19 March, 2011

اسلامي ادب كي ترويج ميں اقبال كا كردار ‎

اسلامي ادب كي ترويج ميں اقبال كا كردار (حصّہ دوّم )

علامه اقبال
اقبال نے ادب اور شاعري كے بارے ميں اپنے تصورات كو تفصيل سے اپني شعري تصانيف ميں بيان كيا ہے. ان ساري تفاصيل كو سميٹنا تحصيل حاصل ہے . كيونكہ اقبال كے تصورات شعر و ادب پر متعدد مقالات و مضامين لکھے جا چكے ہيں . تاہم ان تصورات كا اجمالي ذكر بے محل نہ ہوگا. اس ضمن ميں اسرار خودي، زبور عجم ميں شامل بندگي نامہ اور ظرب كليم خصوصيت سے لايق توجہ  ہيں . اسرار ميں اقبال نے علم وفن كو حيات كے خادم اور خانہزاد قرارديا ہے." در حقيقت شعر و اصلاح ادبيات اسلاميہ" ميں انہوں نے بڑي تفصيل اور دلسوزي سے اعلي فضائل كو شعر وادب كا لازمہ اور جزواعظم قرار ديا ہے . ان كے نزديك شاعر كا سينہ حسن كا تجلي زار ہے . اس كے دم سے بلبل نوا آموز ہوتا ہے اور پھول كا رخسار اس كے غازے سے روشن ہوتا ہے . پھر اس قوم كا ماتم كرتے ہيں جس كا شاعر ذوق حيات سے منہ موڑ ليتا ہے . اس كا آئينہ بدصورت كو خوبصورت دكھاتا ہے. اس كا بوسہ پھول کی تازگي اور بلبل كے ذوق پرواز كو غارت كرديتا ہے . وہ سور سے رعنائي اور جرہ شاہين سے توانائي چھين ليتا ہے . وہ يوناني اساطير كي بنات البحر كي طرح جہازوں كي غرقابي كا باعث بنتا ہے . اس كے نزديك خواب،‌بيداري سے بہتر ہے . اقبال فرماتے ہيں كہ ايسے شاعر كے سايے بھی بچنا چاہيے:
از خم مينا و جامش الحذر
از می  آيينه فامش الحذر
كيونكہ اس كے نغمات دلوں کی حرارت کوسلب کرنے والے ہیں اور اس کے نتیجے میں تن آسانی اور ضعف اس قدر حاوی ہو جاتا ہے کہ ایسی شاعری کے متاثرین کو رگ گل سے باندھا اور نسیم سحر سے خستہ و خراب کیا جا سکتا ہے ۔ آخر میں شعر و سخن کی صلاحیت کے  حامل لوگوں کو تلقین کرتے ہیں کہ ان کا ادب فکر صالح سے فیض یاب ہونا چاہیے : 
اي ميان كيسہ ات نقد سخن
بر عيار زندگي او را بزن
فكر روشن بين عمل را رہبر است
چوں درخش برق پيش از تندر است
فكر صالح در ادب مي بايدت
رجعتي سوي عرب مي بايدت
مثل بلبل ذوق شيون تا كجا
در چمن زاران نشيمن تا كجا؟
اي ہما از يمن دامت ارجمند
آشيانے، برق و تندر در برے
از كنام جرہ بازاں برترے (1)
                                                                                                                                               جاری هے
ڈاکٹر تحسین فراقی


