسان اس وقت تک مومن نہیں بن سکتا جب تک میری ذات اس کے لیے ماں، باپ، اولاد، سب سے زیادہ محبوب نہ بن جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ وہاں تشریف فرما تھے۔
انہوں نے عرض کیا کہ جناب والا کی ذات ستودہ صفات والدین اور اولاد سے زیادہ محبوب ہے، لیکن ابھی یہ کیفیت نہیں ہے کہ میں آپ کی ذات کو اپنی جان سے بھی زیادہ پیارا سمجھوں۔ حضور صلعم نے فرمایا کہ ابھی ایمان کی تکمیل نہیں ہوئی ہے۔ حضور صلعم کا فرمانا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ کے دل پر ضرب کاری لگی اور آں حضرتصلعم کی توجہ سے دل کی کیفیت بدل گئی۔ حضرت عمر نے عرض کیا کہ خدا کا شکر ہے اب دل میں کیفیت پیدا ہوئی کہ جناب صلعم کی ذات گرامی مجھے اپنی ذات سے بھی زیادہ محبوب ہے۔ آں حضرت صلعم نے فرمایا کہ اب تمہارا ایمان مکمل ہو گیا۔
اس فرمانِ نبوی صلعم کی رو سے ایک مومن کی تکمیل ایمانی کے لیے اس کے قلب کی یہی کیفیت ضروری ہے کہ اس کے اندر مکمل سپردگی ہو۔
نعت گوئی کا محرک قرآن کریم ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے حبیب لبیب کی شان میں جو الفاظ استعمال کیے اس کا ثانی تو ہو ہی نہیں سکتا۔انسان ضعیف البنیان کی کیا بساط ہے۔ جو لب کشائی کرے۔ ایک سچے عاشق رسول صلعم اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں بریلوی فرماتے ہیں:
قرآں سے میں نے نعت گوئی سیکھی
یعنی رہے احکام شریعت ملحوظ
مولانا رؤف امروہوی کہتے ہیں:
لکھوں کیا وصف شاہ انس و جاں سے
زباں اللہ کی لاؤں کہاں سے
علامہ محسن کاکوروی کہتے ہیں:
ادھر مخلوق میں شامل ادھر اللہ سے واصل
خواص اس برزخِ کبریٰ میں ہے حرف مشدد کا
ایک او رشاعر کا اعتراف ہے:
حدیثوں میں خدا کا ذکر ان کا ذکرقرآں میں
خدا کے مدح خواں وہ ہیں خدا ہے مدح خواں ان کا
جس کا ثنا خواں اللہ تعالیٰ ہے وہاں انسان کیا جسارت کر سکتا ہے؟لیکن اپنے محبوب کی مداحی کرنے سے خود کو روک بھی نہیں سکتا۔ اس لیے نعت کا ورودِ مسعود ہوا اور ہمارے شعرا نے ا س کے لیے آسمان سے زمینیں تراشیں۔
نعت گوئی کا آغاز حضورصلعم کی حیات و طیبہ میں ہو چکا تھا۔ اس ذیل میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ کا نام نامی اسم گرامی خصوصیت سے لیا جاتا ہے۔ جنہوں نے رسول اکرم صلعم کی شان میں بے شمار نعتیہ اشعار کہے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں دعا فرمائی۔ ان کے لیے اپنے سامنے منبر رکھوایا۔ اسی سے نعت گو کے اعلیٰ و ارفع مقام کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
حضورصلعم کی حیات و طیبہ کے دور میں جن صحابہ کرام نے نعتیں کہیں ان میں ابو طالب بن عبد المطلب، حضرت حمزہ بن عبد المطلب بن ہاشم، حضرت عبد الرحمن بن رواحہ، حضرت عباس بن عبد المطلب، حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی، حضرت علی مرتضیٰ، حضرت فاطمہ، حضرت کعب بن زبیر، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ، امام زین العابدین علی سجادالحسین کے نام نامی اسم گرامی آتے ہیں۔ عرب کے شعرا نے فن نعت گوئی کو بام عروج پر پہنچا دیا تھا۔ مگر ہندوستان کے شعرا بھی اس میں پیچھے نہیں رہے اسی لیے شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال نے اس سرزمین کے بارے میں کہا تھا:
