04 December, 2011

صلۂ رحمی/حضرت خدیجہ بنت خویلد کا مقام

 

صلۂ رحمی

ریحان اختر

موجودہ دور میں نفسا نفسی اور مادیت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ رشتہ داروں کی خبرگیری کرنا، ضرورت کے وقت کام آنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خاندان کا شیرازہ بکھر رہا ہے اور معاشرہ انتشار و افتراق کا شکار ہو رہا ہے۔ ایسے میں صلۂ رحمی کی ضرورت و اہمیت پہلے سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ خاند ان کی شیرازہ بندی ونگہداشت اوراس کے قیام وبقاکے لیے قرآن وسنت میں بہت سی تعلیمات وہدایات دی گئی ہیں۔ ان میں صلۂ رحمی کواساسی حیثیت حاصل ہے۔سطور ذیل میں قرآن مجیداوراحادیث نبوی سے صلۂ رحمی کی اہمیت، اس کے دینی و دنیوی فوائداورقطع رحمی کے دینی و دینوی نقصانات پرروشنی ڈالی جائے گی۔
لغوی تحقیق
صلۂ رحمی دولفظوں سے مرکب ہے :صلہ اوررحم۔ ’صلہ‘ کے معنی ہیں جوڑنالیکن جب اس کے ساتھ ’رحم‘ کا استعمال ہوتواس کے معنی بدل جاتے ہیں۔
وصل رحمہٗ کے معنی ہیں: نسب کے اعتبار سے جورشتے دارقریب ہوں ان کے ساتھ مہربانی کرنااورنرمی کابرتاؤکرنا۔(المنجد،ص ۲۵۲)
رحم، بطنِ مادر کے اس مقام کوکہتے ہیں جہاں جنین استقرار پاتا ہے اور اس کی نشوونماہوتی ہے۔ مجازاً اسے رشتہ داری کے معنی میں استعمال کیاجاتاہے، اوریہ اللہ تعالیٰ کے نام رحمن سے ’مشتق‘ ہے (الراغب الاصفھانی: المفردات فی غریب القرآن، ص ۱۴۷)۔امام اصفہانی نے تائید میں ایک حدیث پیش کی ہے جس کامضمون یہ ہے: حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواشارد فرماتے ہوئے سناہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:میں ہی اللہ ہوں اورمیں ہی رحمن ہوں۔ میں نے رحم (رشتہ داری) کوپیداکیا۔ میں نے اس کانام اپنے نام سے نکالاہے۔ جواس کوجوڑ ے گامیں اس کوجوڑ وں گا،اورجواس سے قطع تعلق کرے گا میں بھی اسے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا۔(ترمذی، باب ماجاء فی قطعیہ الرحم،۹۰۷)
لغوی اعتبار سے ’رحم‘ کے معنی شفقت ،رافت اوررحمت کے ہیں۔ جب یہ بندوں کے لیے استعمال ہوتاہے تواس کے معنی شفقت ورافت کے ہوتے ہیں، اورجب اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوتاہے تواس کے معنی رحمت کے ہوتے ہیں۔ (لسان العرب، ابن منظور، ،ج۱۷،ص۲۳۰)
قرآن میں رشتہ داری کامقام
اسلام نے رشتہ داری کووہ بلندمقام دیاہے جوپوری انسانی تاریخ میں کسی مذہب ،کسی نظریے اورکسی تہذیب نے نہیں دیا۔ اس نے رشتوں کاپاس ولحاظ رکھنے کی وصیت کی ہے ۔قرآن کریم میں بہت سی آیات ہیں جواسلام میں رشتہ داری کی اہمیت کوواضح کرتی ہیں۔ رشتہ داری کا احترام کرنے اوران کے حقوق کی ادایگی پر ابھار تی ہیں، اورانھیں پامال کرنے اوران پر ظلم و زیادتی کرنے سے روکتی ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآءَ لُوْنَ بِہٖوَ الْاَرْحَامَ ط(النساء ۴:۱) اس اللہ سے ڈرو جس کاواسطہ دے کرتم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتہ داری اورقرابت کے تعلقات کوبگاڑ نے سے پرہیز کرو۔
قرآن کریم میں قطع رحمی کاتذکر ہ فساد فی الارض کے ساتھ کیاگیاہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ دونوں کاباہم گہراتعلق ہے۔چندآیات ملاحظہ ہوں:
فَاِِذَا عَزَمَ الْاَمْرُ فَلَوْ صَدَقُوا اللّٰہَ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ oفَہَلْ عَسَیْتُمْ اِِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ ط (محمد ۴۷:۲۱۔۲۲)مگر جب قطعی حکم دے دیا گیا اُس وقت وہ اللہ سے اپنے عہد میں سچے نکلتے تو انھی کے لیے اچھا تھا۔ اب کیا تم لوگوں سے اِس کے سوا کچھ اور توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر تم اُلٹے منہ پِھر گئے تو زمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹو گے؟
سورۂ رعد میں ارشاد باری ہے :
وَ الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْ م بَعْدِ مِیْثَاقِہٖوَ یَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ اُولٰٓءِکَ لَھُمُ اللَّعْنَۃُ وَ لَھُمْ سُوْٓءُ الدَّارِo(الرعد ۱۳:۲۵) اورجولوگ اللہ کے عہد کوباندھنے کے بعد توڑتے ہیں اوراس چیز کوکاٹتے ہیں جسے اللہ نے جوڑنے کاحکم دیااورزمین میں فساد برپاکرتے ہیں،وہی لوگ ہیں جن پر لعنت ہے، اوران کے لیے براانجام ہے۔
قرآن میں کفارکی فساد انگیزیوں کومختلف پہلوؤں سے اجاگر کیاگیاہے۔ ان میں سے ایک پہلوقطع رحمی بھی ہے۔ارشاد ہے:
الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْ م بَعْدِ مِیْثَاقِہٖوَ یَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ ط اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ o(البقرہ ۲:۲۷) جواللہ تعالیٰ کے عہد کواس کے باندھنے کے بعد توڑتے ہیں اورجس چیز کواللہ تعالیٰ نے جوڑ نے کاحکم دیاہے اس کوکاٹتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں یہی لوگ نقصان اُٹھانے والے ہیں۔
اس آیت کی تفسیر میں شیخ محمدعلی الصابونی نے لکھاہے: ’’جس چیز کے جوڑنے کاحکم دیا گیاہے اس سے مراد رشتہ اورقرابت ہے، اورجس چیز کواہل کفر وفساد کے اوصاف میں توڑنے کاذکر کیا گیاہے اس سے مراد رشتہ داری کے تعلقات ختم کرنااورنبی اورمومنین سے الفت ومحبت کوختم کرنااوران سے تعلق توڑنا ہے‘‘(صفوۃ التفاسیر، ج ۱، ص ۳۱)
اللہ تعالیٰ نے سورۂ نحل میں جن چیزوں کاحکم دیاہے ان میں عدل اوراحسان کے بعد تیسری چیزاہل قرابت کے حقوق کی ادایگی ہے۔
اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰی (النحل ۱۶:۹۰) اللہ تعالیٰ عدل اور احسان اور صلۂ رحمی کاحکم دیتاہے۔
صلۂ رحمی کاحکم احادیث میں
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم منصب نبوت سے سرفراز ہونے سے قبل ہی سے صلۂ رحمی پر عمل پیراتھے۔ اس کاثبوت ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکی گواہی ہے کہ غار حرا میں جبرائیل ؑ نے آکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوپہلی وحی سنائی اورنبوت کابار آپؐ پر ڈالاگیا۔ اس کی وجہ سے آپؐ پر ایک اضطراری کیفیت طاری تھی۔ آپؐ گھر تشریف لائے، اور جوواقعہ پیش آیاتھااس سے ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکوآگاہ کیا اور کہاکہ مجھ کواپنی جان کاخوف ہے۔اس وقت آپؐ کوتسلی دیتے ہوئے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جوباتیں کہیں وہ یہ تھیں : ’’ہرگز نہیں ہوسکتا، اللہ تعالیٰ آپ کوکبھی رنجیدہ نہیں کرے گا ، کیوں کہ آپ رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہیں، بے سہاروں کاسہارا بنتے ہیں، محتاجوں کے لیے کماتے ہیں، مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں۔ ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں‘‘۔(بخاری، باب بداء الوحی:۳)
صلۂ رحمی ،شریعت اسلامی کے بنیادی اصولوں میں سے ہے جس کے ساتھ یہ دین روزِاوّل ہی سے دنیا والوں کے سامنے ظاہر ہوا۔ اس کی تائید ہر قل کے ساتھ ابو سفیان کی گفتگو سے بھی ہوتی ہے۔صلح حدیبیہ(۶ہجری)کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف سلاطین کے پاس خطوط ارسال کیے جن میں انھیں اسلام کی دعوت دی۔ جب آپؐ کانامہ مبارک ہرقل کے پاس پہنچا تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جاننے کی غرض سے اپنے درباریوں سے کہاکہ مکہ کے کسی آدمی کو دربار میں پیش کرو۔ انھوں نے ابوسفیانؓ کو(جن کواس وقت تک قبول اسلام کی سعادت نہیں ملی تھی)، دربار میں پیش کیا۔ ہرقل نے ان سے بہت سے سوالات کیے اور ایک سوال یہ بھی کیاکہ تمھارے نبی تمھیں کس چیز کاحکم دیتے ہیں؟ ابو سفیانؓ نے جواب دیا: وہ ہمیں نماز، زکوٰۃ، صلۂ رحمی ، پاک دامنی کاحکم دیتے ہیں۔(مسلم)
اس حدیث سے بھی بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ صلۂ رحمی اس دین کی ممتاز خصوصیات میں سے ہے جن کے بارے میں دین کے متعلق پہلی مرتبہ پوچھنے والے کوآگاہ کیاجاتاہے۔
سیدنا عمروبن عنبسہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے، اس میں اسلام کے جملہ اصول وآداب بیان کیے گئے ہیں، وہ فرماتے ہیں:’’میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یہ آغازِ نبوت کازمانہ تھا۔ میں نے عرض کیا:آپ کیاہیں؟ فرمایا: نبی ہوں۔ میں نے عرض کیا: نبی کسے کہتے ہیں؟ فرمایا: مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ میں نے کہا:اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو کیا چیز دے کربھیجا ہے؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے رشتوں کوجوڑ نے اور بتوں کوتوڑنے کے لیے بھیجا ہے اور اس بات کے لیے بھیجا ہے کہ اللہ تعالیٰ کوایک سمجھا جائے اور اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ کیاجائے ۔(مسلم،باب اسلام، عمروبن عنبسہ۱۹۳۰)
یہ بات بالکل عیاں ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اسلام کے اہم اصول ومبادی کی تشریح کرتے ہوئے صلہ رحمی کومقدم رکھاہے۔ اس سے دین میں صلۂ رحمی کے مقام ومرتبہ کابخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔
سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول مجھے ایسا عمل بتائیے جس سے میں جنت میں داخل ہوجاؤں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ بناؤ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرو‘‘(بخاری، باب فصل صلۃ الرحم، ۵۹۸۳)۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی عبادت ، توحید ، نماز اور زکوٰۃ کے ساتھ ہی صلۂ رحمی کاتذکرہ ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ صلۂ رحمی کاشمار بھی ان اعمال میں ہوتاہے جوانسان کوجنت کامستحق بناتے ہیں۔
قطع رحمی کی مذمت
حضرت جبیر بن مطعمؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا: ’’جنت میں قطع رحمی کرنے والا نہیں جائے گا‘‘(بخاری، باب اثم القاطع، ۵۹۸۳)۔ قطع رحمی کرنے والے کی محرومی اور بدبختی کے لیے اللہ کے رسولؐ کی یہی وعید کافی ہے۔
صلۂ رحمی کرنے والے سے اللہ تعالیٰ کاتعلق مضبوط ہوتاہے اور قطع رحمی کرنے والے سے اللہ کاتعلق ٹوٹ جاتاہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رحم (رشتہ داری) رحمن سے بندھی ہوئی ہے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو تجھے جوڑے گا میں اسے جوڑوں گا، اور جوتجھے کاٹے گا میں اسے کاٹوں گا‘‘۔(بخاری، ۵۹۸۴)
قطع رحمی کرنے والے پر آخرت سے قبل دنیا ہی میں گرفت ہوتی ہے۔ ایک حدیث کے مطابق: ’’دوسرے گناہوں کے مقابلے میں بغاوت اور قطع رحمی ایسے گناہ ہیں کہ ان کے ارتکاب کرنے والے کواللہ تعالیٰ دنیا ہی میں عذاب دیتاہے آخرت میں ان پر جوسزا ہوگی وہ تو ہوگی ہی‘‘۔(ترمذی،باب فی عظم الوعید علی البغی وقطیعۃ الرحم، ۲۵۱۱)
صلۂ رحمی کے درجات
ایک متقی اور باشعور مسلم اسلامی تعلیمات کے مطابق صلۂ رحمی کرتا ہے۔ جس ذات باری نے اس تعلق کو قائم کیا ہے اسی نے اہمیت اور قرابت کے مطابق اس کی درجہ بندی بھی کی ہے۔چنانچہ پہلا درجہ والدین کاقرار دیا۔قرآن کریم کی متعدد آیات میں والدین کے ساتھ سلوک کرنے کومستقل طورپر بیان کیا گیا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد باری ہے:
وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاط(بنی اسرائیل ۱۷:۲۳) اور تیرے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اس کی اور ماں باپ کے ساتھ حُسنِ سلوک کرو۔
وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًاط(العنکبوت ۲۹:۸) اور ہم نے انسان کواپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کاحکم کیا ہے۔
سورۂ لقمان میں ارشاد باری ہے:
وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ اُمُّہٗوَھْنًا عَلٰی وَھْنٍ وَّ فِصٰلُہٗفِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْلِیْ وَ لِوَالِدَیْکَط اِلَیَّ الْمَصِیْرُo(لقمان ۳۱:۱۴) اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہنچانے کی خود تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اُٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔ (اسی لیے ہم نے اس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔
اس آیت میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ جہاں تک شکر گزاری اور خدمت کاتعلق ہے تو اس کی ہدایت ماں باپ دونوں کے لیے فرمائی گئی ہے لیکن قربانیاں اور جاں فشانیاں،حمل، ولادت اور رضاعت صرف ماں کی گنوائی گئی ہیں، باپ کی کسی قربانی کاحوالہ نہیں دیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ماں کاحق باپ کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن،ابوعبداللہ محمدبن احمد الانصاری القرطبی، ج ۱۴،ص،۶۴)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا:اے اللہ کے رسولؐ! میرے حسن سلوک کاسب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تمھاری ماں۔ اس نے پھر پوچھا: اس کے بعد کون ہے؟ آپؐ نے جواب دیا: تمھاری ماں۔ اس نے دریافت کیا: پھر کون؟ آپؐ نے فرمایا: تمھارا باپ۔ ایک دوسری روایات میں باپ کے بعد قریبی رشتہ دار کابھی تذکرہ ہے‘‘۔ (مسلم، باببر الوالدین وایھما احق بہ (۲۵۴۸)
صلۂ رحمی میں کوئی تفریق نہیں
دین اسلام کی یہ تعلیم نہیں کہ مسلمان صرف ان رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کریں جوان کے ساتھ بھی صلۂ رحمی کریں، بلکہ اس سے آگے بڑھ کران رشتہ داروں کے ساتھ بھی اچھا برتاؤ اور صلۂ رحمی کرنے کاحکم دیتا ہے جوان کے ساتھ کسی قسم کاتعلق نہیں رکھتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’صلۂ رحمی کرنے والا وہ نہیں ہے جواحسان کابدلہ احسان سے ادا کرے ،بلکہ صلۂ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس سے قطع رحمی کی جائے تو وہ صلۂ رحمی کرے‘‘۔(بخاری، کتاب الادب، باب لیس الواصل بالمکافی، ۵۹۹۱)
اسلام نے غیر مسلم رشتہ داروں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنے پر زور دیاہے ، ارشاد باری ہے:
وَ اِنْ جَاھَدٰکَ عَلآی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖعِلْمٌ فَلَا تُطِعْھُمَا وَ صَاحِبْھُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا(لقمان ۳۱:۱۵) اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ میرے ساتھ ایسی چیز کوشریک ٹھیرائے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ ماننا اور دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرنا۔
اس آیت کی تفسیر میں امام قرطبی نے لکھا ہے کہ یہ آیت اس بات پردلالت کرتی ہے کہ کافر والدین کے ساتھ صلۂ رحمی کی جائے۔ اگروہ غریب ہوں توانھیں مال دیاجائے، ان کے ساتھ ملائمت کی بات کی جائے، انھیں حکمت کے ساتھ اسلام کی دعوت دی جائے(الجامع لاحکام القرآن، ج۱۴، ص۶۵)
حدیث میں بھی غیر مسلموں سے صلۂ رحمی کی تلقین ملتی ہے: حضرت اسما بنت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میری ماں عہد نبویؐ میں میرے پاس آئیں، جب کہ وہ مشرک تھیں۔ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری ماں میرے پاس آئی ہیں، اور وہ مجھ سے کچھ امید رکھتی ہیں، توکیا میں ان کے ساتھ صلۂ رحمی کروں؟ آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں، تم اپنی ماں کے ساتھ صلۂ رحمی کرو‘‘۔(مسلم، کتاب الزکاۃ ، باب فصل النفقۃ والصدقۃ علی الاقربین،۲۳۲۵)
صلۂ رحمی کا مطلب بے جا طرف داری نہیں
شریعت میں صلۂ رحمی پربہت زور دیاگیا ہے لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ کسی کی بے جا طرف داری کی جائے، رشتہ داروں کو ہر صورت میں فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جائے،اگرچہ وہ حق پرنہ ہوں، اور ان کے ساتھ ہمدردی کی جائے اگرچہ وہ ظالم کیوں نہ ہوں۔ دین اسلام اس کی تعلیم نہیں دیتاہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں خاص طور پر اس پر تنبیہ کی گئی ہے ، اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ(المائدہ ۵:۲) ایک دوسرے کی نیکی اور تقویٰ میں مدد کرتے رہو اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی مددنہ کرو۔
دوسری جگہ ارشاد باری ہے:
یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآءَ لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ ج اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِھِمَاقف فَلَا تَتَّبِعُوا الْھَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا ج وَ اِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا o(النساء۴: ۱۳۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیرخواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔
سورۂ انعام کی آیت ملاحظہ ہو:
وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَ لَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی وَ بِعَھْدِ اللّٰہِ اَوْفُوْاط ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖلَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ o(الانعام ۶:۱۵۲) جب بات کہو تو انصاف کی کہو، اگرچہ معاملہ اپنے رشتہ دار کا کیوں نہ ہو، اوراللہ سے جوعہد کیا ہے اسے پورا کرو، اس کا اللہ تعالیٰ نے تمھیں حکم دیا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔
اس طرح اسلام نے صلۂ رحمی کے نام پر ناانصافی و اقربا پروری پر روک لگادی ہے۔ صلۂ رحمی کامطلب یہ ہے کہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ بغیر کسی کاحق تلف کیے ہوئے ان کے دُکھ درد میں شریک رہاجائے، اور اپنی طرف سے ہو سکے تو ان کی مدد کی جائے۔
صلۂ رحمی کی صورتیں
صلۂ رحمی کامفہوم بہت زیادہ وسیع ہے۔ اس کاایک طریقہ یہ ہے کہ رشتہ داری پر مال خرچ کیاجائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ (البقرہ ۲:۲۱۵) ’’آپ کہیے فائدہ کی جوچیز تم خرچ کروتوو ہ ماں باپ رشتہ دار وں کے لیے ‘‘۔ دوسری جگہ یہ تصریح فرمائی گئی کہ مال و دولت کی محبت اورذاتی ضرورت اورخواہش کے باوجود صرف خداکی مرضی کے لیے خود تکلیف اٹھاکر اپنے قرابت مندوں کی امداد اورحاجت روائی اصل نیکی ہے۔ وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖذَوِی الْقُرْبٰی(البقرہ ۲:۱۷۷)’’جس نے اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتہ داروں کودیا‘‘۔
صلۂ رحمی رشتہ دار وں کے ساتھ ملاقاتوں سے بھی ہوتی ہے جس سے قرابت کے رشتے مضبوط ہوتے ہیں، محبت کے تعلقات پایدار ہوتے ہیں، اورباہم رحم وہمدردی اورمودت میں اضافہ ہوتاہے۔ صلۂ رحمی رشتہ داروں کے ساتھ ہمدردی، خیرخواہی، تعاون کے ذریعے ہوتی ہے۔ گاہے بگاہے تحائف سے نوازنے ،دعوت مدارت کرنے اور ان کی خدمت اورمزاج پرسی کرنے اور خندہ پیشانی سے ملاقات کرنے سے۔ اس کے علاوہ ان تمام اعمال سے ہوتی ہے جن سے محبت کے سوتے پھوٹتے ہیں اوررشتہ داروں کے درمیان الفت ومحبت کے جذبات موجزن ہوتے ہیں۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میں صلۂ رحمی پر زور دیاہے اوراس کے لیے ایسی شکلیں بتائی ہیں جن میں کوئی زحمت، پریشانی ،اورتکلیف نہیں۔ فرمایا: ’’اپنے رشتوں کوتازہ رکھوخواہ سلام ہی کے ذریعے سے ‘‘۔(الموسوعۃ الفقہہ،بحوالہ مجمع الزوائد:۸/۱۵۲)
صلۂ رحمی کے دینی ودنیوی فوائد
رشتہ داری کاپاس ولحاظ رکھنے سے رب العالمین کے احکام کی بجاآوری کے علاوہ بہت سے روحانی ومادی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ اس کاایک فائدہ یہ ہے کہ رشتہ داروں پرخرچ کرنے میں زیادہ اجروثواب ملتاہے:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’صدقہ مسکین پر صرف صدقہ ہے، اور رشتہ دار پرکرنے کی وجہ سے دہرا اجرملتاہے، ایک صدقہ کرنے کا،دوسرے صلۂ رحمی کا‘‘۔ (ترمذی، باب ماجا فی الصدقۃ علی ذالقربۃ ۶۵۸)
اس کاایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے عمر میں درازی اوررزق میں وسعت ہوتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جس شخص کویہ پسند ہوکہ اس کے رزق میں کشادگی ہو اوراس کی موت میں تاخیر اورعمر میں اضافہ ہوتواسے چاہیے کہ صلۂ رحمی کرے ‘‘(مسلم، باب صلۃ الرحم وتحریم قطعیتھا ۶۵۲۳)
اس حدیث کامطلب یہ بھی ہوسکتاہے کہ ان نیک اعمال سے مال ودولت میں فراخی اورعمر میں زیادتی ہوتی ہے۔ لیکن اس کی توجیہہ یہ بھی کی جاسکتی ہے کہ انسان کے خانگی مسائل اور تنازعات اس کے لیے تکدر اور پریشانی کا سبب ہوتے ہیں لیکن جولوگ اپنے رشتہ دار وں کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آتے ہیں، ان کے ساتھ نیک برتاؤکرتے ہیں، اس کی وجہ سے ان لوگوں کے لیے اعصابی تناؤ سے آزاد ایک ایساماحول پیداہوجاتاہے جو پُرسکون زندگی گزارنے کے لیے بڑاسازگار ہوتاہے ۔ اس کے برخلاف اعصابی تناؤ جو زندگی کی مدت کم کردیتاہے قطع رحمی کے نتیجے میں پیداہوتاہے۔
اس کے علاوہ صلۂ رحمی سے انسان بہت سے ان اجتماعی مسائل سے جوآج کے مغربی معاشرے کی پہچان بن گئے ہیں چھٹکاراپایاجا سکتاہے۔
مغربی معاشروں میں خاندان کے بوڑھے افراد ایک بوجھ ہوتے ہیں چنانچہ انھیں ’بوڑھوں کے گھر‘ (old age homes)کے حوالے کردیاجاتاہے جہاں وہ خوشیوں بھری زندگی سے محروم کسمپرسی کی حالت زار میں زندگی گزارتے ہیں۔ صلۂ رحمی سے محروم ان افراد کے بیٹے سال میں ایک بار ’یومِ مادر‘(Mother day) ’یوم والدین‘ (Parents day) مناکر اورچند رسمی تحائف دے کر اُن بے پایاں احسانات سے سبکدوش ہوجاتے ہیں جوان والدین نے ان کے ساتھ کیے تھے ۔صلۂ رحمی سے آشنااسلامی معاشرہ ان کوبوجھ سمجھنے کے بجاے ان کی خدمت کوجنت کے حصول اوران کی رضاکوخداکی رضاکے حصول کاسبب سمجھتاہے۔
اسی طرح مغربی معاشروں میں یتیم بچوں کی پرورش اورتعلیم وتربیت کے لیے ’یتیم خانے‘ قائم کیے جاتے ہیں۔ لیکن اسلام میں یتیموں کی دیکھ بھال اورکفالت پربڑازور دیاگیاہے، اوریہ حکم دیاگیاکہ ایسے بچوں کو ان کے قریبی رشتہ دار اپنے خاند ان کے افراد میں شامل کرلیں اوران کے ساتھ اپنے بچوں جیسامعاملہ کریں ۔
بیواؤں کے لیے مغربی معاشرے میں بیواؤں کے گھر بنائے گئے ہیں۔ اس کے برخلاف اسلام میں بیواؤں کے نکاح ثانی اوران کے اخراجات کی ذمہ داری ان کے عزیز وقریب رشتہ داروں پر عائدکی ہے۔ان کواس قسم کے خیراتی ادارے کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑاجاتاہے۔
اسلام جس نے صلۂ رحمی پر اس قدر زور دیا ہے، مقامِ افسوس ہے کہ آج مسلمان اور مسلم معاشرے مغربی تہذیب اور مادیت سے متاثر ہوکر، اسلامی معاشرے کی اس نمایاں خصوصیت اور اخلاقی قدر سے غفلت برتتے نظر آتے ہیں۔ نفسانفسی بڑھ رہی ہے۔ معاشرہ انتشار سے دوچار ہے۔ خاندان کا شیرازہ بکھر رہا ہے اور انتشار و افتراق کی وجہ سے گھر برباد ہورہے ہیں۔ لوگ افلاس اور بے بسی کے ہاتھوں مجبور ہوکر خودکشی جیسے گناہ کے مرتکب ہونے لگے ہیں جس کا مسلم معاشرے میں کبھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ مغربی طرزِ معاشرت کی طرح والدین کو بوجھ سمجھا جانے لگا ہے اور اب ’بوڑھوں کے لیے گھر‘ بھی بنائے جانے لگے ہیں۔ اگر صلۂ رحمی جیسی اساسی معاشرتی قدر کو مسلمانوں نے مضبوطی سے نہ تھاما تو مادیت کی دوڑ کے نتیجے میں خود ہمارا معاشرہ بھی معاشرتی انتشار کا شکار ہوکر مغرب کی طرح معاشرتی مسائل سے دوچار ہوسکتا ہے۔
___________________
ریحان اختر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ، علی گڑھ میں شعبۂ سنی دینیات میں ریسرچ اسکالر ہی
حضرت خدیجہ بنت خویلد کا مقام
محمد زکریا