Syed  Aijaz Shaheen

کتابوں کا تعارف

، [قرآنی اصطلاحات: ایک حوالہ جاتی گائیڈ] عبدالرشید صدیقی۔اسلامک فاؤنڈیشن، لسٹر، برطانیہ،۔ صفحات: 296۔ قیمت: درج نہیں۔
قرآن کریم اور سیرت پاک کے حوالے سے اگر جائزہ لیا جائے تو ہرہفتے نہیں تو کم از کم سال کے 12 مہینوں میں کسی نہ کسی معروف رسالے میں تحقیقی مقالہ اور کسی معروف ناشر کے ذریعے کوئی علمی کتاب منظرعام پر آتی رہی ہے۔ لیکن اس کثرت کے باوجود قرآن کریم کے مضامین و موضوعات اور سیرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی جہات کا احاطہ کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ استنبول کے ایک عظیم تحقیقی مرکز میں 800 کے لگ بھگ قرآن کی تفاسیر ایک چھت کے نیچے پائی جاتی ہیں۔
زیرنظر کتاب جناب عبدالرشید صدیقی کی تازہ تالیف ہے۔ وہ ایک عرصے سے برطانیہ میں مقیم ہیں اور وہاں کی اسلامی سرگرمیوں سے وابستہ ہیں۔ کتاب کا مقدمہ ڈاکٹر سید سلمان ندوی نے لکھا ہے۔
انگریزی اب ایک تجارتی زبان کی حیثیت سے وہی مقام اختیار کرچکی ہے جو ایک طویل عرصہ لغتِ قرآن کو حاصل رہا، اس لیے مغرب ہی کا نہیں خود مشرق میں بھی ان اقوام میں جن کی سیاسی آزادی صرف اور صرف اسلام اور قرآن و سنت کی سربلندی کے لیے حاصل کی گئی ہو، نیز ایسی اقوام میں بھی ذہنی غلامی اور انگریزی کے فروغ کے سبب قرآن کریم اور اسلام سے واقفیت کے لیے ایسی کتب کی ضرورت میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے جو عام انگریزی سمجھنے والے کو اسلامی فکر اور قرآنی مضامین سے متعارف کرا سکے۔ ان معنوں میں نہ صرف یہ کتاب بلکہ اس نوعیت کی مزید کتب اس دور کی ضرورت ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اصل ماخذ سے براہِ راست تعلق کے بغیر اسلام کا صحیح فہم حاصل کرنا آسان نہیں ہے۔ ان اصطلاحات میں بعض بہت بنیادی ہیں مثلاً اللہ، دین، زکوٰۃ، جہاد، انسان، آخرت، حسنات، فلاح، دعوۃ، بِّر، اخوہ، صوم، صدقہ، ایمان وغیرہ۔
کتاب میں 140قرآنی اصطلاحات کا مفہوم انگریزی پڑھنے والے اور براہِ راست عربی مصادر تک نہ پہنچ پانے والے افراد کے لیے سادہ زبان میں بیان کیا گیا ہے۔ ہر اصطلاح کا لغوی معنی، اس کا قرآن کریم اور عربی میں متبادل اور قرآن کریم میں اس کے استعمال کا حوالہ دینے کے ساتھ اختصار سے معنی بیان کیے گئے ہیں۔ معنی بیان کرتے وقت یہ خیال رکھا گیا ہے کہ اس کے پڑھنے والے ان الفاظ کے بارے میں جن شبہات کا شکار ہوں انھیں بھی رفع کر دیا جائے مثلاً جہاد کے حوالے سے اس کے مختلف مفاہیم کو بیان کرکے سمجھایا گیا ہے کہ اس سے محض قتال اور قوت کا استعمال مراد نہیں ہے بلکہ یہ ایک جامع اصطلاح ہے۔ مجموعی طور پر یہ ایک قابلِ تحسین علمی کام ہے اور اسلام اور اسلامی فکر کو سمجھنے میں غیرمعمولی طور پر مددگار۔
انتہائی کامیاب کوشش میں بھی ہمیشہ مزید بہتری کی گنجایش رہتی ہے۔ اس کتاب کو آیندہ مزید بہتر بنانے میں اگر چند امور کا خیال رکھ لیا جائے تو ان شاء اللہ اس کی افادیت میں اضافہ ہوگا۔ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ ا ل ہ سے ال کے اضافہ سے اللہ کی اصطلاح بنی ہے(ص 11)۔ اللہ کا کوئی مصدر نہیں ہے۔ مصدر صرف الٰہ کا ہے اور وہ ا ل ہ ہے (ملاحظہ ہو تفسیر ماجدی)۔ صدقہ کا ترجمہcharityگو عبداللہ یوسف علی نے بھی کیا ہے لیکن یہ درست نہیں ہے (ص 202)۔ درست ترجمہ تحفہ یا ہدیہ ہوگا۔ مفہوم بیان کرتے ہوئے مصنف کو شاید مہر کا ذکر کرنا یاد نہ رہا اسے بھی صدقہ کہا گیا ہے، جب کہ وہ charity نہیں ہے اور خلوصِ نیت اور سچی خواہش کے اظہار کا نام ہے۔ اسی طرح زکوٰۃ کوalms کہنا (ص 268)گو مستعمل ہے لیکن اس کے مفہوم سے متضاد ہے۔ یہ خیرات نہیں ہے بلکہ عبادت اور حق ہے، یعنی right اور due۔ یہاں بھی غالباً عبداللہ یوسف علی صاحب کا ترجمۂ قرآن استعمال کرنے کے سبب مصنف نے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اس کے باوجود کتاب کی افادیت میں کمی واقع نہیں ہوتی اور خصوصاً نوجوان نسل کے لیے اس کا مطالعہ مفید رہے گا۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

تحریکِ احمدیت: یہودی و سامراجی گٹھ جوڑ، بشیراحمد، مترجم: احمد علی ظفر۔ ناشر: ادارہ اصلاح و تبلیغ، آسٹریلیا بلڈنگ، ریلوے روڈ، لاہور۔ فون: 37663896۔ صفحات: 987۔ قیمت: 300 روپے۔
مسلم اُمہ کو ہر زمانے میں مختلف فتنوں سے نبردآزما ہونا پڑا۔ ابتدائی زمانے میں مُسیلمہ کذاب نے جس جعلی نبوت کا اعلان کیا تھا، اس سلسلے کی ایک کڑی مرزا غلام احمد قادیانی کی شکل میں اہلِ ہند کو دیکھنے کوملی۔ دیگر جعلی نبوتوں کے برعکس مرزاے قادیان کی ہرزہ سرائی کو اس زمانے کی سپرطاقت تاج برطانیہ کی پشت پناہی حاصل تھی، مقامی سطح پر پنڈت جواہر لعل نہرو کی ہمدردی میسر تھی، اور آج کے مغربی سامراج کی طرف سے اسے مسلسل کمک بھی مل رہی ہے۔
کم و بیش سوا سو سال سے اس فتنے کی دل آزاریوں اور حشرسامانیوں پر اہلِ علم نے مختلف سطحوں اور مختلف حوالوں سے داد تحقیق دی، دینی اور سیاسی حوالے سے بھی بہت سارے گوشے وا کیے۔ بشیر احمد کی زیرتبصرہ کتاب: Ahmadiya Movement: British-Jewish Connection کے رواں اور شُستہ اُردو ترجمے پر مشتمل ہے۔ جس کے 28 ابواب میں دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ بہت سی ہوش ربا تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ یہ تفصیلات قادیانیت کے مغربی سامراجیوں اور یہودیوں سے گٹھ جوڑ کی گواہی پیش کرتی ہیں۔
جناب بشیراحمد ایک سنجیدہ محقق اور جاں کاہی سے مسئلے کی تہہ تک پہنچنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ اس کتاب میں انھوں نے ایک ایک مقدمے کو مکمل حوالے، ثبوت اور غیرجذباتی تجزیے سے اس طرح پیش کیا ہے کہ معاملات کے پس پردہ بیش تر کردار ترتیبِ زمانی کے ساتھ قاری کے سامنے آجاتے ہیں۔ فاضل مؤلف نے یہ کتاب ایک عالمِ دین کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک مؤرخ کی حیثیت سے مرتب کی ہے، اس لیے یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ کتاب فی الحقیقت قادیانیت کی ایک تاریخ ہے، جس کے آئینے میں اس باطل مذہب کے باطن کو دیکھا جاسکتا ہے۔ کتاب کی تقریظ ڈاکٹر محمود احمد غازی نے تحریر کی ہے۔ آخر میں قادیانی لٹریچر کے عکس، جامع کتابیات و مآخذ کی فہرست بھی درج ہے۔ (سلیم منصور خالد)