میرِ عرب کوآئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
یہ کہنا مشکل ہے کہ ہندوستان میں نعت گوئی کا آغاز کب ہوا۔ کبیر داس نے ایک دوہے میں لکھا ہے:
عدد نکالوں ہر چیز سے چوتن کر لو دائے
دو ملا کہ پچگن کر لو بیس کا بھاگ لگائے
باقی بچے کے نو تن کر لو دو اس میں دو اور ملائے
کہت کبیرسنو بھئی سادھو نام محمد صلعم آئے
اسی طرح گرو گرنتھ میں آتا ہے:
میم محمد من تو ں من کتابہ چار
من خدائے رسول نو ں سچا ای دربار
ان کے علاوہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، خواجہ معین الدین چشتی سنجری اجمیری، حضرت شمس الدین تبریز، شاہ بو علی شاہ قلند ر پانی پتی، خواجہ نظام الدین اولیا، حضرت امیر خسرو نے بھی نعتیں کہی ہیں۔
ہندوستان کے اردو اور فارسی شعرا میں نہ صرف مسلمان بلکہ اہل ہنود نے بھی نعتیں لکھی ہیں۔ ان میں کئی تو ایسے ہیں جن کے نعتیہ کلام کے دواوین بھی موجود ہیں۔ نور میرٹھی نے ہندو نعت گو شعرا پر ایک کتاب مرتب کی ہے۔ جس کا نام ہے ”بہ ہر زماں، بہ ہر زباں“۔ جس میں 326ہندو نعت گو شعرا کا ذکر ہے اور ان کی نعتیں یکجا کر دی گئی ہیں۔
اردو میں شاعری کی ابتدا عرض دکن سے ہوئی۔ اسی لیے سلطان قلی قطب شاہ اور محمد شاہ کو اردو کے پہلے نعت گو شاعر ہونے کا فخر حاصل ہے۔ ان کے کلام کا خاصا حصہ نعت رسول صلعم پر مشتمل ہے۔ اسی لیے ولی دکنی کے دور سے لے کر عہد جدید کے شعراء تک نعت گوئی کا سلسلہ برابر قائم ہے اور اردو کا ہر شاعر نعت کہنا اپنے لیے باعث سعادت تصور کرتا ہے۔
اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں بریلوی اگرچہ عالم دین تھے مگر ان کی شہرت نعت گو کی حیثیت سے بھی ہے۔ انہیں عربی و فارسی اور اردو کے علاوہ ہندی زبان پر بھی قدرت حاصل تھی اور ان کی ایک نعت اس قدر مشہور ہے کہ ان کا ذکر آتے ہی اس کے اشعار زبان پر آجاتے ہیں:
لم یات نظیر ک فی نظر مثل تو نہ شُد پیدا جانا
جگ راج کو تاج تورے سرسوہے تجھ کو شہ دوسرا جانا
یا شمس نظرت الی لیلی چوبہ طیبہ رسی عرضے بکنی
توری جوت کی جھلجھل جگ میں رچی موری شب نے نہ دن کو ہوا جانا
انا فی عطش و سخاک اتم اے گیسوئے پاک اے ابر کرم
برسن ہارے رم جھم رم جھم دو بوند ادھر بھی گرا جانا
علامہ محسن کاکوروی نے بے معنی مبالغہ آرائی اور لفظوں کی صنعت گری سے احتراز کر کے سیدھے سادھے انداز میں نعتیہ قصیدے لکھے۔ اردو نعت گوئی میں کرامت علی خاں شہیدی،مولانا الطاف حسین حالی، علامہ اقبال، منیر شکوہا آبادی، امیر مینائی، سحر لکھنوی، اصغر گونڈوی، بہزاد لکھنوی، حفیظ جالندھری، حمید صدیقی، ماہر القادری جیسے نام ہیں جو متعبر اور معروف ہیں۔ ان کے علاوہ غیر مسلم شعرا میں پنڈت دیاشنکر نسیم، چھنو لال دلگیر، پنڈت ہری چند اختر، گوپی ناتھ امن، نوبت رائے نظر، پنڈت امر ناتھ آشفتہ دہلوی، بھگوت رائے راحت کاکوروی، مہاراجہ کشن پرساد،پنڈت برج موہن دتا تریہ کیفی، رگھوپتی سہائے، فراق گورکھپوری، اوم پرکاش، باقر ہوشیار پوری، تلوک چند محروم، تربھون ناتھ زار زتشی دہلوی، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، بال مکند عرش ملسیانی، پریم لال شفا، کالی داس گپتا رضا، جگن ناتھ آزاد، آنند موہن گلزار دہلوی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