حضرت خدیجہ کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ جبریل علیہ السلام انہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کا سلام پہنچانے خانہ نبوت میں تشریف لاتے ہیں، اور فرماتے ہیں: یا رسول اللّٰہ ھذہ خدیجہُ قد اتت، معھا اناء فیہ اِدام اَو طعام اَو شراب، فاذا ھی اَتَتک، فاقراعلیھا السلام من رَبَّہا ومنِیّ اے اللہ کے رسول، خدیجہ کچھ خوردونوش کا سامان لے کر آپ کے پاس آیا چاہتی ہیں، جب وہ آپ کے پاس پہنچ جائیں تو اُن سے اُن کے رب کا سلام کہیے اور میری طرف سے بھی سلام کہیے

عرشِ معلی سے اتری یہ تہنیت جب اپنے شوہر سے سنتی ہیں تو ایک بڑا پاکیزہ جملہ عرض کرتی ہیں۔ اِنَّ اللّٰہ ھو السلام اللہ تو خود سلام ہے (مجھ جیسی گناہ گار بندی کے لیے یہ مژدا!) (وعلی جبریل السلام) جبریل علیہ السلام پر سلام (وعلیک السلام) اور آپ پر سلام۔

حضرت خدیجہ کے یہ الفاظ کہ اللہ تو خود سلام ہے وہی الفاظ ہیں جو حضور اکرم نے کئی سالوں بعد مدینے میں صحابہ کرام سے کہے تھے آپ نے جب صحابہ کرام کو نماز میں تشھد کا طریقہ سکھلایا تھا تو یہ الفاظ فرمائے تھے کہ اللہ خود سلام ہے، تم تشھد میں یوں کہا کرو: السلام علیک ایہا النبی ورحمہ اللّٰہ وبرکاتہ والسلام علینا وعلی عباد اللّٰہ الصالحین۔ آپ کے ان فرمودات سے پہلے صحابہ کرام اللہ پر بھی سلام بھیجا کرتے تھے۔ درآں حالیکہ تمام سلامتی اللہ کی طرف سے ہے۔ حضرت خدیجہ اللہ کے اس صفاتی نام کا ازخود علم رکھتی تھیں۔ یہ اللہ تعالیٰ سے ان کے تعلق کا ایک واقعہ ہے۔ اللہ پر بے ساختہ ایمان، اس کی قدرت دیکھ کر اس کی عظمت اور کبریائی کا تصور، وہ رحمت جو نبوت بن کر ان کے آنگن میں اتری تھی اور اس کے لیے شکرانے کے جذبات، پھر عبادت کا وہ ہمہ گیر تصور جس کی دولت وہ پچیس برس مسلسل اللہ کی رضا جوئی میں جان ومال کھپا دیتی ہیں، وہ اعمال ہیں جو فرض عبادات کے بغیر ہی انہیں اپنے زمانے کی سب سے افضل عورت کے مرتبے پر پہنچا دیتے ہیں۔ نماز پنجگانہ حضرت خدیجہ کے انتقال کے بعد فرض ہوتی ہیں، روزے ہجرت کے بعد فرض ہوئے اور اسی طرح زکوٰت اور حج بھی مدینے کے آخری دور میں فرض ہوتے ہیں۔ اللہ پر کامل ایمان اور پھر اس ایمان سے جو اعمال رونما ہوتے ہیں وہ آخرت کے میزان میں بہت بھاری ہوتے ہیں۔

نبی علیہ السلام سے آپ کی طویل رفاقت رہی اور رفاقت کے اِس طویل عرصے میں نبی علیہ السلام نے کسی دوسری خاتون کو اپنی زوجیت میں نہیں لیا اور نہ کسی خادمہ کی ضرورت سمجھی۔ اکیلی حضرت خدیجہ نبوت جیسی اہم ذمہ داری میں نبی علیہ السلام کا اس بھرپور انداز سے ساتھ دیتی ہیں کہ آپ کسی بڑے کنبے کی ضرورت نہیں سمجھتے، جو بعد میں آپ کو مدینے میں حضرت خدیجہ کے انتقال کے بعد پیش آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ازواج مطہرات کی موجودگی میں باکثرت حضرت خدیجہ کو یاد کرتے۔ اگرچہ حضرت خدیجہ دو ہاجن تھیں، پہلا نکاح ابوھالہ بن زرارہ تمیمی سے ہوا، دوسرا عقد عتیق بن عابد مخزوی سے ہوا، مگر آپ کو کل جہان سے پیاری تھیں، وہ عمر میں آپ سے بزرگ تر تھیں مگر جواں سال عائشہ سے آپ کو عزیز تر تھیں۔ آپ تقریباً ہر روز ان کا تذکرہ کرتے۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہ نے حضرت خدیجہ کی بابت چند ناپسندیدہ الفاظ کہے، جنہیں سن کر نبی علیہ السلام ایک ماہ تک حضرت عائشہ سے ناراض رہے اور گھر قدم نہیں رکھا۔

وہ فرماتی ہیں: کان لم یکد یسام من ثَناء علیہا واستغفارِ لہا آپ کا حضرت خدیجہ کی تعریفیں کرکے کبھی جی نہیں بھرتا تھا اور باکثرت ان کے لیے استغفار کرتے۔

میں نے ایک دن حضرت خدیجہ کی عیب جوئی کر دی تو آپ غضبناک ہو گئے، جبیں مبارک پر پسینہ نمودار ہوا، پیشانی پر بال بکھر گئے، آپ کے غصے کا یہ عالم دیکھ کر میں نے جھٹ اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلا دیے:

اللھمّ اِن اَذھبتَ غضب رسولِکَ عَنیِّ لم اَعُد اُذکُرَھا بسوئٍ

اے اللہ آج کے دن تو اپنے رسول کا غصہ مجھ سے دور فرما دے، میں حضرت خدیجہ کے لیے آئندہ کبھی نامناسب الفاظ استعمال نہیں کروں گی“۔

جب آپ پرسکون ہو گئے تو ازواج مطہرات سے فرمایا: ”جیسے مریم بنت عمران اپنے زمانے میں سب عورتوں سے افضل تھیں، ویسے خدیجہ اِس زمانے کی سب عورتوں سے افضل ہیں“۔

بخدا خدیجہ سے بہتر بیوی مجھے نہیں ملی۔ وہ اُس وقت ایمان لائیں جب لوگوں نے کفر کیا، دُنیا بھر نے مجھے جھٹلایا، اُس نے میری تصدیق کی، لوگوں نے مال دینے سے انکار کردیا، خدیجہ نے کل مال وقف کردیا، خدیجہ کے بطن سے میری اولاد ہوئی اور کسی بیوی سے مجھے اولاد نہیں ملی۔

حضرت خدیجہ سے آپ کی چار بیٹیاں زینب، رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہ پیدا ہوئیں اور دو لڑکے القاسم اور عبداللہ تولد ہوئے۔ جو شیر خواری کے دوران میں وفات پا گئے۔ طاہر اور طیب دراصل آپ کے دوسرے بیٹے عبداللہ کے لقب ہیں۔ بعض سیرت نگار طاہر اور طیب کو بھی نبی علیہ السلام کی اولاد میں شمار کرتے ہیں جو درست نہیں۔

جبریل علیہ السلام ان کو بشارت دیتے ہیں:

بشرھا ببیت فی الجنت من قصبٍ لا صحب فیہ ولارضبا

انہیں بشارت دے دیجئے، جنت میں ایک ایسے گھر کی جو موتی چھید کر بنایا گیا ہے۔ ایسا گھر جس میں نہ کوئی بیہودہ بات ہو گی اور نہ کوئی چھن جانے کا اندیشہ لاحق ہوگا۔

حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد ایک مرتبہ ان کی ہمشیرہ ھالہ بنت خولد تشریف لاتی ہیں اور آپ سے اندر آنے کی اجازت طلب کرتی ہیں۔ دونوں بہنوں کی آواز میں کافی مشابہت تھی۔ ھالہ کی آواز سن کر آپ کو یوں لگا کہ خدیجہ تشریف لائی ہیں مگر جب آپ دوبارہ آواز سنتے ہیں تو فرماتے ہیں ”اللھم ھالہ“ ارے یہ تو ھالہ ہیں۔ صحیح بخاری میں الفاظ ہیں فارتاع لذلک اور صحیح مسلم میں فارتاع کی بجائے فارتاح لذلک کے الفاظ ہیں۔ دونوں روایتوں کو جمع کرنے سے معنی نکلتا ہے کہ آپ نے حضرت خدیجہ کی یاد سے ایک قسم کی فرحت محسوس کی۔

حضرت خدیجہ قریشی قبیلے کی ایک معزز خاتون تھیں اور اپنا سرمایہ بڑی سمجھ داری سے تجارت میں لگاتی تھیں۔ حکمت اور دانائی وافر ملی تھی۔ ایسی عفت مآب کہ طاھرہ (پاک دامن) لقب تھا۔ جاھلیت میں بھی اپنی فطرت اصلیہ کو بت پرستی یا شرک سے آلودہ نہیں کیا تھا۔ پہلی آسمانی کتابوں کا علم رکھتی تھیں، مردم شناسی کا ملکہ آپ کو ودیعت ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تجارت کے لیے وہ نبی علیہ السلام کا انتخاب کرتی ہیں اور تجارت کی غرض سے ملک شام کا جو سفر آپ کرتے ہیں وہ سب احوال اپنے وفادار خادم میسرہ سے سن کر سمجھ جاتی ہیں کہ آپ اس امت کے آخری نبی ہیں۔ نبی کی بیوی بننے کی سعادت سے آپ محروم نہیں ہونا چاہتی تھیں اس لیے دونوں خاندانوں کی رضا مندی سے آپ کا نکاح نبی علیہ السلام سے ہو جاتا ہے اور پندرہ برس بعد آپ پر پہلی وحی نازل ہوتی ہے۔ رسول اللہ وحی اترنے کی کیفیت سے گھبرا جاتے ہیں۔ اس وقت آپ کو ایک سچے ہمدرد کی ضرورت ہوتی ہے۔ حضرت خدیجہ سے بڑھ کر آپ کا ہمدرد اور کون ہو سکتا تھا۔ آپ گھر لوٹتے ہیں اور فرماتے ہیں: زَمّلونی، دَثَّرونی مجھے جلدی سے لحاف اڑھا دو۔

ہمارے زمانے کی کوئی بیوی ہوتی تو عین ممکن ہے سوال پر سوال کرتی، مگر اطاعت شعار بیوی کے لیے سب سے مقدم اپنے شوہر کے حکم کی تعمیل ہوا کرتی ہے۔ اس وقت آپ کو پرسکون کرنا اور حوصلہ بڑھانا اولین ضرورت تھی، اس لیے بڑی مستعدی سے آپ کو کمبل اڑھا دیتی ہیں اور آپ کے ساتھ بیٹھ جاتی ہیں اور مسلسل دلاسا دیتی رہتی ہیں۔ آپ جب پرسکون ہو جاتے ہیں تو غار حرا کا ماجرا من وعن سنا دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ مجھے تو اپنی جان کی فکر ہے۔

مگر حضرت خدیجہ فرماتی ہیں (کلاَّ) ایسا مت سوچیے۔

اِنَّکَ لَتصل الرحم وتصدق الحدیث وتحمل الکلّ وتکسب المعدوم وتقری الضیف وتعین علی نوائب الحق