رسول اللہ کا طریقۂ حج، تالیف: مولانا مفتی محمد ارشاد القاسمی۔ ناشر: زم زم پبلشرز، نزد مقدس مسجد، اُردو بازار، کراچی۔ فون: 021-2725673۔ صفحات: 750۔ قیمت: 400 روپے۔
عازمینِ حج کے لیے راہ نما کتابیں ہرقسم کی دستیاب ہیں۔ عام ضرورت ایسی کتاب کی ہے جو ہاتھ میں لی جاسکے اور ہروقت اس سے رجوع کیا جاسکے۔ زیرتبصرہ کتاب اس سے کچھ مختلف ہے۔ اس میں مؤلف نے حج کے 5 ایام کے علاوہ، حج کے فضائل و ترغیب، عورتوں کے حج اور مختصراً زیارتِ مدینہ پر، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ایک ترتیب سے جمع کردیے ہیں اور ہرایک کے بعد فائدہ کے عنوان سے اس کی وضاحت کردی ہے۔ 30 صفحات کی فہرست سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ750 صفحے کی اس کتاب میں کتنی تفصیل سے تمام جنرئی مسائل تک زیربحث لائے گئے ہیں۔
حج کے دوران پیش آنے والے ہر طرح کے امکانات پر براہِ راست حدیث رسول کی رہنمائی مل جاتی ہے۔ اختلافی مسائل پر بھی سب کا موقف بیان کر کے اچھی بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب کو بجاطور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقۂ حج و عمرہ کے متعلق شمائل، سنن و احکام کا وسیع اور مستند ذخیرہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ (مسلم سجاد)

کلیسا سے واپسی، مرتب: عبیداللہ عابد۔ ناشر: کتاب سرائے، الحمدمارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: 042-37320318۔ صفحات: 232۔ قیمت: 150 روپے۔
اسلام کی قوتِ تسخیر کا اندازہ کرنا ہو تو اس کا ایک حوالہ نومسلموں کے حالاتِ زندگی اور قبولِ اسلام کے واقعات کا مطالعہ ہے۔ واضح رہے کہ اسلام کی طرف یہ رغبت ان حالات میں ہے کہ مغرب میں عام طور پر اسلام کے اصل تصور کو مسخ کر کے، مسلمانوں کو وحشی، خون کے پیاسے اور تنگ نظر قوم کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے۔ اسلام کی خاطر نومسلم جس طرح سے جان، مال، خاندان، کیریئر اور ہر طرح کی قربانیاں دیتے ہیں، اس سے اسلام کے دورِ عزیمت کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔
زیرنظر کتاب اسی موضوع کے تحت 32 افراد کے قبولِ اسلام کا ایک مطالعہ ہے۔ تاہم، اس کی انفرادیت یہ ہے کہ بیش تر واقعات کا تعلق عیسائی پادریوں کے قبولِ اسلام سے ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عیسائیت کے عقائد (بالخصوص تین خداؤں کا تصور، حضرت عیسٰی کا انسانیت کے گناہوں کی تلافی کے لیے قربانی دینا وغیرہ) عیسائی پادریوں کو بھی مطمئن نہ کرسکے۔ یہ عقیدہ بھی اُلجھن کا باعث ہے کہ گناہ کی معافی کے لیے کسی پادری کے سامنے اعتراف ضروری ہے، گناہ کے اعتراف کے لیے براہِ راست خدا سے رجوع نہیں کیا جاسکتا، جب کہ اسلام میں مذہبی پیشوا کا ایسا کوئی کردار نہیں ہے اور نہ کسی دوسرے کے سامنے گناہ کا اعتراف ہی ضروری ہے۔ براہِ راست اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی جاسکتی ہے۔ عیسائیت میں غوروفکر اور حقیقت کی تلاش کے لیے سوالات اُٹھانے کی بھی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، جب کہ اسلام کی تعلیمات، غوروفکر اور تدبر کی دعوت پر مبنی ہیں جو جدید ذہن کو اپیل کرتی ہیں۔ اسلام کی مقبولیت کا ایک راز یہ بھی ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ اس لحاظ سے بھی مفید ہے کہ اسلام پر اٹھائے جانے والے اعتراضات اور ان کا جواب بھی سامنے آتا ہے جس سے تقابلِ ادیان کے ساتھ ساتھ اسلام کی فوقیت بھی ثابت ہوتی ہے۔(امجدعباسی)