دور حاضر میں بھی نعتیہ شعرا کی بہت بڑی تعداد ہے۔خاص طور سے پاکستان میں نعت گوئی کو کافی عروج حاصل ہوا ہے۔ وہاں نعتوں پر تحقیق کا بھی خاصا کام ہوا ہے۔ پاکستان کے نعتیہ شعرا میں حفیظ تائب، عبد العزیز خالد، مظفر وارثی، مشکور حسین یاد اور ریاض مجید نے نعت کو نیا رنگ و آہنگ دیا ہے اور نئی لفظیات سے آراستہ کیاہے۔
اگرچہ بظاہر نعت گوئی آسان لگتی ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ اگر اللہ اگر توفیق نہ دے تو نعت گوئی انسان کے بس کا کام نہیں ہے۔حضرت شیخ سعدی کا مشہور واقعہ ہے کہ انہوں نے مدح رسول میں تین مصرعے کہے۔ کوشش کے باوجود چوتھا مصرعہ نہ ہو تا تھا اور سخت پریشان تھے۔ ایک شب انہیں خواب میں بشارت ہوئی۔ حضور سرور کائناتصلعم بنفس نفیس موجود ہیں اور شیخ سعدی سے فرماتے ہیں سعدی تم نے تین مصرعے کہے ہیں ذرا سناؤ۔ شیخ سعدی نے تینوں مصرعے سنائے اور خاموش ہو گئے۔ آ پ صلعم نے فرمایا یہ مصرعہ بڑھا لو۔ صلو علیہ و آلہ۔اور یوں حضرت شیخ سعدی کی نعتیہ رباعی مکمل ہوئی۔اللہ تعالیٰ نے اس رباعی کو شرف قبولیت بخشا اور اس طرح شیخ سعدی نعت گو شعرا میں ممتاز ہو گئے۔ اس رباعی کے چار مصرعے ہمیشہ توصیف مدح رسول صلعم کرتے ہیں۔
بلغ العلےٰ بکمالہ
کشف الدجیٰ بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ
صلوا علیہ و آلہ
لیکن جب نعت محمدصلعم کی بات آتی ہے تو پھر اس قطعے پر آکر ختم ہو جاتی ہے:
یا صاحب الجمال و یا سید البشر
من وجہک المنیر لقد نور القمر
لا یمکن الثنا کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
سہ حرفی لفظ نعت ( ن ع ت ) عربی زبان کا مصدر ہے اس کے لغوی معنی کسی شخص میں قابل تعریف صفات کا پایا جانا ہے۔ یوں تو عربی زبان میں متعدد مصادر تعریف و توصیف کے لیے استعمال ہو تے ہیں۔ مثلاً حمد، اللہ جل شانہ کی تعریف کے لیے مخصوص ہے اور نعت حضور سرور کائنات صلعم کی تعریف و توصیف کے لیے مستعمل ہو کر مخصوص ہوئی۔
اسی طرح اردو شاعری میں نظم کی اصناف سخن میں نعت وہ صنف سخن ہے جس کے اشعار میں رسول مقبو ل صلعم کی تعریف و توصیف بیان کی جاتی ہے۔ اردو میں شاید ہی ایسی کو ئی صنف سخن ہو جس میں نعتیں نہ کہی گئی ہوں۔ اس کے لیے اس کے اسالیب طے شدہ نہیں ہیں۔ اس طرح سے اس کا دائرہ بھی بہت وسیع ہو جاتا ہے۔ مگر سب سے اہم تقاضا عشق رسول سے سرشاری کا ہے۔ شاہ معین الدین ندوی اپنی کتاب ”ادبی نقوش “ میں رقم طراز ہیں:
”نعت کہنا آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔محض شاعری کی زبان میں ذات پاک نبی صلعم کی عامیانہ توصیف کر دینا بہت آسان ہے، لیکن اس کے پورے لوازم و شرائط سے عہدہ بر آ ہونا بہت مشکل ہے ․․․ حب رسول صلعم کے ساتھ نبوت کے اصلی کمالات اور کارناموں، اسلام کی صحیح روح، عہد رسالت کے واقعات اور آیات و احادیث سے واقفیت ضروری ہے جو کم شعراء کو ہوتی ہے۔ اس کے بغیر صحیح نعت گوئی ممکن نہیں۔ نعت کا رشتہ بہت نازک ہے۔ اس میں ادنیٰ سی لغزش سے نیکی برباد گناہ لازم آجاتا ہے۔ اس پل صراط کو عبور کرنا ہر شاعر کے بس کی بات نہیں۔ یہ وہ بارگاہ اقدس ہے جہاں بڑے بڑے قدسیوں کے پاؤں لرز جاتے ہیں۔ (ادبی نقوش صفحہ 284)