(بھلا خدا ایسے شخص کو کیوں ہلاک کرے گا)

آپ رشتہ داری نبھاتے ہیں، سچ بولتے ہیں، ناتواں کو سہارا دیتے ہیں، نادار پر خرچ کرتے ہیں، مہمان نواز ہیں اور مصائب میں لوگوں کا ساتھ دیتے ہیں۔

پھر مزید اطمینان دلانے کے لیے ورقہ بن نوفل جیسے عالم کے پاس لے جاتی ہیں۔ ورقہ بن نوفل آپ کے عم زادہ تھے، آسمانی مذاہب کا خاطر خواہ علم رکھتے تھے اور عیسوی مذہب پر کاربند تھے۔ عبرانی اور عربی دونوں زبانوں میں پوری مہارت رکھتے تھے اور کثرت مطالعہ سے نابینا ہو گئے تھے۔ تاہم علوم الغیبیات کے متعلق تورات اور اناجیل میں جو کچھ مذکور تھا اس کا پورا علم رکھتے تھے۔ مزید براں ایک خیر خواہ اور دور اندیش درویش تھے۔ رسول اللہ پر جو پہلی وحی اتری تھی اور اُس سے آپ جس گھبراہٹ میں مبتلا تھے، اُس کا ذکر ورقہ بن نوفل سے کرنا نہایت قرین قیاس تھا اور حضرت خدیجہ کی دانائی کا بین ثبوت۔ غار حرا کا واقعہ سن کر وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک ناموس (جبریل فرشتہ) ہے جو انبیاءپر نازل ہوتا ہے۔ کاش میں اُس وقت آپ کی بھرپور مدد کر سکوں جب آپ کی قوم آپ کو شہر بدر کر دے گی۔

آپ حیران ہو کر پوچھتے ہیں کیا میری اپنی قوم مجھے نکال دے گی! ورقہ بن نوفل ایک عام کلیہ بیان کرتے ہیں کہ ہر نبی کو اس کی قوم ہجرت پر مجبور کرتی ہے۔

ورقہ بن نوفل نے حضرت خدیجہ کی بات کی تصدیق کر دی کہ اللہ نے آپ کو ایک عظیم کام کے لیے چن لیا ہے، لہٰذا آپ مستعد ہو جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری وحی جب آپ پر نازل ہوئی تو آپ اس کے لیے ذہنی طور پر پوری طرح تیار تھے اور وہ خوف یا اندیشہ جو پہلے آپ کو لاحق تھا وہ حضرت خدیجہ کے حسن تدبیر سے دور ہو گیا تھا۔

رسول اللہ مکہ میں پوری مستعدی سے اسلام کا پرچار کرتے ہیں اور خالص اللہ کی عبادت اور بت پرستی اور غیر اللہ کی عبادت سے پوری سختی سے لوگوں کو منع کرتے ہیں۔ برسوں اس بنیادی اور متنازع عقیدے کو قرآن کے ذریعے کھول کھول کر بیان کرتے ہیں اور عقیدہ توحید اور عقیدہ شرک کے درمیان ایک بڑی واضح تفریق پیدا کر دیتے ہیں جو بالآخر مکہ کا اشرافی طبقہ برداشت نہیں کر سکتا اور بنی عبدالمطلب اور ہاشمی خانوادے کا سماجی بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے۔ خلق خدا کے ستائے دونوں خاندان شعب ابی طالب میں تین برس کے لیے محصور ہو جاتے ہیں۔ عسرت اور فاقہ کشی کے تین برس۔ حضرت خدیجہ ناز ونعم میں پل کر جوان ہوئی تھیں، تصور کیا جا سکتا ہے کہ ایک امیر زادی کے لیے بھوک برداشت کرنا کتنا صبر آزما رہا ہوگا۔ مگر جس نے ایمان کا مزہ پالیا ہو اُس کے لئے دنیاوی لذتوں سے محرومی کوئی بڑی بات نہیں رہ جاتی۔ پورے تین برس وہ پہلے سے بڑھ کر رسول اللہ کی خدمت کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ جب سماجی بائیکاٹ ختم ہوتا ہے اور آپ مع اپنے خاندان کے مکہ میں سکونت پذیر ہوتے ہیں، حضرت خدیجہ داغ مفارقت دے جاتی ہیں، تین برس کی محنت شاقہ اور بھوک وافلاس آخر اپنا اثر دکھا کر گئی، لیکن وہ وفا کی پیکر اُس وقت وفات پاتی ہیں جب دعوت اسلام پورے عرب میں ایک روٹین پر چل نکلتی ہے۔ اگلے تیرہ برس میں دعوت اسلامی کے ثمرات نکلنے تھے۔ مکہ کے کئی بااثر افراد ایمان لا چکے تھے، نبی علیہ السلام کے ساتھ صحابہ کرام کا ایک مضبوط جتھہ وجود پا گیا تھا۔ جب حضرت خدیجہ جنت میں اپنے موتی محل کو چل دیتی ہیں تو زمین پر بھی ان کی باغبانی سے ایک گلستان سربسر پھیل رہا ہوتا ہے۔ مگر اللہ کو یہی پسند تھا کہ دُنیا کی سب سے افضل عورت کی ضیافت ارضی نہیں سماوی گلستان میں ہو۔

ہجرت سے تین برس قبل یکے بعد دیگرے ابو طالب اور حضرت خدیجہ کا انتقال ہوتا ہے۔ اگرچہ آپ نے اِس سال کو عام الحزن کہا تھا، مگر اس سے یہ مراد نہیں کہ آپ نے پورے سال میں سوگ منانے کا اعلان کیا تھا۔ عام الحزن کہنے سے مراد ہے کہ نبوت کے دسویں سال آپ کو دو صدمے اٹھانے پڑے۔ ایک ابوطالب کی وفات کا صدمہ اور دوسرا ایک ماہ بعد حضرت خدیجہ کے انتقال کا صدمہ جو پہلے سے بڑھ کر جاں گسل تھا۔

یہ ہیں پہلی مسلم شخصیت، عفت مآب، اعلیٰ نسب، علم سے بہرہ مند، تجارت میں سود مند، بلند کردار، پاکیزہ افکار، سلیم الفطرت، سماجی حیثیت میں معزز تر۔

اسلام اتنا ہی عظیم ہے کہ اس میں داخل ہونے والے افراد حضرت خدیجہ جیسے اخلاق کے مالک ہوں۔

کوتاہ بیں، ڈرپوک، جلد ثمرات لینے والے، مال وزر کو سینت سینت کر رکھنے والے، موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کو شک سے دیکھنے والے اسلام کی بلندی کو نہیں پانے والے۔

رضی اللّٰہ عنھم ورضواعنہ

21 September, 2011

دعا کی قبولیت کی شرائط/فلسفہ قربانی اور شہادت حسین/نیچی نگاہیں

دعا کی قبولیت کی شرائط

محمد رفیق اعتصامی

اسلام امن وسلامتی کا مذہب ہے ۔ اسکے اصول سادہ اور آسان فہم ہیں ۔ اور بنی نوع انسان کو رشدو ہدایت کا سبق دیتے ہیں یہ ایک ایسا مذہب ہے جو خدا اور بندے کے درمیان براہ راست تعلق پیدا کرتا ہے۔ کہ بندہ جب بھی ایک عاجز و لاچار مخلوق ہونے کی حیثیت سے اس شہنشاہ مطلق کے حضور عرض گزار ہوتا ہے۔ اس کی طرف سے بندہ کی پکار کا فوراًجواب دیا جاتا ہے۔ اس کی حاجت برآری کی جاتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (ترجمہ) ’’ مجھ سے دعا کرو میں قبول کرونگا‘‘ اور فرمایا اے نبیؐ ! جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق سوال کریں (کہ میں کہاں ہوں) تو میں توان کے قریب ہوں جواب دیتا ہوں پکارنے والے کی پکار کا جب بھی وہ مجھے پکارے پس انہیں بھی چاہیے کہ وہ میری بات کا جواب دیں۔ مجھ پرایمان لائیں تاکہ فلاح پائیں (البقرہ : 186)۔

یہ دنیا دار التکلیف اور آزمائش کا گھر ہے یہاں انسان کو ہر قسم کے اچھے برے حالات سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ لہذا زندگی کے نشیب و فراز انقلاب زمانہ ناکامیوں سے اور مایوسیوں سے گھبراجانا ایک فطری امر ہے۔ بقول غالب ۔۔۔

کیوں گردش مدام سے گھبرانہ جائے دل

انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں

مگر ایسے دل گرفتہ حالات میں خدا نے انسان کودعا کا سہارا دیا ہے کہ وہ جب کسی مصیبت کے عالم میں خدا کو پکارتا ہے تو اسے سکون مل جاتا ہے۔ کیوں کہ خدا تعالیٰ انسان کا سچا دوست ہے جو ہر لمحہ اس کی مدد کرتا ہے۔ (چنانچہ فرمایا (ترجمہ) ’’ قائم رکھو نماز اور دیتے رہو زکوۃ اور مضبوط پکڑو اللہ کو وہ تمہارا دوست ہے تو کیا ہی اچھا دوست اور کیا ہی اچھا مددگار ہے ‘‘ (17:78)سرور کائنات ﷺکا ارشاد گرامی ہے کہ ’’ خدا سے دعا کرو اس حال میں کہ تمہیں اس کے قبول ہونے کا یقین ہو‘‘ (احمد ابو داؤد نسائی)فرمایا کہ ‘‘ جو شخص خدا کے حضور دست سوال دراز نہیں کرتا تو وہ اس سے ناراض ہوتے ہیں ۔۔۔

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں

راہ دکھلائیں کسے کوئی راہ رو منزل ہی نہیں

مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ دعائیں تو لوگ خدا سے مانگتے ہی رہتے ہیں بلکہ نہایت خشوع خضوع اور گڑ گڑ ا گر دعا مانگتے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ اکثر لوگوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں اور وہ اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہتے ہیں ؟ ا س کا جواب یہ ہے کہ اصولی طور پر دعا کے قبول ہونے میں کوئی شک نہیں مگر اس کی کچھ شرائط ہیں اور کچھ صورتیں ہیں جو علماء نے تحریر کی ہیں کہ دعا کس صورت میں قبول ہوتی ہے جو مندرجہ ذیل ہیں ۔

قبولیت دعا کی اہم شرط یہ ہے کہ صاحب دعا رزق حلال کماتا ہوا حکام شرع کا پابند ہو اور حقوق العباد کا خیال رکھتا ہو حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک شخص خدا سے دعا کرتا ہے مگر اس کا کھانا حرام ہے اور لباس حرام کی کمائی سے بنا ہوا ہے اور وہ کہتا ہے۔۔۔۔۔۔یا اللہ یا اللہ تو اس کی دعا کیسے قبول سکتی ہے؟ تاوقتیکہ وہ حرام کھانے سے توبہ نہ کرے اور دوسری شرط یہ ہے کہ دعا کرنے سے پہلے خدا تعالیٰ سے توبہ و استغفار کیا جائے اپنے گناہوں پر نادم ہو اور دوبارہ انہیں نہ کرنے کا عہدہ کیا جائے۔ آنحضرت ﷺ کا فرمان ہے کہ میں روزانہ اپنے رب سے سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں ‘‘ (صحیح بخاری )

اور دعا کی قبولیت اس طرح ہوتی ہے کہ کبھی تو بعینہ وہی چیز عنایت کر دی جاتی ہے جس کے لئے دعا کی گئی ہے۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ اگر باری تعالیٰ اپنے علم محیط کی رو سے یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہی چیز دے دی جائے جو مانگی گئی ہے تو یہ صاحب دعا کے لئے نقصان دہ ہے۔ تو اس چیز کے بدلہ میں کوئی اور چیز دے دی جاتی ہے۔ جو اس سے بہتر ہوتی ہے ۔اور تیسری صورت یہ ہے کہ اس دعا کوآخرت میں ذخیرہ کر دیا جاتا ہے کہ اس کا ثواب آخرت میں عطا کیا جائے گا اور قبولیت دعا کی تیسری صورت یہ ہے کہ اس دعا کے بدلہ میں آدمی کے گناہ محو ہو جاتے ہیں یا اس کے درجات بلند کر دیئے جاتے ہیں یا کوئی بلا اور مصیبت جو اس شخص پر آنے والی تھی ٹال دی جاتی ہے بہرحال دعا کبھی رائیگاں نہیں جاتی کیوں کہ خدا تعالی ہر چیز پر قادر ہے اور مسبب الاسباب ہے اور اس نے خود ہی فرمایا کہ ’’ مجھ سے دعا کرو میں قبول کرونگا‘‘ (شرح عقائد از علامہ تفتازانی)۔