آدابِ شناخت، ڈاکٹر سید عبدالباری۔ ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 3108 وکیل والی گلی، کوچہ پنڈت، لال کنواں، دہلی ۶۔ صفحات:220۔ قیمت: 200 روپے۔
اُردو ادب کی دنیا، بڑی حد تک پاکستان اور بھارت کی طرح، دو الگ الگ دنیاؤں میں منقسم ہے، اس لیے اگر ڈاکٹر سید عبدالباری کا نام پاکستان کے ادبی حلقوں میں کسی قدر اجنبی محسوس ہو تو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ موصوف اُردو کے معروف ادبی نقاد ہیں۔ اوائل میں وہ ’شبنم سبحانی‘ کے قلمی نام سے زیادہ تر شعرگوئی کرتے تھے۔ اب گذشتہ 5، 7 برسوں میں ان کی متعدد تنقیدی کاوشیں (بشمول ان کے ڈاکٹریٹ کے مقالے کے) مطبوعہ صورت میں سامنے آئی ہیں (لکھنؤ کا شعروادب، 1857ء تک۔ لکھنؤ کے ادب کا ثقافتی و معاشرتی مطالعہ، 1947ء تک، ادب اور وابستگی، کاوشِ نظر، افکارِ تازہ، ملاقاتیں وغیرہ۔ ان میں سے بعض پر ترجمان میں تبصرہ بھی ہوچکا ہے)۔ فی الوقت وہ ماہنامہ پیش رفت دہلی کے مدیر اور ادارہ ادبِ اسلامی ہند کے صدر ہیں۔
ادبی تنقیدی مقالات کا زیرنظر پانچواں مجموعہ انھوں نے ہم فکر ادبی شخصیات ڈاکٹر ابن فرید اور ڈاکٹر عبدالمغنی سے منسوب کیا ہے۔ مرحومین کی طرح سید عبدالباری بھی ادب میں مثبت اور تعمیری نظریات و اقدار کے قائل ہیں۔ بجاطور پر وہ محسوس کرتے ہیں کہ اُردو کی موجودہ ادبی تنقید زوال پذیر ہے، کیوں کہ ماضی کے برعکس موجودہ تنقید میں کوئی تعمیری، متوازن اور شائستہ طرزِ فکر سامنے نہیں آسکا۔ پروفیسر محمود الٰہی کے بقول ڈاکٹر سید عبدالباری حق و ناحق اور خیروشر کا ایک متعین پیمانہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنے قلم کو جاہ و منصب کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ اخلاص کے ساتھ ادب کی بے لوث خدمت انجام دیتے رہے ہیں۔
مجموعے کا پہلا مضمون ’اکیسویں صدی میں ادب کی اہمیت‘ نہایت فکرانگیز ہے۔ انھوں نے مستقبل کی ادبی جہات و اقدار کی ممکنہ سمت نمائی کی ہے۔ انھیں کچھ تشویش بھی ہے مگر وہ پُرامید ہیں کہ ’’اہلِ قلم کی ایک معتدبہ تعداد درباری نفسیات کی گرفت میں نہ آسکے گی اور وہ حقیر مفادات سے اُوپر اُٹھ کر عام انسانوں کی بہی خواہی اور بلندمقاصد کے احترام کو مدنظر رکھ سکے گی (ص 13)۔ معروف ترقی پسند شاعر مجروح سلطان پوری کے بارے میں انھوں نے انکشاف کیا ہے کہ آخری دور میں ان پر اشتراکیت کا طلسم زائل ہوچکا تھا اور مجروح اپنی اصل سے وابستگی کو اپنے لیے باعثِ فخر تصور کرتے تھے۔ (ص 81)
بعض مضامین کا تعلق چند ادبی شخصیات (غالب، میرانیس، شبلی، ابوالحسن علی ندوی، جگن ناتھ آزاد، کیفی اعظمی، عرفان صدیقی، مجروح سلطان پوری) اور ان کی تخلیقات سے ہے اور بعض کا تعلق ادب اسلامی کی تحریک کے وابستگان (سہیل احمد زیدی، رشیدکوثر فارقی، طیب عثمانی، ابوالمجاہد زاہد، ابن فرید، علقمہ شبلی، حفیظ میرٹھی) سے___ (رفیع الدین ہاشمی)