شاہ معین الدین ندوی نے نعت گوئی کے لیے شاعر کا صاحبِ بصارت اور صاحب بصیرت ہونا اولین شرط قرار دیا ہے۔ کیوں کہ حضور سرور کائنات صلعم کی ذات مقدس، نبوت اور عبدیت کے کمال پر خالق بی نازاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مدح رسول اور ذکر رسول کو اعلیٰ و ارفع قرار دیا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے، ’ورفعنا لک ذکرک‘ (اور ہم نے تمہارے ذکر کو بلند کیا)۔
خالق جس کی تخلیق پر نازاں ہوں اور مدح سرائی فرمائی ہو اس کی ثنا خوانی انسان سے کہاں ممکن ہے۔ کیوں کہ ذات مقدس کو وجہ تخلیق کائنات ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اس لیے الفاظ پر کتنی ہی قدرت کیوں نہ ہو شاعر اپنے آپ کو عاجز پاتا ہے اور یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
نعت گوئی کی بنیادی شرط ہے کہ عشقِ رسول میں فنا ہو جانا اور فنا کس طرح ہو؟ ایک مجلس میں آں حضورصلعم نے ارشاد فرمایا کوئی انسان اس وقت تک مومن نہیں بن سکتا جب تک میری ذات اس کے لیے ماں، باپ، اولاد، سب سے زیادہ محبوب نہ بن جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ وہاں تشریف فرما تھے۔
انہوں نے عرض کیا کہ جناب والا کی ذات ستودہ صفات والدین اور اولاد سے زیادہ محبوب ہے، لیکن ابھی یہ کیفیت نہیں ہے کہ میں آپ کی ذات کو اپنی جان سے بھی زیادہ پیارا سمجھوں۔ حضور صلعم نے فرمایا کہ ابھی ایمان کی تکمیل نہیں ہوئی ہے۔ حضور صلعم کا فرمانا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ کے دل پر ضرب کاری لگی اور آں حضرتصلعم کی توجہ سے دل کی کیفیت بدل گئی۔ حضرت عمر نے عرض کیا کہ خدا کا شکر ہے اب دل میں کیفیت پیدا ہوئی کہ جناب صلعم کی ذات گرامی مجھے اپنی ذات سے بھی زیادہ محبوب ہے۔ آں حضرت صلعم نے فرمایا کہ اب تمہارا ایمان مکمل ہو گیا۔
اس فرمانِ نبوی صلعم کی رو سے ایک مومن کی تکمیل ایمانی کے لیے اس کے قلب کی یہی کیفیت ضروری ہے کہ اس کے اندر مکمل سپردگی ہو۔
نعت گوئی کا محرک قرآن کریم ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے حبیب لبیب کی شان میں جو الفاظ استعمال کیے اس کا ثانی تو ہو ہی نہیں سکتا۔انسان ضعیف البنیان کی کیا بساط ہے۔ جو لب کشائی کرے۔ ایک سچے عاشق رسول صلعم اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں بریلوی فرماتے ہیں:
قرآں سے میں نے نعت گوئی سیکھی
یعنی رہے احکام شریعت ملحوظ
مولانا رؤف امروہوی کہتے ہیں:
لکھوں کیا وصف شاہ انس و جاں سے
زباں اللہ کی لاؤں کہاں سے
علامہ محسن کاکوروی کہتے ہیں:
ادھر مخلوق میں شامل ادھر اللہ سے واصل
خواص اس برزخِ کبریٰ میں ہے حرف مشدد کا
ایک او رشاعر کا اعتراف ہے:
حدیثوں میں خدا کا ذکر ان کا ذکرقرآں میں
خدا کے مدح خواں وہ ہیں خدا ہے مدح خواں ان کا