واضح رہے کہ دعا کی جو شرائط تحریر میں لائی گئی ہیں ان سے لازم نہیں آتا کہ گناہ گار شخص خدا سے دعا ہی نہیں کر سکتا کہ ایک شخص دن رات گناہوں میں غرق ہے وہ یہ سوچ کر میں تو گناہ گار ہوں پتہ نہیں خدا تعالی میری سنتے بھی ہیں کہ نہیں وہ خدا سے دعا ہی نہیں کرتا یہ بات غلط ہے گناہ گار کی طرف تو خدا کی رحمت اور بھی زیادہ متوجہ ہوتی ہے بشرطیکہ وہ صدق دل سے دعا کرے حدیث قدسی میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اگر ابن آم مجھے اس حال میں ملے کہ اس کے گناہ زمین و آسمان درمیانی فاصلے کو پر کرتے ہوں تو میں اسے بخش دونگا بشرطیکہ اس نے میرے ساتھ شرک نہ کیا ہو۔ (المشکوٰۃ المصابیح)ہر حال خدا کی رحمت گناہ گار کی طرف بھی ایسے ہی متوجہ ہوتی ہے جیسے کسی صالح آدمی کی طرف البتہ دعا کے جملہ آداب کا خیال رکھنا ضروری ہے ورنہ یہ تو اسی کی ذات والا صفات کی بے پایاں رحمت و جود و سخا ہے کہ وہ بڑے سے بڑے عاصی کو بھی اپنی آغوش رحمت میں لے لیتا ہے وللّٰہ درمن قال

اے برتراز خیال و قیاس و گمان و وہم

وزیر ہرچہ گفتہ اندو خواندہ ایم

دفتر تمام گشت وبپایاں رسید عمر

ماھمچناں در اول وصف توماندہ ایم

حدیث:، آنکھ بھی زنا کرتی ہے،زبان بھی زناکرتی ہےاورشرمگاہ اسکی تصدیق یاتکذیب کرتی ہے(المشکوٰۃالمصابیح)

تشریح۔۔۔۔آنکھوں کا زنا کسی نا محرم عورت کوبنظر شہوت دیکھنا ہےاورکانوں کا زنا فحش اورگندی باتوں کاسنناہے اورزبان کا زنافحاشی اوربےحیائی کی باتیں کرناہے اورشرمگاہ کی تصدیق یا تکذیب سے مراد یہ ہے کہ اگر انسان زنا کاری میں ملوث ہو گیا تو آنکھ ،کان اور زبان کازناکرناثابت ہو گیااور اگر شرمگاہ زناکاری میں ملوث نہ ہوئی تو اللہ کی رحمت سے قوی امیدہے کہ وہ بقیہ اعضاءکی زناکاری کو معاف فرمادیں گے۔

آپPBUH)) نے فرمایا کہ جو عورت بناؤ سنگھار اورٹیپ ٹاپ کیساتھ (بغیر کسی ضرورت کے) گھرسے باہر نکلتی ہے تو لوگ اسکے بارہ میں طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں کہ یہ عورت ایسے ایسے ہے یعنی بدکار ہے۔

فلسفہ قربانی اور شہادت حسین

رضائے الہی تب ہی حاصل ہو سکتی ہے کہ جب اپنی محبوب اور پسندیدہ چیز کو اس کی راہ میں قربان کیا جائے۔ محبوب چیزیں کئی ہو سکتی ہیں مگر سب سے زیادہ پیاری چیزانسان کی اپنی جان ہے اس سے زیادہ پیاری کوئی اور چیز نہیں اور قاعدہ یہ ہے کہ جب جان خدا کی راہ میں قربان کی جاتی ہے تو وہ امر بن جاتی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ (ترجمہ) ‘‘ جو لوگ خدا کی راہ میں شہید کیے جائیں انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں مگر تمہیں اس کا شعور نہیں ۔ ‘‘ (القرآن) یعنی وہ ایسی زندگی ہے جس کی رفعت و بلندی کا تم تصور نہیں کر سکتے اور ایسی زندگی کو حاصل کرنے کے لیے جان کو کر ب و بلا کے مقام سے گزارنا ضروری ہے۔

اس پس منظر میں ہم جب شہادت حسینؓ کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اس شہادت سے ان کی مراد محض رضائے الہٰی تھی۔دنیاوی تاج و تخت مطلوب نہ تھا۔ حضرت امام حسینؓ جب مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے تو ذی حشم کے مقام پرحربن یزید بن تمیمی سے ملاقات ہوئی جو ایک ہزار کا لشکر اپنے ہمراہ لایا تھا اس نے آپ ؓ کو عبید اللہ بن زیاد کا حکم سنایا کہ ان کو کوفے بھیج دیا جائے۔ اس نے آپؓ کو کوفے لے جانے پر اصرار کیا۔ اس موقع پر کچھ تلخ کلامی بھی ہوئی ’ حر نے آپؓ کے رتبہ کا خیال رکھتے ہوئے نرمی اختیار کی اور مشورہ دیا کہ وہ حجاز اور عراق کی بجائے کوئی اور راستہ اختیار کر لیں۔ ممکن ہے کہ مفاہمت کی کوئی صورت نکل آئے۔ امام حسینؓ اس پر رضامند ہو گئے اور مقام بیضا میں پہنچ کر ایک ولولہ انگیز خطبہ ارشاد فرمایا اس کے مندرجات قابل غور ہیں۔

آپؓ نے فرمایا ’’ لوگو ! انحضرت ﷺنے فرمایا ہے کہ جس نے ظالم ‘ حرام کو حلال کرنے والے‘ خدا کے عہد کو توڑنے والے ‘ خدا اور رسول ﷺ کے مخالف اور خدا کے بندوں پر گناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اور اسے قولاً و عملاً اس پر غیرت نہ آئی تو خدا کو یہ حق ہے کہ اس شخص کو اس بادشاہ کی جگہ دوزخ میں ڈال دیں۔ لوگو ! خبردار ہو جاؤ ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت اختیار کی اور رحمن کی اطاعت چھوڑ دی ‘ ملک میں فساد برپا کیا ‘ حدود الہٰی کو معطل کیا ہے‘ مال غنیمت میں اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں‘ خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال اور حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام کر تے ہیں‘ اس لیے مجھ کو غیرت آنے کا زیادہ حق ہے‘‘۔ (تاریخ اسلام)

یہ خطبہ آپؓ کی اس عظیم قربانی کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتا ہے ۔ جو انہوں نے اسلام کی سربلندی کے لیے میدان کربلا میں پیش کی ۔ اس لیے کہ ظالم و جابر بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنے کا حق عمومی طور پر ہر مسلمان کے لیے ہے مگر نبی ﷺ کے اقرباء کے لیے یہ حکم خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ دین ہمیں انہیں کے واسطے سے ملا ہے اگر یہ حضرات احکام خدا وندی کے قائم کرنے میں اتنی سختی نہ دکھاتے تو آج دین مٹ چکا ہوتا ‘ دین کو حیات تازہ بخشنے کے لیے قربانی کی ضرورت ہوتی ہے۔

علامہ اقبال نے کیا خوب کہاہے۔۔۔۔۔۔

ٗٗ قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے۔

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

اس خطبہ سے مستشرقین کے ان باطل دعوؤں کی تکذیب ہوجاتی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ امام حسینؓ نے تخت و تاج کے حصول کے لیے یزید کے خلاف لشکر کشی کی۔ کیونکہ اگر فی الواقعی ایسا ہوتا تو وہ وقتی طور پر یزید کی بیعت کرکے باآسانی اپنی جان بچالیتے اور پھر کبھی موقع پاکر اس کے خلاف لشکر کشی کرتے۔ مگر انہوں نے اسلام کی سربلندی اور رضائے الہی کے حصول کے لیے سچائی اور راستی کے دامن کو ہاتھ سے نہ جانے دیاور جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔ بہرحال شہادت حسینؓ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ مالک حقیقی کی رضامندی کے لیے اگر جان کی بازی بھی لگانی پڑے تو دریغ نہ کرنا چاہیے

نیچی نگاہیں
ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’آپ (اے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم) ایمان والے مردوں سے فرمادیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں (اسی طرح آپٌ) ایمان والی عورتوں سے فرما دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں‘‘ (القرآن) ان آیات کریمہ میں مؤمن مردوں اور عورتوں کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم ہے وجہ یہ ہے کہ اگرنگاہیں نیچی ہوں گی اور انمیں شرم و حیا اور پاکیزگی ہو گی تو زناکاری کا دروازہ ہمیشہ کیلئے بند ہو جائے گا اور اسکی جڑ کٹ جائے گی کیونکہ اصل پردہ نگاہوں کا ہے اگر چہرہ نقاب سے ڈہکا ہوا ہو گا مگر نگاہیں بے باک ہوں گی تو کوئی فائدہ نہیں اس لئے نگاہوں کو نیچا رکھنا چاہئے اور ان میں پاکیزگی پیدہ کرنی چاہئے کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔
جنت کی ضمانت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مجھے دو باتوں کی ضمانت دے میں اسکو جنت کی ضمانت دیتا ہوں ایک زبان کی اور دوسری شرمگاہ کی (المشکوٰۃ) تشریح اسکی یہ ہے کہ انسان زبان سے اچھی بات کہ سکتا ہے مثلا اچھی بات کی نصیحت کرنا ، بری بات سے روکنا،ذکر و اذکار اور قرآن پاک کی تلاوت وغیرہم اسیطرح وہ زبان کا غلط استعمال بھی کر سکتا ہے مثلا کسی کو گالی دینا ، غیبت کرنا کا کسی کو برابھلاکہنا وغیرہ۔آنحضرتٌ نے فرمایا کہ انسان بعض دفعہ ایسی بات منہ سے نکال دیتاہے کہ اسکو پتہ نہیں چلتا کہ میں نے کیا کہ دیاہے اور ہو اسکی وجہ سے جہنم میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ اسی لئے علماء کرام کہتے ہیں کہ جب صبح ہوتی ہے تو جسم کے تمام اعضاء زبان سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ دیکھنا کوئی ایسی بات منہ سے نہ نکال دینا کہ جسکی وجہ سے ہم جہنم میں پڑ جائیں لہٰذا زبان کے صحیح استعمال کی کوشش کرنی چاہئے۔ اسی طرح شرمگاہ کوغلط کاری سے روکنا چاہئے کہ جوشخص ان دو باتوں کی ضمانت دے گا اسے جنت کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔
محمد رفیق اعتصامی
انسان خسارے میں ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے قسم ہے زمانہ کی انسان خسار ے میں ہے مگروہ لوگ جو ایمان لائے اور اچھے اعمال کئے او ر ایک دوسرے کو حق بات کی نصیحت کرتے رہے اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کرتے رہے‘‘ (العصر:پ۳۰)
ان آیات کریمہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے قسم کھانے کے بعد ارشاد فرمایا کہ دنیا میں جتنے بھی انسان ہیں وہ تمام کے تمام خسارے میں ہیں گھاٹے میں ہیں مگر چار قسم کے افراد اس ابدی اور دائمی نقصان سے بچے ہوئے ہیں یعنی(۱) وہ لوگ جواللہ تبارک وتعالیٰ پر ایمان لائے،اسکے ساتھ ساتھ اسکے فرشتوں پرایمان ، اسکی نازل کردہ کتابوں (تورٰۃ ،زبور ، انجیل اور قرآن)پرایمان،اسکے رسولوں پرایمان، یوم آخرت پر ایمان اورتقدیرپر ایمان لائے یعنی دین اسلام قبول کیا (۲)وہ لوگ جوایمان لانے کے بعد اچھے اعمال کرتے ہیں یعنی نماز روزہ حج زکوٰۃ وغیرہم (۳)وہ لوگ جوایک دوسرے کو حق بات کی نصیحت کرتے ہیں (۴)اور وہ لوگ جو ایکدوسرے کو صبر کی نصیحت کرتے ہیں۔
محمدرفیق اعتصامی

سلوک کی شرط اولین :/راز کی حفاظت کرنے کا بیان/ان شاء اللہ کہنے سے کام بنتے ہیں

سلوک کی شرط اولین :


راہ سلوک میں نااہل کا گزر نہیں اس میں صادق ہی کامیاب ہوسکتے ہیں چنانچہ حضرت مخدوم نے فرمایا کہ اگرکوئی نااہل اس راہ سلوک میں قدم رکھ دیتا ہے تو اسے بڑی فضیحت ہوتی ہے اور وہ اس میں کامیاب نہیں ہوتا ،کیونکہ اس راہ میں صادق ہی کامیاب ہوسکتا ہے ، صوفیہ کے یہاں کچھ علامتیں مقرر ہیں جن سے وہ اہل اور نااہل کی تمییزکرلیتے ہیں-
ابویزید رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں ایک آدمی کو زہدوتقوی اور باطنی صفائی میں بہت شہر ت حاصل تھی ابو یزید رحمۃ اللہ علیہ اس کو دیکھنے کے لئے گئے اتفاق سے وہ آدمی اپنے گھر سے مسجد جارہا تھا چلتے چلتے قبلہ کی طرف منہ کرکے اس نے تھوک دیا ، ابویزید رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: جس کے اعضاء و جوارح رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے طریقوں اور آداب کے ساتھ خوگر اور عادی نہیں ہوئے ہیں وہ اپنے دعویٰ بزرگی میں کیسے صادق ہوسکتا ہے ؟اور اسی جگہ سے وہ بلا ملاقات کئے واپس چلے گئے۔(جوامع الکلم:89/90)
حضرت بندگی مخدوم کا مسلک حق اہل سنت وجماعت :