جیلانی بی اے، حیات اور ادبی خدمات، بشیراحمد منصور۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ صفحات: 208۔ قیمت: 150 روپے
جیلانی بی اے (27 اکتوبر 1921ء ۔ 19 جنوری 1990ء) ایک بلندپایہ ادیب اور منجھے ہوئے افسانہ نگار تھے۔ عمر کا آخری حصہ کوچۂ صحافت میں گزرا۔ اس کے ساتھ وہ جماعت اسلامی کے ایک نمایاں راہ نما کی حیثیت سے بھی قابلِ قدر خدمات انجام دیتے رہے۔جماعت میں امیرضلع فیصل آباد، امیرضلع لاہور اور امیرصوبہ پنجاب کی حیثیت سے ذمہ داریاں ادا کیں۔ صحافت میں وہ ہفت روزہ ایشیا کے مدیر رہے۔ صحافت میں اسلام کی سربلندی اور پاکستان کی ترقی کو مرکزی حیثیت دیتے تھے۔ اس طرح جیلانی بی اے کی ساری زندگی بامقصد حیات کا ایک نمونہ ہے۔ وہ ایک مقصدیت پسند ادیب تھے۔اسلامیہ کالج لاہور کے زمانۂ متعلمی میں مولانا مودودی کے براہِ راست شاگرد رہے۔ اس نسبت کو انھوں نے عمربھر مولانا مودودی کے راستے پر چل کر بخوبی قائم رکھا۔
بشیراحمد منصور نے زیرنظر کتاب میں جیلانی بی اے کے مذکورہ بالا حوالوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی حیات و خدمات کا جائزہ لیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ کتاب ایک تحقیقی مقالہ ہے جو ایم فل اُردو کی سند حاصل کرنے کے لیے تحریر کیا گیا تھا۔ اب اسے کتابی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔ مصنف نے کتاب کو چھے ابواب میں منقسم کیا ہے، جن میں جیلانی بی اے کی سوانح اور شخصیت، ان کی افسانہ نگاری، اُن کی مضمون نگاری اور اُن کے قلم سے نکلنے والی دیگر اصنافِ نثر (ترجمہ، تلخیص، رپورتاژ، سفرنامہ، تعزیتی حاشیے اور صحافتی تحریریں)، نیز اُن کے اسلوبِ بیان کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ آخری باب اُن کی مجموعی علمی و ادبی خدمات کے جائزے پر مبنی ہے۔
بشیر منصور نے مقالہ بڑی سلیقہ مندی سے مرتب کیا ہے۔ ان کی یہ ادبی کاوش اس اعتبار سے مستحسن ہے کہ انھوں نے ایک ایسے بلندپایہ ادیب اور افسانہ نگار کو، جو اَب تک گوشۂ گم نامی میں رہا، علمی و ادبی دنیا سے متعارف کروایا اور اس کی علمی و ادبی خدمات کا جائزہ پیش کیا۔ گو، اس مقالے سے جیلانی صاحب کے ادبی اور فنّی کمالات پوری طرح ظاہر نہیں ہوتے، تاہم اُن پر کام کرنے والوں کے لیے یہ کاوش دلیلِ راہ کا کام دے گی۔ معیارِ اشاعت اطمینان بخش ہے۔ موضوع اور شخصیت سے سرورق کی مناسبت قابلِ داد ہے۔ (ساجد صدیق نظامی)
تعارف کتب
Oبلغ العلٰی بکمالہ ،خورشید ناظر۔ ناشر: نشریات، 40۔اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: 556۔ قیمت: درج نہیں۔ [سرورق پر ’’اُردو میں ساڑھے سات ہزار اشعار پر مشتمل منظوم سیرت نبوی کا ایک مستند شاہکار‘‘ کے الفاظ درج ہیں۔ کُل 56 باب ہیں اور ہر باب کا عنوان کسی نہ کسی مصرعے کو بنایا گیاہے۔ چونکہ خورشید ناظر کی اس کاوش کی بنیاد آنحضور سے سراسر محبت و عقیدت کے جذبات ہیں، اس لیے یہاں شاعری کی فنی خوبیاں تلاش کرنا قرینِ انصاف نہ ہوگا مگر مصنف کی لگن اور محنت قابلِ داد ہے۔ پروفیسر عبدالجبار شاکر کا فاضلانہ مقدمہ (35صفحات) سیرت النبی کے لٹریچر کا ایکجامع احاطہ پیش کرتا ہے۔]
O مسجد کے فضائل و احکام ، مولانا مفتی محمد ارشاد۔ ناشر: زم زم پبلشرز، شاہ زیب سنٹر نزد مقدس مسجد، اُردو بازار، کراچی۔ صفحات: 168۔ قیمت: 150 روپے۔ [مسجد کی تعمیر، صفائی، آبادی، آدابِ مسجد، عبادت کا طریقہ، خواتین اور مسجد، مسجد میں دعائیں، جوتا کیسے رکھیں، بچے مسجد میں، دنیاوی امور اور مسجدوغیرہ۔ غرض کتاب اسی طرح کے 172 احادیثی موضوعات اور عنوانات پر مشتمل ہے۔ مرتب جون پور، یوپی، بھارت کے ایک عالم ہیں۔ جن کا خیال ہے کہ ’’موضوع کے متعلق ایسی جامع ترین کتاب شاید آپ [کہیں سے] نہ پاسکیں‘‘۔]
Oمسلمان خواتین کی دینی و علمی خدمات ، پروفیسر سید محمدسلیم۔ ناشر: زوار پبلی کیشنز، اے۔4 / 17، ناظم آباد 4، کراچی 74600۔ فون: 6684790۔ [مصنف مرحوم کی یہ نہایت مفید کتاب پہلی بار ربع صدی قبل شائع ہوئی۔ اب تیسری بار چھپی ہے۔ مصنف کی غرض یہ تھی کہ اسلامی تہذیب کی علَم بردار خواتین کے کردار و گفتار و اعمال کی ایک جھلک قدرے وسیع تناظر میں پیش کرے۔ عالمِ اسلام بشمول برعظیم میں علومِ قرآن، حدیث، فقہ، شعروادب، تاریخ، فلسفہ، ریاضی، خطاطی، زراعت، تجارت وغیرہ مختلف شعبوں کی ماہر خواتین کا دل چسپ تذکرہ ___ مختصر مگر جامع کاوش۔ آخر میں سید سلیمان ندوی کا مضمون ’خواتین اور جنگی تعلیم‘ شامل ہے۔]
O جنت کے پھول از گلدستۂ رسول، تالیف:مفتی محمدمسلم منصوری۔ ناشر:ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ صفحات: 144۔ قیمت: 100 روپے۔ [زیرنظر 40 احادیث کے مجموعے مرتب کرنے کی روایت کے تسلسل میں ’اربعین الاطفال‘ کے عنوان سے مرتب کیا گیا ہے۔ بچوں کے حوالے سے اس نوعیت کامجموعہ کہیں کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔مؤلف نے ہر حدیث کی تخریج ، تشریح اوردیگر احادیث کاتذکرہ اورمستند حوالہ جات کااہتمام بھی کیا ہے۔ بچوں کے فرصت کے حوالے سے والدین کے لیے ایک مفید راہ نماکتاب تیار ہوگئی ہے۔]
O سرمایۂ اعتبار ، رئیس احمد نعمانی۔ ناشر: مرکز تحقیقات فارسی، کلچرل قونصلر، سفارت خانہ اسلامی جمہوریہ ایران، نئی دہلی۔ صفحات:186۔ قیمت: درج نہیں۔[علی گڑھ میں مقیم جناب رئیس نعمانی معروف ناقد اور فارسی شاعر اور متعدد کتابوں کے مؤلف ہیں۔ یہ ان کی منتخب فارسی شاعری (منظومات، غزلیات، تعزیتی نظمیں وغیرہ) کا مجموعہ ہے۔ اہلِ ذوق اور فارسی خواں استفادہ کرسکتے ہیں۔]
O نخل اُمید کا خوش رنگ ثمر ،ڈاکٹر عبدالقدیر اصغر۔ ترتیب و تدوین: ڈاکٹر ممتاز عمر۔ ملنے کا پتا: 475۔ٹی، کورنگی نمبر 2، کراچی۔صفحات: 138۔ قیمت: بلامعاوضہ۔ [مؤلف نے اپنے والد ڈاکٹر عبدالقدیر اصغر کا مجموعۂ کلام مرتب کیا ہے جو پختہ اور مقصدیت کا حامل ہے۔ منفرد لہجہ، روایتی شاعری سے مختلف ہے، ایک طرح سے آپ بیتی اور عصرحاضر کے ظلم و جبر کے خلاف چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔]