جس کا ثنا خواں اللہ تعالیٰ ہے وہاں انسان کیا جسارت کر سکتا ہے؟لیکن اپنے محبوب کی مداحی کرنے سے خود کو روک بھی نہیں سکتا۔ اس لیے نعت کا ورودِ مسعود ہوا اور ہمارے شعرا نے ا س کے لیے آسمان سے زمینیں تراشیں۔
نعت گوئی کا آغاز حضورصلعم کی حیات و طیبہ میں ہو چکا تھا۔ اس ذیل میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ کا نام نامی اسم گرامی خصوصیت سے لیا جاتا ہے۔ جنہوں نے رسول اکرم صلعم کی شان میں بے شمار نعتیہ اشعار کہے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں دعا فرمائی۔ ان کے لیے اپنے سامنے منبر رکھوایا۔ اسی سے نعت گو کے اعلیٰ و ارفع مقام کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
حضورصلعم کی حیات و طیبہ کے دور میں جن صحابہ کرام نے نعتیں کہیں ان میں ابو طالب بن عبد المطلب، حضرت حمزہ بن عبد المطلب بن ہاشم، حضرت عبد الرحمن بن رواحہ، حضرت عباس بن عبد المطلب، حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی، حضرت علی مرتضیٰ، حضرت فاطمہ، حضرت کعب بن زبیر، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ، امام زین العابدین علی سجادالحسین کے نام نامی اسم گرامی آتے ہیں۔ عرب کے شعرا نے فن نعت گوئی کو بام عروج پر پہنچا دیا تھا۔ مگر ہندوستان کے شعرا بھی اس میں پیچھے نہیں رہے اسی لیے شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال نے اس سرزمین کے بارے میں کہا تھا:
میرِ عرب کوآئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
یہ کہنا مشکل ہے کہ ہندوستان میں نعت گوئی کا آغاز کب ہوا۔ کبیر داس نے ایک دوہے میں لکھا ہے:
عدد نکالوں ہر چیز سے چوتن کر لو دائے
دو ملا کہ پچگن کر لو بیس کا بھاگ لگائے
باقی بچے کے نو تن کر لو دو اس میں دو اور ملائے
کہت کبیرسنو بھئی سادھو نام محمد صلعم آئے
اسی طرح گرو گرنتھ میں آتا ہے:
میم محمد من تو ں من کتابہ چار
من خدائے رسول نو ں سچا ای دربار
ان کے علاوہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، خواجہ معین الدین چشتی سنجری اجمیری، حضرت شمس الدین تبریز، شاہ بو علی شاہ قلند ر پانی پتی، خواجہ نظام الدین اولیا، حضرت امیر خسرو نے بھی نعتیں کہی ہیں۔
ہندوستان کے اردو اور فارسی شعرا میں نہ صرف مسلمان بلکہ اہل ہنود نے بھی نعتیں لکھی ہیں۔ ان میں کئی تو ایسے ہیں جن کے نعتیہ کلام کے دواوین بھی موجود ہیں۔ نور میرٹھی نے ہندو نعت گو شعرا پر ایک کتاب مرتب کی ہے۔ جس کا نام ہے ”بہ ہر زماں، بہ ہر زباں“۔ جس میں 326ہندو نعت گو شعرا کا ذکر ہے اور ان کی نعتیں یکجا کر دی گئی ہیں۔
اردو میں شاعری کی ابتدا عرض دکن سے ہوئی۔ اسی لیے سلطان قلی قطب شاہ اور محمد شاہ کو اردو کے پہلے نعت گو شاعر ہونے کا فخر حاصل ہے۔ ان کے کلام کا خاصا حصہ نعت رسول صلعم پر مشتمل ہے۔ اسی لیے ولی دکنی کے دور سے لے کر عہد جدید کے شعراء تک نعت گوئی کا سلسلہ برابر قائم ہے اور اردو کا ہر شاعر نعت کہنا اپنے لیے باعث سعادت تصور کرتا ہے۔
اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں بریلوی اگرچہ عالم دین تھے مگر ان کی شہرت نعت گو کی حیثیت سے بھی ہے۔ انہیں عربی و فارسی اور اردو کے علاوہ ہندی زبان پر بھی قدرت حاصل تھی اور ان کی ایک نعت اس قدر مشہور ہے کہ ان کا ذکر آتے ہی اس کے اشعار زبان پر آجاتے ہیں:
لم یات نظیر ک فی نظر مثل تو نہ شُد پیدا جانا
جگ راج کو تاج تورے سرسوہے تجھ کو شہ دوسرا جانا
یا شمس نظرت الی لیلی چوبہ طیبہ رسی عرضے بکنی
توری جوت کی جھلجھل جگ میں رچی موری شب نے نہ دن کو ہوا جانا
انا فی عطش و سخاک اتم اے گیسوئے پاک اے ابر کرم
برسن ہارے رم جھم رم جھم دو بوند ادھر بھی گرا جانا
علامہ محسن کاکوروی نے بے معنی مبالغہ آرائی اور لفظوں کی صنعت گری سے احتراز کر کے سیدھے سادھے انداز میں نعتیہ قصیدے لکھے۔ اردو نعت گوئی میں کرامت علی خاں شہیدی،مولانا الطاف حسین حالی، علامہ اقبال، منیر شکوہا آبادی، امیر مینائی، سحر لکھنوی، اصغر گونڈوی، بہزاد لکھنوی، حفیظ جالندھری، حمید صدیقی، ماہر القادری جیسے نام ہیں جو متعبر اور معروف ہیں۔ ان کے علاوہ غیر مسلم شعرا میں پنڈت دیاشنکر نسیم، چھنو لال دلگیر، پنڈت ہری چند اختر، گوپی ناتھ امن، نوبت رائے نظر، پنڈت امر ناتھ آشفتہ دہلوی، بھگوت رائے راحت کاکوروی، مہاراجہ کشن پرساد،پنڈت برج موہن دتا تریہ کیفی، رگھوپتی سہائے، فراق گورکھپوری، اوم پرکاش، باقر ہوشیار پوری، تلوک چند محروم، تربھون ناتھ زار زتشی دہلوی، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، بال مکند عرش ملسیانی، پریم لال شفا، کالی داس گپتا رضا، جگن ناتھ آزاد، آنند موہن گلزار دہلوی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
دور حاضر میں بھی نعتیہ شعرا کی بہت بڑی تعداد ہے۔خاص طور سے پاکستان میں نعت گوئی کو کافی عروج حاصل ہوا ہے۔ وہاں نعتوں پر تحقیق کا بھی خاصا کام ہوا ہے۔ پاکستان کے نعتیہ شعرا میں حفیظ تائب، عبد العزیز خالد، مظفر وارثی، مشکور حسین یاد اور ریاض مجید نے نعت کو نیا رنگ و آہنگ دیا ہے اور نئی لفظیات سے آراستہ کیاہے۔
اگرچہ بظاہر نعت گوئی آسان لگتی ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ اگر اللہ اگر توفیق نہ دے تو نعت گوئی انسان کے بس کا کام نہیں ہے۔حضرت شیخ سعدی کا مشہور واقعہ ہے کہ انہوں نے مدح رسول میں تین مصرعے کہے۔ کوشش کے باوجود چوتھا مصرعہ نہ ہو تا تھا اور سخت پریشان تھے۔ ایک شب انہیں خواب میں بشارت ہوئی۔ حضور سرور کائناتصلعم بنفس نفیس موجود ہیں اور شیخ سعدی سے فرماتے ہیں سعدی تم نے تین مصرعے کہے ہیں ذرا سناؤ۔ شیخ سعدی نے تینوں مصرعے سنائے اور خاموش ہو گئے۔ آ پ صلعم نے فرمایا یہ مصرعہ بڑھا لو۔ صلو علیہ و آلہ۔اور یوں حضرت شیخ سعدی کی نعتیہ رباعی مکمل ہوئی۔اللہ تعالیٰ نے اس رباعی کو شرف قبولیت بخشا اور اس طرح شیخ سعدی نعت گو شعرا میں ممتاز ہو گئے۔ اس رباعی کے چار مصرعے ہمیشہ توصیف مدح رسول صلعم کرتے ہیں۔
بلغ العلےٰ بکمالہ
کشف الدجیٰ بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ
صلوا علیہ و آلہ
لیکن جب نعت محمدصلعم کی بات آتی ہے تو پھر اس قطعے پر آکر ختم ہو جاتی ہے:
یا صاحب الجمال و یا سید البشر
من وجہک المنیر لقد نور القمر
لا یمکن الثنا کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
(وایس آف امریکہ کی سایٹ سے)