بعض لوگ قطب الاقطاب حضرت بندگی مخدوم رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک حق اور مشرب صدق سے متعلق غلط باتیں منسوب کر کے گمراہ فرقوں سے جوڑنے کی ناپاک جسارت کرتے ہیں معاذاللہ یہ سب باتیں ہفوات وہرزہ سرائی کے سواکچھ نہیں،حقیقت سے اس کا دور کا بھی کوئی تعلق ورشتہ نہیں، اہل حق نے ہر دور میں بندگی مخدوم کے مسلک ومشرب سے متعلق حقائق کو واشگاف کیا اور روز روشن کی طرح نفس الامرکی معرفت دلائی کہ حضرت بندگی مخدوم علیہ الرحمہ نے مسلک اہل سنت وجماعت کی نشرواشاعت ،مذہب حنفی کی تشریح وتوضیح طریقہ صوفیہ کی ترویج و تبلیغ، سالکین کے تزکیہ وتصفیہ اور بندگان خدا کی تعلیم وتربیت میں اپنی حیات مقدسہ کے ایک ایک لمحہ کو اوراپنے انفاس قدسیہ سے ہر ہرنَفَس کو وقف فرمادیا تھا جس پر آپ کی گراں قدر تصنیفات و تالیفات، تحقیقات وتعلیقات،مواعظ وارشادات ،مکتوبات وملفوظات شاہدعدل ہیں ،چنانچہ آپ کے شہزادۂ اکبر جوامع الکلم میں صفحہ67/68 پر حضرت بندگی مخدوم کے حوالہ سے رقمطرازہیں:
’’ بہت سے لوگ حضرت امیرالمؤمنین علی کرم اللہ وجھہ کی فضیلت کے بارے میں مبالغہ سے کام لیتے ہیں ،کوئی انہیں نبی اور خدا تک کہہ دیتا ہے اوراس طرح غرابیہ ، صحابیہ ، نصیریہ صابیہ بہت سے گروہ پیدا ہوگئے ہیں۔
ہر ایک کے بارے میں تفصیل بیان کرنا تو بہت طویل بات ہے لیکن حق مذہب یہ ہے کہ امیرالمؤمنین ابو بکر رضی اللہ عنہ صحابہ کرام میں افضل ہیں ان کے بعد عمر رضی اللہ عنہ ان کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ ان کے بعد علی رضی اللہ عنہ ہیں اور انکے بعد تمام صحابہ اور اولیاء کرام اور اس کے علاوہ جو کچھ توہمات اور پراگندہ خیالی ہے وہ گمراہی ہے ‘‘۔(جوامع الکلم ص:67/68)
نور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نہیں:

حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مکشوفات والہامات کو ایک رسالہ میں نقل فرمایا ، حضرت بندہ نواز رحمۃاللہ علیہ نے جواہر العشاق کے نام سے اس رسالہ کی شرح فرمائی چنانچہ حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے ایک الہام کی شرح میں فرماتے ہیں :
اللہ تعالی نے فرشتوں کو حضرت محمد(مصطفی) صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے پیدا کیا اور حضرت محمد (مصطفی) صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے نور سے ، اللہ تعالی فرماتا ہے ۔۔۔۔ بموجب حدیث قدسی ۔
کنت کنزامخفیا فاحببت ان اعرف
’’میں پوشیدہ خزانہ تھا پس چاہا کہ پہچانا جاؤں‘‘
میں نے چاہا کہ جومیری شان ہے ،اور جو کچھ میرے جمال وکمال اور قدرت میں ہے اس کو ظاہر کروں ۔(تو میں نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا فرمایا )مزید آگے تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
کافروں نے یہ بات نادانی سے کہی کہ:
’’ ابشر یہد وننا‘‘
کیا بشر ہم کو راستہ بتاتے ہیں؟
پس حکم ہوا کہ
کفروا
وہ لوگ کافر ہوگئے اتنا نہ سمجھ سکے کہ
کان یمشی ولاظل لہ
(آپ چلتے تھے اورآپ کا سایہ نہ تھا)
محمد(مصطفی) صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کے نور سے ہیں نور خدا کا سایہ کیسے ہوسکتا ہے؟۔انتہی
ملخصا(جواہر العشاق ص:59)
مدینہ منورہ میں روضہ مقدسہ ہونے کی حکمت:

حضرت مخدوم علیہ الرحمہ نے فرمایا :یہ مشیت الہی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روضہ اطہر مکہ معظمہ میں نہ ہو، تاکہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی زیارت ،حج کعبہ کی طفیلی نہ ہوجائے ، حج کعبہ کے بعد علیحدہ سے خاص کرقصد،مدینہ منورہ کاکیا جائے ،امام شافعی کے قول کے مطابق تو مکہ معظمہ کی طرح مدینہ منورہ بھی حرم ہے لیکن تعظیم وتکریم کے واجب ہونے کے بارے میں تو سب ہی متفق ہیں ۔انتہی ملخصا(جوامع الکلم ص:361)
خوف الہی ،عبادت وطاعت امتیاز اہل بیت :

حضرت بندگی مخدوم علیہ الرحمہ نے ارشاد فرمایا کہ اہل بیت میں دو چیزیں عام طور پر پائی جاتی ہیں اوران سے کسی کو بھی خالی نہ دیکھو گے –
ایک تو خوف خدا ،دوسرے عبادت وطاعت الہی –
اس میں کوتاہی ان میں سے کسی میں نہیں دیکھی جاتی (جوامع الکلم ص:87)
سلوک کی بنیاد کیا ہے اور ضرورت شیخ کیوں؟

قلب کی پاکیزگی اور باطن کا تزکیہ ہی دارین کی صلاح وفلاح اور کامیابی وکامرانی ہے اور سلوک کی بنیاد تخلیہ وتجلیہ پرہے، حضرت بندگی مخدوم رحمۃ اللہ علیہ اپنے مکتوبات میں تحریرفرماتے ہیں:
تخلیہ سے مراد ہے ، اللہ جل شانہ کے سوا اور سب طرف سے دل کو ہٹالینا اورتجلیہ سے مراد ہے نفس کا تزکیہ اور جلا،توجہ تام کے ساتھ اللہ جل شانہ کی طرف متوجہ ہونے اور نفس کو طرح طرح کی عبادتوں میں مشغول رکھنے سے جلائے باطن حاصل ہوتی ہے، جس نے یہ دونعمتیں پالیں اسے دونوں جہاں کی نعمتیں مل گئیں ۔
خدائے عزوجل تک جو لوگ پہنچے ہیں وہ ہوائے نفس کے خلاف عمل کرنے ،اللہ کی یاد میں راتوں کو جاگنے ، دن میں روزے رکھنے اور کھانے پینے میں کمی کرنے اور دائمی طور پر متوجہ رہنے سے اس مرتبہ پر پہنچے ہیں –
اس نعمت کے حصول کے لئے پیر کی توجہ کی ضرورت ہے ،ہم سے جو پیر نے فرمایا ہم اس پر چلیں اوران کی اقتداء کی برکت سے فضل الہی ہمارے شامل حال ہوا اور تمام مرادیں مل گئیں ایک کلیہ ہے جو میں کہہ رہاہوں جزئیات کو اسی پر تطبیق دے لو ،جہاں ہوائے نفس ہو اسے ترک کردو جہاں کوئی آرزو ہو اسے نظر سے دور کردو، دیکھو تو پھر کیا کیا نعمتیں نصیب ہوتی ہیں ۔(مکتوبات بندہ نوازص:48/49)
سونے سے پہلے دن بھر کے عمل کا جائزہ لینا چاہئیے:

سنن ابن ماجہ شریف ص 314، میں حدیث مبارک ہے :
عن ابی یعلی شداد بن اوس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الکیس من دان نفسہ وعمل لما بعد الموت العاجز من اتبع نفسہ ہواہا ثم تمنی علی اللہ۔
ترجمہ:حضرت ابو یعلی شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کو اللہ کی رضا کا تابع وفرمانبردار بنادے اور موت کے بعد والی زندگی کے لئے عمل کرے اور نادان وہ ہے جو نفس کو اس کی خواہش کا تابع بنا دے پھر اللہ کے بھروسہ پرآرزوئیں اور امیدیں باندھے رکھے ۔
اس سلسلہ میں حضرت بندگی مخدوم علیہ الرحمہ کا ارشاد ملاحظہ ہو :
روزانہ سونے کے وقت آدمی کو اپنے دن بھر کے عمل اور قول کا جائزہ لے کر سونا چاہئیے، العیاذباللہ اگر اس سے دن میں کوئی غلط اور بے ہودہ حرکت ہوگئی ہے تو اس سے اس کو توبہ استغفار کرنا چاہیے اورکوشش کرنا چاہیے کہ آئندہ اس طرح کی حرکت اس سے نہ ہواور اگر اس سے اچھا اور مستحسن کام ہوگیا ہوتو برابر اس پر ثابت قدم رہنے کی کوشش کرے اور اللہ سے اس پر استقامت کی دعا مانگے اور اللہ کا شکر ادا کرے جو آدمی اس پر عمل پیرارہے گا وہ قیامت کے دن حساب کتاب سے بے خوف رہے گا ،
فسوف یحاسب حساباً یسیرا ۔
(جوامع الکلم:287/288)
راز کی حفاظت کرنے کا بیان

٫٫حضرت عبداللہ بن عمر رض سے راویت ہے کہ جب حضرت عمر رض کی بیٹی حفصہ بیوہ ہوگئيں تو حضرت عمر رض کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان رض سے ملا اور انہیں حفصہ سے نکاح کرنے کی پیشکش کی اور کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں اپ کا نکاح حفصہ سے کردیتا ہوں- انہوں نے فرمایا، میں اپنے معاملے میں غور کروں گا- پس کئی راتیں ٹھرا رہا، پھر وہ مجھے ملے اور کہا کہ میرے سامنے یہی بات واضح ہوئی ہے کہ میں ان دونوں میں شادی نہ کروں گا- پھر میں ابوبکر رض سے ملا، اور کہا کہ اگر آپ چاہیں تو آپ کا نکاح حفصہ بنت عمر سے کردوں- حضرت ابوبکر رض خاموش رہے ، مجھے پلٹ کر کوئی جواب نہیں دیا- پس میں ان پر عثمان رض سے زیادہ رنجیدہ ہوا- تو میں کئی راتیں ٹھر ا رہا ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ کے لیے نکاح کا پیغام بھیجا تو میں نے حفصہ کا نکاح آپ سے کردیا- پھر مجھے ابوبکر رض ملے تو انہوں نے فرمایا (اے عمر!) شاید تم مجھ سے رنجیدہ ہوئے، جب تم نے میرے لیے حفصہ کے نکاح کی پیشکش کی تھی تو میں نے تمہیں پلٹ کر کوئی جواب نہیں دیا تھا- حصرت عمر رض فرماتے ہیں کہ: میں نے کہا ہاں- حضرت ابوبکر رض نے فرمایا، جب تم نے مجھے پیشکش کی تھی تو میرے لیے تمہیں جواب دینے میں صرف یہ بات مانع (رکاوٹ) ہوئی کہ میں جانتا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ (کے ساتھ نکاح کرنے) کا ذکر کیا تھا- پس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کو ظاہر کرنا نہیں چاہتا تھا- (ہاں) اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ارادہ ترک فرمادیتے تو میں حفصہ کے ساتھ نکاح کرنے کی پیشکش یقینا قبول کرلیتا-

تخریج: صحیح بخاری، کتاب النکاح باب عرض الانسان ابنتہ اواختہ علی اھل الخیر، وغیر ھما من کتاب الصحیح، ح:5122-
فائدہ: اس میں رازوں کی حفاظت کرنی چاہیے اور وہ لوگوں کے سامنے ظاہر نہیں کرنے چاہیے-
حضرت ثابت، حضرت انس رض سے روایت کرتے ہیں- حضرت انس کہتے ہیں کہ میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے جب کہ میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، پس آپ نے ہم (بچوں) کو سلام کیا اور مجھے ایک کام کے لیے بھیج دیا چنانچہ مجھے اپنی ماں کے پاس آنے میں دیر ہوگئی، پس جب میں آیا تو والدہ نے پوچھا، تجھے کس چيز نے روکا لیا تھا؟ میں نے کہا، مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کام کے لیے بھیج دیا تھا، انہوں نے پوچھا، وہ کیا کام تھا؟ میں نے کہا، ایک راز ہے- والدہ نے فرمایا (ٹھیک ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز کسی کو مت بتلانا-
حضرت انس رض نے فرمایا، اللہ کی قسم! اگر وہ راز کسی کو بیان کرنا ہوتا تو اے ثابت! میں تجھ سے ضرور بیان کرتا-
تخریج: صحیح بخاری، کتاب الاستئذان، باب حفظ السر، ح:2689-
فوائد: اس میں بھی راز کے افشاء نہ کرنے کی تاکید ہے- انس رض کے یہ کہنے پر کہ وہ ایک راز ہے، ان کی والدہ نے اسے ظاہر کرنے پر اصرار نہیں کیا بلکہ بیٹے کے موقف کی تائيد کرتے ہوئے انہیں راز کو چھپائے رکھنے کی تاکید فرمائی- بہرحال اخلاقی تعلیمات کا یہ بھی ایک حصہ ہے کہ دوست احباب کے رازوں کو اپنے سینے میں ہی محفوظ رکھا جائے- انہیں عام نہ کیا جائے، الا یہ کہ کسی راز کے افشاء کرنے کی وہ صراحتہ اجازت دے دیں-