Syed  Aijaz Shaheen

جوامع الکلم

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ کے کچھ بلندمرتبہ فرشتے ہیں جو زمین میں چلتے پھرتے ذکر کی مجالس تلاش کرتے ہیں۔ پھر جب کوئی مجلسِ ذکر پا لیتے ہیں تو ان کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو اپنے پروں سے ڈھانپ لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ آسمان دنیا تک پہنچ جاتے ہیں۔ جب مجلس ختم ہوجاتی ہے تو وہ آسمان کی طرف چلے جاتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتے ہیں، درآں حالیکہ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں، تم لوگ کہاں سے آرہے ہو، تو وہ جواب دیتے ہیں: ہم تیرے ایسے بندوں کے پاس سے آرہے ہیں جو تیری تسبیح و تحمید کرتے ہیں، تکبیریں پڑھتے اور لا الٰہ الااللہ کہتے ہیں اور تجھ سے سوال کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں: وہ مجھ سے کیا سوال کرتے ہیں؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ: تجھ سے تیری جنت کا سوال کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں: کیا انھوں نے میری جنت کو دیکھا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں: نہیں، اے رب! اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں: وہ کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں؟ فرشتے جواب دیتے ہیں: آپ کی دوزخ سے۔ اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں: کیا انھوں نے میری دوزخ کو دیکھا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں: نہیں، اے رب! اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں: پھر ان کا کیا حال ہوگا اگر وہ میری آگ کو دیکھیں؟ وہ جواب دیتے ہیں: وہ آپ سے استغفار کرتے ہیں۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ان کو بخش دیا اور ان کے سوال کو پورا کر دیا اور جس چیز سے پناہ مانگتے ہیں اس سے انھیں پناہ دے دی۔ وہ کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ان میں ایک خطاکار آدمی بھی ہے جوراہ گزر رہا تھا کہ ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اسے بھی بخش دیا، یہ وہ لوگ ہیں جن کا ہم نشین ناکام نہیں ہوتا۔ (مسلم، حدیث ۶۸۳۹)
اللہ کا ذکر کرنے والوں کا اتنا اُونچا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے ان کے فضائل کو بیان فرماتے ہیں، اور ان کا درجہ اس قدر بلند ہے کہ ان کے ساتھ ان کے ہم نشین کی بھی بخشش ہوجاتی ہے۔ پس جو اللہ کے ہاں اپنا ذکر کرانا چاہیں انھیں چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں، اس کی اطاعت و بندگی میں لگ جائیں۔ اس مقصد اور مشن میں لگ جائیں جس کی خاطر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، جس طرح رسولؐ اللہ نے ذکر کیا اس طرح سے ذکر کریں۔ آپؐ نے اللہ تعالیٰ کے دین کو قائم کیا، اسے غالب کیا، اسے ریاست کا دین بنایا۔ یہ ذکر کامل ذکر ہے، جو اس کامل ذکر کو اپنی راہ بنائیں۔ اللہ کے ہاں ان کا ذکر شروع ہوجائے گا اور وہ اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں میں شامل ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ اپنے ذکر اور اطاعت کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
۞
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ تین آدمی ایسے ہیں جن کی نماز قبول نہیں ہوتی: ۱۔ جو کسی قوم کی امامت کے لیے آگے بڑھے درآں حالیکہ لوگ اسے ناپسند کرتے ہوں، ۲۔جو آدمی نماز کو بلاعذر قضا کرنے کے بعد پڑھے، ۳۔ تیسرا وہ شخص جو آزاد آدمی کو اپنا غلام بنا لے۔ (ابوداؤد، حدیث ۵۹۳)
آدمی کو چاہیے کہ کسی بھی ایسے کام سے پرہیز کرے جو اس کی نماز کی قبولیت کی راہ میں رکاوٹ بن جائے۔ ان تین برائیوں کو بطور مثال کے ذکر کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ بہت سی برائیوں کا بھی ذکر آیا ہے کہ ان کے مرتکب کی نماز قبول نہیں ہوتی، مثلاً شراب، جوابازی وغیرہ۔ اس لیے تمام برائیوں سے بچنا چاہیے تاکہ نماز کی قبولیت کی راہ میں کوئی بھی رکاوٹ نہ رہے، کیونکہ نماز تمام بے حیائیوں اور منکرات سے روکتی ہے (القرآن)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کی نماز اسے بے حیائی اور برائی سے نہ روکے، اس کی نماز کوئی نماز نہیں ہے۔
