29 January, 2011

اتباع سنت راہ سلوک کی شرط اولین



راہ سلوک میں نااہل کا گزر نہیں اس میں صادق ہی کامیاب ہوسکتے ہیں چنانچہ حضرت مخدوم نے فرمایا کہ اگرکوئی نااہل اس راہ سلوک میں قدم رکھ دیتا ہے تو اسے بڑی فضیحت ہوتی ہے اور وہ اس میں کامیاب نہیں ہوتا ،کیونکہ اس راہ میں صادق ہی کامیاب ہوسکتا ہے ، صوفیہ کے یہاں کچھ علامتیں مقرر ہیں جن سے وہ اہل اور نااہل کی تمییزکرلیتے ہیں-
ابویزید رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں ایک آدمی کو زہدوتقوی اور باطنی صفائی میں بہت شہر ت حاصل تھی ابو یزید رحمۃ اللہ علیہ اس کو دیکھنے کے لئے گئے اتفاق سے وہ آدمی اپنے گھر سے مسجد جارہا تھا چلتے چلتے قبلہ کی طرف منہ کرکے اس نے تھوک دیا ، ابویزید رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: جس کے اعضاء و جوارح رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے طریقوں اور آداب کے ساتھ خوگر اور عادی نہیں ہوئے ہیں وہ اپنے دعویٰ بزرگی میں کیسے صادق ہوسکتا ہے ؟اور اسی جگہ سے وہ بلا ملاقات کئے واپس چلے گئے۔(جوامع الکلم:89/90)
حضرت بندگی مخدوم کا مسلک حق اہل سنت وجماعت :


بعض لوگ قطب الاقطاب حضرت بندگی مخدوم رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک حق اور مشرب صدق سے متعلق غلط باتیں منسوب کر کے گمراہ فرقوں سے جوڑنے کی ناپاک جسارت کرتے ہیں معاذاللہ یہ سب باتیں ہفوات وہرزہ سرائی کے سواکچھ نہیں،حقیقت سے اس کا دور کا بھی کوئی تعلق ورشتہ نہیں، اہل حق نے ہر دور میں بندگی مخدوم کے مسلک ومشرب سے متعلق حقائق کو واشگاف کیا اور روز روشن کی طرح نفس الامرکی معرفت دلائی کہ حضرت بندگی مخدوم علیہ الرحمہ نے مسلک اہل سنت وجماعت کی نشرواشاعت ،مذہب حنفی کی تشریح وتوضیح طریقہ صوفیہ کی ترویج و تبلیغ، سالکین کے تزکیہ وتصفیہ اور بندگان خدا کی تعلیم وتربیت میں اپنی حیات مقدسہ کے ایک ایک لمحہ کو اوراپنے انفاس قدسیہ سے ہر ہرنَفَس کو وقف فرمادیا تھا جس پر آپ کی گراں قدر تصنیفات و تالیفات، تحقیقات وتعلیقات،مواعظ وارشادات ،مکتوبات وملفوظات شاہدعدل ہیں ،چنانچہ آپ کے شہزادۂ اکبر جوامع الکلم میں صفحہ67/68 پر حضرت بندگی مخدوم کے حوالہ سے رقمطرازہیں:
’’ بہت سے لوگ حضرت امیرالمؤمنین علی کرم اللہ وجھہ کی فضیلت کے بارے میں مبالغہ سے کام لیتے ہیں ،کوئی انہیں نبی اور خدا تک کہہ دیتا ہے اوراس طرح غرابیہ ، صحابیہ ، نصیریہ صابیہ بہت سے گروہ پیدا ہوگئے ہیں۔
ہر ایک کے بارے میں تفصیل بیان کرنا تو بہت طویل بات ہے لیکن حق مذہب یہ ہے کہ امیرالمؤمنین ابو بکر رضی اللہ عنہ صحابہ کرام میں افضل ہیں ان کے بعد عمر رضی اللہ عنہ ان کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ ان کے بعد علی رضی اللہ عنہ ہیں اور انکے بعد تمام صحابہ اور اولیاء کرام اور اس کے علاوہ جو کچھ توہمات اور پراگندہ خیالی ہے وہ گمراہی ہے ‘‘۔(جوامع الکلم ص:67/68)
نور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نہیں: 

حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مکشوفات والہامات کو ایک رسالہ میں نقل فرمایا ، حضرت بندہ نواز رحمۃاللہ علیہ نے جواہر العشاق کے نام سے اس رسالہ کی شرح فرمائی چنانچہ حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے ایک الہام کی شرح میں فرماتے ہیں :
اللہ تعالی نے فرشتوں کو حضرت محمد(مصطفی) صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے پیدا کیا اور حضرت محمد (مصطفی) صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے نور سے ، اللہ تعالی فرماتا ہے ۔۔۔۔ بموجب حدیث قدسی ۔
کنت کنزامخفیا فاحببت ان اعرف
’’میں پوشیدہ خزانہ تھا پس چاہا کہ پہچانا جاؤں‘‘
میں نے چاہا کہ جومیری شان ہے ،اور جو کچھ میرے جمال وکمال اور قدرت میں ہے اس کو ظاہر کروں ۔(تو میں نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا فرمایا )مزید آگے تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
کافروں نے یہ بات نادانی سے کہی کہ:
’’ ابشر یہد وننا‘‘کیا بشر ہم کو راستہ بتاتے ہیں؟
پس حکم ہوا کہ
کفروا
وہ لوگ کافر ہوگئے اتنا نہ سمجھ سکے کہ
کان یمشی ولاظل لہ(آپ چلتے تھے اورآپ کا سایہ نہ تھا)
محمد(مصطفی) صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کے نور سے ہیں نور خدا کا سایہ کیسے ہوسکتا ہے؟۔انتہی
ملخصا(جواہر العشاق ص:59)
مدینہ منورہ میں روضہ مقدسہ ہونے کی حکمت: 