ان شاء اللہ کہنے سے کام بنتے ہیں

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کفار مکہ نے آنحضرت ﷺ سے اصحاب کہف کے واقعہ کے متعلق دریافت کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ کل بتا دوں گا مگر خدا کا کرناکیا ہوا کہ پندرہ دن تک آپ ؐ کے پاس وحی نہ آئی آپ ؐ بے حد پریشان ہوئے کفار کو کیا جواب دوں گا ؟ اسی اثنا میں جبرائیل علیہ السلام خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ وحی لے حاضر ہوئے۔ (اے محمد ﷺ) آپ کسی کام کے بارہ میں ہر گز یہ نہ کہیں کہ میں اسے کل کر لوں گا مگر یہ کہ اللہ چاہے (الکہف) مفسرین کہتے ہیں کہ آیت میں آپ کو یہ تنبیہ کی گئی ہے۔ کہ آپؐ جب بھی کوئی کام کرنا چاہیں تو پہلے ان شاء اللہ کہہ لیں۔

حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ تبارک و تعالیٰ کے بر گزیدہ پیغمبر ہیں ۔ انہوں نے ایک دفعہ یہ قسم کھائی کہ میں آج رات اپنی بیویوں کے پاس جاؤں گا جو تعداد میں نوے یا سو تھیں اور ہر عورت ایک بچہ جنے گی تو وہ تمام اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے ہوں گے۔ فرشتہ نے یہ القاء کیا کہ ان شاء اللہ کہہ لیجیے مگر (باوجود دل میں ہونے) زبان سے نہ کہا۔

خدا کا کرنا کیا ہوا کہ اس مباشرت کے نتیجے میں کسی عور ت نے بھی کوئی بچہ نہ جنا صرف ایک عورت سے ادھورا بچہ ہوا تو دایہ نے وہی بچہ لا کر تخت پر ڈال دیا کہ لو ’ یہ تمہاری قسم کا نتیجہ ہے ۔ قرآن پاک میں اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے (ترجمہ) ’’اور ہم نے جانچا سلیمان کو اور ڈال دیا اس کے تخت پر ایک دھڑ پھر وہ رجوع ہوا بولا اے میرے رب معاف کر مجھ کو اور بخش مجھ کو وہ بادشاہی کہ مناسب نہ ہومیرے بعد کسی کو بے شک آپ ہیں سب کچھ بخشنے والے ‘‘ (ص پارہ 26)

حدیث میں ہے فرمایا نبی پاک ﷺ نے کہ اگر حضرت سلیمان ؑ ان شاء اللہ کہہ لیتے تو بے شک اللہ تعالیٰ وہی کردیتا جس کی قسم کھائی تھی۔ یعنی ہر عورت بچہ جنتی ۔

قرآن پاک میں کئی مقامات پر یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ پوری کائنات اللہ تبارک و تعالی کے قبضہ قدرت میں ہے ہر کام اس کے حکم و ارادہ سے ہوتا ہے اگر اللہ تعالی کسی کام کوکرنا چاہیں تو دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی اور اگر کسی کام کو نہ کرنا چاہئیں تو کوئی طاقت اسے کرنہیں سکتی۔ ارشاد باری تعالی ہے’’ اللہ کے ہاتھ میں ہے بادشاہی زمینوں اور آسمانوں کی اور پہلے بھی اسی کا حکم ہے اور بعد میں بھی اسی کا حکم ہے‘‘ اور فرمایا’’پاک ہے وہ ذات کہ جس کے ہاتھ میں ہے بادشاہی ہر چیز کی اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے۔‘‘(یٰسین پ23 )

مفسرین لکھتے ہیں کہ کائنات میں ظاہری اسباب کے علاوہ باطنی اسباب کا بھی ایک عظیم الشان سلسلہ جاری ہے جس کام نے ہونا ہوتا ہے اس کا پہلے حکم اترتا ہے وسیلے بعد میں مقرر ہوتے ہیں کہ اس کام نے کس ذریعے اور وسیلے سے پورا ہونا ہے ۔ ( تفسیر القرآن از علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ )

یہی وجہ ہے کہ آدمی گولی سے بچ جاتا ہے اور کنکر سے مر جاتا ہے کیونکہ اس کی موت کا حکم اب ہوا ہے اور کسی کو دنیا بھر کے ڈاکٹروں سے علاج کروانے کے باوجود بھی افاقہ نہیں ہوتا اور جب شفا ہونا ہوتی ہے تو ایک خاک کی پڑیا سے بھی ہو جاتی ہے ۔ کیونکہ اس کی شفا کا حکم اب نازل ہوا ہے اصل چیز اللہ کا حکم ہے۔

ان شاء اللہ کہنے والا شخص براہ راست مسبب الاسباب کو پکارتا ہے اور اپنی عاجزی و بے کسی کا اظہار کرتا ہے اور اس کی قدرت کاملہ کا اعتراف کرتے ہوئے اس سے یوں عرض گزار ہوتا ہے کہ باری تعالیٰ اگر آپ چاہیں تو میرا کام ہو سکتا ہے ۔ بے شک آپ ہی کی طرف تمام کام لوٹا ئے جاتے ہیں۔ تو اللہ تبارک و تعالی بھی اس کی دعا رد نہیں کرتے کیونکہ اس نے خود ہی قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ ’’مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا‘‘ (القرآن)

لہذا ہمیں بھی ہر کام کرنے سے پہلے ان شاء اللہ کہنا چاہئے تاکہ ہمارا رابطہ عالم اسباب سے جڑ جائے اور کام ہوجائے۔

30 April, 2011

“Those are matters of the world, not matters of religion.”

“Those are matters of the world, not matters of religion.”

A highly respectable gentleman during a discussion on an important subject observes the following:

Yes, Islam is a major religion and its scriptures give a lot of guidance to mankind. That guidance is on various aspects of a man’s life. Religious matters are only one aspect. The overall guidance from religion is like a top level macro criteria (work hard, seek God’s help, be honest etc). But to be practical as we deal with and explore various aspects of our lives; economics, health matters / medicine, housing, transportation / engineering, food / agriculture, natural phenomenon / science; civic matters / law, politics etc, we have to expand each subject matter and develop expertise in those areas. 

Those are matters of the world, not matters of religion. To handle each of these respective areas we need leadership in them. The leadership in each area should be knowledgeable in the areas that they are leading. Thus a very learned leader in the field of Islamic theology can not lead in the field of science or economics because he/she is simply not knowledgeable in science and economics. How can one lead in a field where he does not have knowledge of that field? In fact this is how major mistakes with devastating results have occurred.

To say that by doing this we are separating matters of Duniya from the matters of religion is to confuse the subject. The Qur’an and the prophet themselves exhort man to develop learning and knowledge in each of the fields that form part of life.

If we use Urdu equivalents of “world” and “religion” it will obviously be Dunyaa and Deen respectively. Let’s once again read the sentence “Those are matters of the world, not matters of religion” and try our best to figure out if we are(n’t) dividing the two, Dunyaa from Deen.

While the beautiful principles of Islam guide the overall life, when we come at the micro level then a significant part of the same life immediately goes beyond the purview of those beautiful principles and becomes the “matters of the world, not matters of religion”. If it still remains within the purview of those principles, will we call it “matters of the world” or the “matters of religion”? There is something amiss here. And we need to stop here for a while.

In our life – the complete life – we are either following Islam or we aren’t following it. There is no other option and position. For instance, when we are on a road then either we are observing the traffic rules or we are violating them. One cannot say that today I have firmly decided to neither observe nor violate any of the traffic rules in my entire journey from Dubai to Abu Dhabi.

Is “learning and knowledge” required in one part of life and not in others? If someone begins to “develop learning and knowledge in each part of the fields that form part of life” because of the exhortation from Qur’an and the Prophet then how “economics, health matters/medicine, housing, transportation/engineering, food/agriculture, natural phenomenon/science; civic matters/law, politics etc” will be the “matters of the world, not matters of religion”? Can we argue that a rudimentary knowledge of these areas will be the “matters of religion” but the advanced knowledge and expertise in these very same areas will become the “matters of the world”?

The same gentleman in another message on  a different subject argues: “Time has come that these large Muslim organizations use their base in the community and resources to improve and modernize madrasas so that the madrasa graduates become productive members of society and are able to help- their own families and community.” Earlier it was suggested by him that “matters dealing with madrasaas” are “religious issues”. What will happen if the madrasaas are modernised? What is not happening now which will happen then? How will the “madrasa graduates” become “productive members of society”? What is meant by society (does it include “religious” as well as “non-religious issues”? Why aren’t they “productive members of society” now (if they aren’t)?

There is some serious problem with our worldview due to a faulty education system. We as a people have to come to terms with the reality that Islam has NOT established two different worlds, Deeni and Dunyaawi or Spiritual and Material. It has a unified outlook towards (the complete) life, hence our unflinching belief in Tauheed. Life is a single entity as is the Universe. If the value of ALL that we do is determined by our INTENTION and the ultimate purpose behind it, then how much valid should the division be?

The division of Dunayy and Deen is very deep, however. This is why those, too, keep dividing the two who think that they aren’t dividing them. It is a hindrance in developing a correct worldview and it makes us constantly contradict ourselves. Moreover, this division is a big check against excellence. This division has created self-doubt among the ‘modern’ educated and a sense of guilt in them. It has created a sense of detachment from life among the ‘traditionally’ educated. They both are INCOMPLETE PRODUCTS from a faulty industry.

Thanks and salaam.

Wasim

13 April, 2011

Young Russians in search of faith are turning to Islam

Young Russians in search of faith are turning to Islam

By Will Englund
Washington Post Foreign Service



Path to jihad: Russia's new generation of Muslims
In the Russian heartland, young people are discovering spiritual fulfillment by turning to Islam, the religion of their Tatar ancestors.

ALMETYEVSK, RUSSIA Rustam Sarachev should have had a hangover the first time he set foot in the central mosque here. He had wanted to throw a raucous party the night before, a send-off for himself on his way to Islam. But the guys he was with had mocked him for even thinking about the mosque, and had gone off drinking on their own.

Russia's new generation of Muslims


So here he was, regretfully clearheaded in the daylight, 500 rubles unspent on vodka and still in his pocket, heading up the steps of the big salmon-colored mosque that dominates one end of this minor oil city east of the Volga.

It was late September 2006, the beginning of Ramadan. As he looks back on it now, he remembers that he wasn't sure why he had decided to come, or what to expect. He was 17, at loose ends, a self-described hooligan, a troublemaker, starting to get hardened by a life that was heading for the verges of the law, yet still vulnerable to the insults and disdain that seek out young men with no future here.

When he walked through the great double door of the mosque, he was taking his first steps toward joining an intense Islamic revival here in the Muslim heartland of Russia that is drawing particular strength from its young people.

Sarachev was 2 years old when the Soviet Union collapsed, 5 when the first war in Chechnya broke out, 12 on 9/11. His whole life has been an era of cataclysms, of an old world being torn apart, of war against Muslims, at home and abroad. Old identities, old certainties, have proved empty. And now he was joining others here of his own generation who are finding, in religion, an alternate authority. They are joining a global community, and at a time when great passions are stirring that community.

They learn at the mosque that Allah is punishing Iraqis for their heresies. They learn that 9/11 was carried out by American agents, or maybe agents from somewhere else, to provoke a war against Muslims. But they learn, too, that those who want to go and join the fight in Afghanistan, or Pakistan- and young men who aimed to do precisely that have passed through Almetyevsk - are in error. This is not the time. Islam needs them here, in Russia.

Their faith, in any case, is not ignited by politics. If it were, the Russian authorities would have cracked down on the mosque long ago. Sarachev came up those steps, on that day four years ago, not out of anger but in search of a way out of the pointlessness of his own life.


Built in the 1990s with Saudi backing, the mosque makes a strong physical statement. Inside, it features intricate woodwork, handsome red and green carpets and painstakingly assembled blue tile mosaics. On holidays, believers pack its services. During afternoon prayers, as they face to the southwest, toward Mecca, a window to their right might give them glimpses of a glorious pearly pink sky, otherworldly almost, even as the setting sun glints off the five golden domes of the Orthodox church across the way.