۞
حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت زیادہ دعائیں کیں۔ ہمیں ان میں سے کچھ بھی یاد نہ ہوسکا۔ اس صورت حال کی آپؐ سے شکایت کی۔ آپؐ نے فرمایا: میں تمھیں ایسی دعا نہ بتلاؤں جس میں یہ ساری دعائیں جمع ہوجائیں؟ تم یوں دعا کرو:
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْءَلُکَ مِنْ خَیْرُ مَا سَأَلَکَ مِنْہُ نَبِیُّکَ مُحَمَّدٌ وَنَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّعَا اسْتَعَاذ مِنْہُ نَبِیُّکَ مُحَمَّدٌ وَاَنْتَ الْمُسْتَعَانَ وَعَلَیْکَ الْبَلَاغُ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ (ترمذی، حدیث ۳۵۲۱) اے اللہ! ہم آپ سے وہ تمام بھلائیاں مانگتے ہیں جو تجھ سے تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مانگی ہیں، اور ان تمام برائیوں سے جن سے تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی ہے، پناہ مانگتے ہیں۔ تُو ہی مددگار ہے، مرادوں تک پہنچانا بھی تجھ پر ہے اور کسی طرف پھرنا اور قوت نہیں مگراللہ کی مدد سے۔
کیسی جامع دعا ہے! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اُمت کے ساتھ کیسا پیار ہے، اور آپؐ نے اُمت کے لیے کس قدر آسانیاں فراہم کر دی ہیں۔ یہ حدیث اس کا بہترین نمونہ ہے۔
۞
حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ایک شخص اللہ تعالیٰ کے لیے ایک کام کرتا ہے اور لوگ اس سے اس کام کی وجہ سے محبت کرتے ہیں، تو آپ ؐ نے فرمایا: یہ مومن کے لیے دنیا میں نقد بشارت ہے۔ (ابن ماجہ، حدیث ۴۲۲۵)
جو لوگ نیکی اور بدی اور نیک و بد میں تمیز کا مادہ رکھتے ہیں وہ نیک لوگوں سے محبت کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ تعلق قائم کرتے اور ان کے ساتھ ہمدردی و غم گساری کرتے ہیں۔ ان کی مدد کرتے اور ان سے مدد لیتے ہیں۔ ان کو دوسروں سے آگے کرتے ہیں، بدکاروں کو پیچھے کرتے ہیں۔ اس طرح پورے معاشرے کو اسلامی بنانے کی راہ پر چلتے ہیں۔ جن اہلِ ایمان سے لوگ محبت، اعزاز و اکرام کا سلوک کریں انھیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے، اور انھیں اللہ تعالیٰ کی بندگی پر اپنی کمرہمت باندھ کر رکھنی چاہیے کہ یہی اصل شکرگزاری ہے۔
۞
حضرت سھل بن حنیفؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے شہادت کا سوال کرے، اللہ تعالیٰ اسے شہادت کے مرتبے پر فائز کر دیں گے، اگرچہ اسے اپنے بستر پر موت آئے۔ (ترمذی، کتاب الجہاد، حدیث ۱۶۵۳)
یہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت ہے کہ وہ بندے کو محض کام کے ارادے پر اس کام سے سرفراز فرما دیتے ہیں چاہے وہ عملاً اس کام کو سرانجام دے سکا ہو یا نہ دے سکا ہو۔ شہادت کے سچے طلب گار کو شہیدوں کی صفوں میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ شہادت کے مرتبے پر فائز ہونا کسی مومن کے لیے کتنا مشکل ہے۔ کیا وہ کام جو محض ارادے سے حاصل ہوجائے مشکل شمار ہوتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے بلند درجات کو کس قدر آسان بنا دیا ہے۔ بس خلوص، ہمت اور جذبے کی ضرورت ہے۔ بے شمار خوش نصیب اپنے گھر اور ماحول میں چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے شہادت کا مقام حاصل کرلیتے ہیں۔

15 March, 2011

Stones and stars belief shirk

Stones and stars belief shirk 

syed abdul khaleq



Allah says in the Holy Quran Chapter 3 Surah Ale Imran verses160:
If Allah helps you, none can overcome you!  And if Allah forsakes you, who is there, then, after Allah that can help you?  Therefore, the true believers should trust in Allah Alone.