حضرت مخدوم علیہ الرحمہ نے فرمایا :یہ مشیت الہی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روضہ اطہر مکہ معظمہ میں نہ ہو، تاکہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی زیارت ،حج کعبہ کی طفیلی نہ ہوجائے ، حج کعبہ کے بعد علیحدہ سے خاص کرقصد،مدینہ منورہ کاکیا جائے ،امام شافعی کے قول کے مطابق تو مکہ معظمہ کی طرح مدینہ منورہ بھی حرم ہے لیکن تعظیم وتکریم کے واجب ہونے کے بارے میں تو سب ہی متفق ہیں ۔انتہی ملخصا(جوامع الکلم ص:361)
خوف الہی ،عبادت وطاعت امتیاز اہل بیت : 

حضرت بندگی مخدوم علیہ الرحمہ نے ارشاد فرمایا کہ اہل بیت میں دو چیزیں عام طور پر پائی جاتی ہیں اوران سے کسی کو بھی خالی نہ دیکھو گے –
ایک تو خوف خدا ،دوسرے عبادت وطاعت الہی –
اس میں کوتاہی ان میں سے کسی میں نہیں دیکھی جاتی (جوامع الکلم ص:87)
سلوک کی بنیاد کیا ہے اور ضرورت شیخ کیوں؟

قلب کی پاکیزگی اور باطن کا تزکیہ ہی دارین کی صلاح وفلاح اور کامیابی وکامرانی ہے اور سلوک کی بنیاد تخلیہ وتجلیہ پرہے، حضرت بندگی مخدوم رحمۃ اللہ علیہ اپنے مکتوبات میں تحریرفرماتے ہیں:
تخلیہ سے مراد ہے ، اللہ جل شانہ کے سوا اور سب طرف سے دل کو ہٹالینا اورتجلیہ سے مراد ہے نفس کا تزکیہ اور جلا،توجہ تام کے ساتھ اللہ جل شانہ کی طرف متوجہ ہونے اور نفس کو طرح طرح کی عبادتوں میں مشغول رکھنے سے جلائے باطن حاصل ہوتی ہے، جس نے یہ دونعمتیں پالیں اسے دونوں جہاں کی نعمتیں مل گئیں ۔
خدائے عزوجل تک جو لوگ پہنچے ہیں وہ ہوائے نفس کے خلاف عمل کرنے ،اللہ کی یاد میں راتوں کو جاگنے ، دن میں روزے رکھنے اور کھانے پینے میں کمی کرنے اور دائمی طور پر متوجہ رہنے سے اس مرتبہ پر پہنچے ہیں –
اس نعمت کے حصول کے لئے پیر کی توجہ کی ضرورت ہے ،ہم سے جو پیر نے فرمایا ہم اس پر چلیں اوران کی اقتداء کی برکت سے فضل الہی ہمارے شامل حال ہوا اور تمام مرادیں مل گئیں ایک کلیہ ہے جو میں کہہ رہاہوں جزئیات کو اسی پر تطبیق دے لو ،جہاں ہوائے نفس ہو اسے ترک کردو جہاں کوئی آرزو ہو اسے نظر سے دور کردو، دیکھو تو پھر کیا کیا نعمتیں نصیب ہوتی ہیں ۔(مکتوبات بندہ نوازص:48/49)
سونے سے پہلے دن بھر کے عمل کا جائزہ لینا چاہئیے: 

سنن ابن ماجہ شریف ص 314، میں حدیث مبارک ہے :
عن ابی یعلی شداد بن اوس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الکیس من دان نفسہ وعمل لما بعد الموت العاجز من اتبع نفسہ ہواہا ثم تمنی علی اللہ۔
ترجمہ:حضرت ابو یعلی شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کو اللہ کی رضا کا تابع وفرمانبردار بنادے اور موت کے بعد والی زندگی کے لئے عمل کرے اور نادان وہ ہے جو نفس کو اس کی خواہش کا تابع بنا دے پھر اللہ کے بھروسہ پرآرزوئیں اور امیدیں باندھے رکھے ۔
اس سلسلہ میں حضرت بندگی مخدوم علیہ الرحمہ کا ارشاد ملاحظہ ہو :
روزانہ سونے کے وقت آدمی کو اپنے دن بھر کے عمل اور قول کا جائزہ لے کر سونا چاہئیے، العیاذباللہ اگر اس سے دن میں کوئی غلط اور بے ہودہ حرکت ہوگئی ہے تو اس سے اس کو توبہ استغفار کرنا چاہیے اورکوشش کرنا چاہیے کہ آئندہ اس طرح کی حرکت اس سے نہ ہواور اگر اس سے اچھا اور مستحسن کام ہوگیا ہوتو برابر اس پر ثابت قدم رہنے کی کوشش کرے اور اللہ سے اس پر استقامت کی دعا مانگے اور اللہ کا شکر ادا کرے جو آدمی اس پر عمل پیرارہے گا وہ قیامت کے دن حساب کتاب سے بے خوف رہے گا ،
فسوف یحاسب حساباً یسیرا ۔(جوامع الکلم:287/288)

No comments:

Post a Comment

Followers