"I was shocked," remembers Sarachev. "I couldn't understand where I was. There were only young people, all around. They treated me so well. I'd never been welcomed like that before."

He saw familiar faces. Almas Tikhonov, who had been a big partier and a roughneck, and then had dropped from sight, was there, praying. Sarachev was impressed by the way Almas looked; there was a compelling serenity about him.

In the days that followed, that picture lingered in Sarachev's mind. He decided to go back to the mosque, and then again, and again. He had to endure the jibes of his old friends, and that was hard - but maybe it stiffened his resolve, too. As he began to see them in a new light, it made it simpler to give up the drinking, the hanging out on street corners, the sneaking off to a village where they could party all night, away from parents' eyes. Sarachev eventually came to understand that the world is full of devils, and that the duty of a good Muslim is to overcome those devils.

And somewhere here, he knows, though he's still working it through in his own mind, lies the meaning of jihad. "It's a struggle against those who don't believe," he says. "It's not a test. Jihad is a war."

Sarachev is a Tatar. His ancestors converted to Islam in the 9th century, when Tatarstan was a powerful state in its own right. For the past 450 years, the Tatars have lived under Russian domination; proud of their heritage, they consider themselves the natural leaders of Russia's 30 million Muslims.

But Sarachev's forebears didn't practice Islam the way he understands it today. Over a millennium, Tatars had developed a rich and complicated theology, comfortable with rational thought and mindful of the need to coexist with the Christian Russians. In Kazan, Tatarstan's capital, the religious establishment endeavors to carry on that tradition today.

But Soviet hostility to religion left most Tatars with only a perfunctory sense of their own Muslim inheritance. Growing up, Sarachev remembers, religion meant grandparents and holidays, and little else. Yet even then, just after the collapse of the Soviet Union, Arab proselytizers had come to Tatarstan, and they were preaching a different sort of Islam - starker, simpler, more puritanical. It has taken root here, and it appeals powerfully to young people who, like Sarachev, are drawn to its order and rules, and to its purity.

Slow acceptance


Almetyevsk, a city of 150,000 with no history to speak of - it was founded in 1955 - lies among low brown ridges, a four-hour drive east of Kazan. It's not material poverty here that drives young Tatars to Islam, because oil and gas have brought prosperity, but a spiritual poverty in a country where every institution, from schools to hospitals to the police, is riddled with cynicism and corruption.

Sarachev's parents divorced when he was young. His mother works at a pipe factory; Sarachev has a job there now, too, operating a hydraulic press. He still lives at his mother's apartment.

When he embraced Islam he learned that everyone is born with an inner faith, "and it is the parents who turn a person away from religion." Not necessarily one's literal parents, he adds; it could be a metaphor for society. But it's little wonder that his own mother and father were unhappy with his religious awakening and rejection of the culture they lived in.

"They didn't understand," he says. "There were fights and quarrels. But of course they had been very mad at me when I was getting home late and drunk." So when they saw that that stopped, they started, slowly, to come around. Now, he says, if his mother sees him praying at home, she'll close the door and won't interfere. (She adamantly refused to be interviewed for this article.)

This year, for the first time, they gave him the money to buy a sacrificial sheep.

Nov. 16 was the day Muslims honored Ibrahim, who intended to slit his son Ismail's throat but sacrificed a ram instead. After an early-morning service at the mosque, a large crowd moved outdoors to a parking area for buses. Now it was filled with farmers' trucks, each carrying a dozen or so restless sheep. Under a damp sky, the chief imam, in a gray hat made from fetal lamb's skin, presided. With him stood the head of the city administration, the veterinary officer, and plainclothes leaders from the security services.

The sheep - more than 600 of them, each hobbled with three feet tied together - were carried to wooden pallets laid out on the ground, where their jugular veins were slashed. Blood flowed down gutters that ran the length of each pallet. At times a butcher would have to sit on an animal for a minute or more after its head was half severed, as it kicked and heaved.

Then the carcasses were skinned and cut into three equal parts: one for the purchaser, one for his relatives, and one for the poor.

"Those who cut a Muslim into three parts are much worse than those who cut a sheep into three parts," said the imam, Nail bin Ahmad Sakhibzyanov.

Sarachev went home happy, proud in the profession of his faith. The imam went home happy, too. It was the biggest slaughter yet in Almetyevsk.

Striving for faith


Sakhibzyanov, 53, studied to be an imam in what was then Soviet Uzbekistan. He says he dealt with the KGB agents who infiltrated religious schools in those days by telling them what they wanted to hear. What a man says, he suggests, is not necessarily what's in his heart.

Today, this is what Sakhibzyanov says: that his goal is to help Tatars regain their traditional religion. Yes, he studied in Saudi Arabia in the 1990s, and yes, the school he runs uses a Saudi curriculum. But naturally he subscribes to the Tatars' traditional Hanafi branch of Islam, he says; if he didn't, his school would lose its license. He only wants to help the wayward Tatars, buffeted by centuries of Russian and Soviet rule, find their way.

His opponents in Kazan say his Islam is Hanafi in name only, that it otherwise bears the hallmarks of its Arab - or Salafi - origins. They say its focus on Islamic purity is the flip side of intolerance toward other Muslims, and narrow-minded zeal.

"Almetyevsk is the center of Islamic radicalism in Russia," says Rafik Mukhametshin, rector of the Russian Islamic University in Kazan. "They're trying to return to a mythical Islam. And they're unpredictable because they refuse to learn from history."

Almetyevsk, he says, is the most dangerous spot in Russia.

And yet part of Islam's appeal for Sarachev was its promise of simple domestic happiness.

"I had a choice," he says. "Either the street - alcohol and cigarettes and all that stuff - or a very pleasant atmosphere and pleasant people."

Now, instead of partying, he plays on an all-Muslim rugby team. He drinks coffee instead of vodka, and where once he danced, now he likes to take walks. The job is just a job, but the pay allows him to spend convivial hours at the banya - the Russian sauna.

His new friends at the mosque have married, and they have jobs and kids and cars. Sarachev's aim is to live the good, respectable life. He sees Islam as the way to achieve it.

That's not exactly radical. But he knows, uneasily, that there's more to his Islam than that. Faith is difficult and much is demanded. Islam has powerful enemies, not only the non-believers who wage war on Muslims but also the devil that lives in everyone. Error is widespread, and Sarachev is keen to avoid it, if he can only be sure how.

Sakhibzyanov tells his followers that the struggle is between the soul and the brain - between faith, in other words, and thought. The Muslim must strive for faith.

If that's true, his detractors argue, it's no wonder the imam's Islam has such a strong appeal for those who learned their values on the street, in the with-us-or-against-us world at the margins of society.


But not every young worshiper here has that background. Guzel Sharipova, 23, was everything as a student that Sarachev was not; she studied chemistry on a full scholarship in Kazan, and graduated with highest honors. It was in Kazan that Islam found her, thanks to an Arab boyfriend. She was living with her great-aunt, Galima Abdullina, a retired schoolteacher, and began asking her about the prayers she recited. Eventually, she put on a veil.

"She was a girl who loved life, and suddenly she became so religious," says Enzhe Anisimova, Abdullina's daughter. "We watched her as a baby, and she was so beautiful, and spreading light. Now she's so serious. Islam is very close to me, but that doesn't mean that I accept everything. Something in it really attracts Guzel. But what is it? If she has found answers to the questions she was trying to find answers to, maybe that solved something for her."

Sharipova says, "Everyone has a time to come to Islam." She draws deep satisfaction from the rules it imposes. That frees up so much. She works now as a chemist - with her brain - but she gives her attention to her soul.

And where Sarachev hopes Islam will bring him modest comforts, Sharipova treasures the way it allows her to discard life's vanities. "I'm trying to spend time on only necessary things," she says.

New expectations


Rustam Sarachev came to the mosque knowing almost nothing about Islam. Now he knows that praying to ancestors, or saints, is the worst imaginable sin. He knows that being Muslim is more important than being a Tatar. He knows that the Russian special services don't like Islam because the alcohol and tobacco Muslims reject are big businesses. He knows those same special services dread the day when all people turn to Islam.

His ancestors, in centuries past, drank beer and mead at weddings and often sought the intercession of their forebears in prayer. Would Sarachev consider them Muslims if he met them today - or devils? In his earnest way, he's only beginning to deal with the difficult questions. He's happy that Islam is helping him find the answers.

"Everyone eventually asks, 'Why am I here? Why will I die? What will happen after I die?' You gradually start to understand who you are and why you were created."

It is, he says, to live a pure Muslim's life. And, through Islam, all is spelled out. "The prophet showed people everything - from how to go to the toilet to how to run a state." But there's still so much to get straight in his own mind.

Last year, Sarachev got to know some young men who wanted to pick up guns and go fight abroad. They weren't from the mosque. He thinks they had taught themselves Islam on the Internet. Sometimes, when they met on the street, they'd start urging him to go off and fight against Americans.

He says he was troubled by it, and as he describes it he still looks troubled by it. He's struggling to understand even now what's expected of him by his religion. He went to the mosque and asked the imams for advice.

They explained to him, he says, that these young men were mistaken. "Those people who say they want to fight, they're like foam on water. There's a lot of foam, but it's useless."

Eventually they went away, he doesn't know where. Sarachev, yearning to dig deeper into Islam, is still uncertain about jihad, and the fight against devils. "It's very complicated. I don't want to be wrong."

Sakhibzyanov knew about the would-be fighters. All Muslims, he says, know they are part of a larger community that must defend itself. But leaving Tatarstan to fight elsewhere is, he says, the wrong choice. "They are needed here."

The imam is a savvy navigator in a potentially hostile culture. Islam, he says, is a peaceful religion, violence is a sin and the task for Rustam Sarachev and other young Muslims is to keep studying and deepening their certainty in its purity and oneness. And then more will follow, and then more.

 

Talking About Muslims Is A Fashion

Talking About Muslims Is A Fashion

For long I have been wondering why we talk about Muslims so much? Now it appears to me that it is merely a fashion and a noble pastime. We get conditioned to this culture and fashion learning it very well from the older generations and the environments we grow in. We notice it at every level and in every place. All possible means and platforms are being used for talking about Muslims. One amount of talking leads to an increased amount of talking. It is one of the trendy things to do. Talking about Muslims is a fashion which is always in fashion.

Those who are well settled and have some or a lot of free time they indulge in this entertaining and self-aggrandizing exercise and earn some name and fame in doing so. They become the community leaders and have become uncountable. I sincerely wish we didn’t have so much concern about Muslims that we did not have time to find out the reasons of this concern. I wish we weren’t so busy treating this patient that we forgot to conduct some tests for diagnosing the disease first.

When we shed a lot of tears about Muslims it gives us sadistic delight. It shows that we are much better off than those wretched creatures. In other words we say, “See how different am I? I am a class apart! I am so much different!” Profuse talking about Muslims is an expression and reinforcement of a herd-mentality at its best or worst. It is symptomatic of the fact that we do not think twice about the things that we talk about and do. This is one of those fashions which is not getting old. Talking about Muslims is always in vogue.

We look for excuses to talk about Muslims – of which we get plenty. A recent example is the case of Anna Hazare. It provoked many to ask why there is no Anna Hazare in Muslims. I always wonder that those who yearn for Anna Hazares why don’t they become Anna Hazares themselves. They are the most qualified ones for the job because they know that there is a need for Hazares more than anybody else. It reminds me of a nikaah ceremony. The khateeb fervently prayed many times over that a Salahuddin Ayyubi is born to the newly married couples. I wondered why he did not have any such hope from the already married ones and why he did not become Salahuddin Ayyubi himself knowing the urgent need of one – more than anybody else.

The same applies to our yearning and crying for Sir Syed Ahmad Khans and Muhammad Iqbals. Those who lament for them are obliged to become a Syed and an Iqbal. They are obliged because they are the ones who realize their need more than anyone else. The ones who realize a particular need the most are most obliged to supply what is needed. If they do not become what they think is needed the most it will be a breach of trust and they will be held accountable for the absence of Syeds and Iqbals.

But our job ends at lamenting and praying. Why do we expect a lot from (other) Muslims (and not from ourselves) is not of much concern. We want different things from Muslims but don’t do anything different for that. We keep doing the same things and keep asking for different results. But this is not a concern. Because the concern for the Muslims is the only concern. The fashion of talking about the Muslims is always in fashion – come what may.

What is not in fashion is to find out what are the reasons of this talking and concern? We get different reasons for this – none of those qualifies to be called a reason. Poverty, backwardness and number (which is always less than desired) is not the prerogative of Muslims. If the economic condition of Muslims is the reason then what about those who are poorer than Muslims? They deserve to be talked about even more. If educational backwardness is the reason then they aren’t the only ones to occupy that rung.

As a small step towards reducing the abundant talks about Muslims I propose to ask what are the reasons behind talking about Muslims. I intend to ask this question a thousand times till I get a satisfying answer, in sha Allah.

Thanks and salaam.

Wasim

Followers