Allah says in the Holy Quran Chapter 10 Surah Yunus verses 106-107:
And do not call besides Allah, any being that can neither do you any good nor any harm.  For if you will do so, you shall be one of the doers of wrong (shirk)!  If Allah afflicts you with a calamity, there is none to remove it, but He Himself.  Likewise, if Allah wills to bestow a favor on you, there is none to withhold Allah’s Bounty. He bestows His Bounty on anyone of His servants He wills.  And He is The Forgiving, The Merciful.

Allah Says in the Holy Quran Chapter 6 Surah Anaam verse 17:
17      If Allah touches thee with affliction none can remove it but He; if He touches thee with happiness He hath Power over all things.

Allah Says in the Holy Quran Chapter 35 Surah Fatir verse 2:
2        What Allah out of His Mercy doth bestow on mankind, there is none who can withhold: what He doth withhold, there is none can grant apart from Him: and He is the Exalted in Power, Full of Wisdom.

Dear and beloved brother in Islam, everything, absolutely everything that takes place in the Universe happens with the precise Will and Permission of Allah Subhanah Alone, for He Alone is the Owner of All Strength and All Power. 

Allah is our witness brother, no stone, no stars, no lines in one’s palms, absolutely nothing of the ‘unseen’ except Allah Subhanah our Lord and Creator has the Power to bring about any good or harm on its own!

To believe that some stones (or anything else in creation) can bring about any good to someone in the ‘unseen’, or to believe some stones (or anything else) can save one from any harm, or some stones (or anything else) have the power by themselves to influence absolutely anything in one’s lives or one’s behavior, etc….is a manifest act of disbelief and ‘shirk’!  Nothing, absolutely nothing in the Universe has the Power or the Strength or the Ability to bring about any good or harm upon anyone in the ‘unseen’ except the Lord Most Majestic, Most Supreme Alone; thus the believers who sincerely fear Allah and the Last Day should keep their full trust and belief in Him and Him Alone.

Sahih Muslim Hadith 133      Narrated by Abu Hurayrah
The Messenger of Allah (saws) said:  “Don't you know what your Lord said?    Your Lord observed:  ‘I (Allah)  have never endowed My bondsmen with a favor,  but a section amongst them disbelieved it,  and said: stars, it was due to the stars!’”

One’s date of birth, the positions of the stars on that particular day, and the stones have absolutely no relation to each other! If one were to believe that a stone (or anything else in creation) can bring about some good or remove some harm …. such a belief would constitute a clear and manifest act of the abomination and unforgivable crime of  ‘shirk’ in the Sight of Allah Subhanah; and any believer who sincerely believes in Allah and the Last Day must absolutely abstain from all such false and baseless beliefs!

Allah says in the Holy Quran Chapter 39 Surah Zumar verse 65-66:
If you commit ‘shirk’ all your works will be rendered vain and you will be among the losers.  Therefore,  you should worship Allah Alone,  and be among His grateful servants.

Allah says in the Holy Quran Chapter 5 Surah Maidah verse 72:
Whoever commits ‘shirk’ (invoking anything with Allah),  Allah shall forbid for him Paradise ,  and Hell shall be his abode.  And for such wrong doers there will be no one to help.

Allah says in the Quran: Chapter 4 Surah An-Nisa Verse 48
Shirk (associating other deities with Allah) is the only sin that Allah does not forgive, and He forgives, whomsoever He pleases, sins other than this.  For whosoever associates any other partner with Allah, does indeed forge a big lie and commits the most heinous sin

If one trusts, obeys, and follows the guidance and commands of Allah and His Messenger (saws),   one can be assured of never ever being misled;   but if one believes, obeys and follows any other guidance, other than that of Allah and His Messenger (saws), one can be assured of being led astray.  

Allah Alone Knows Best and He is the Only Source of Strength.

Your brother and well wisher in Islam,

04 March, 2011

مشترکہ تہذیب- روایت اور حقیقت

مشترکہ تہذیب- روایت اور حقیقت

٭ پروفیسر علی احمد فاطمی
ہندوستان کے مشترکہ تہذیب کی عوامی مقبولیت کے شاعر نذیر بنارسی پر لکھتے ہوئے مشترکہ تہذیب کے بے مثال شاعر فراق گورکھپوری نے کہا تھا: ”ہندوستان محض ایک جغرافیائی لفظ یا لغت نہیں ہے بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے جسے جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ “ حقیقتیں زندہ ہوتی ہیں اپنی معاشیات سے اور اپنی تہذیب سے۔ میں نے معاشیات کا لفظ پہلے اس لیے استعمال کیا ہے کہ میں مارکس کے ان جملوں پر یقین رکھتا ہوں کہ معاشی خوشحالی تہذیب کے ارتقا میں معاون ہوتی ہے اور بدحالی اسے زوال کی طرف لے جاتی ہے۔ ہندوستانی عوام کے لیے محض اتنا جاننا کافی نہیں ہے کہ وہ ہندوستان کے اندر رہتے ہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ ہندوستان بھی ان کے اندر ہے۔ یعنی ہندوستان کی تاریخ اور تہذیب ےہاں پر میرا موضوع تہذیب زیادہ ہے اور اس سے زیادہ مشترکہ تہذیب اس لیے میں فراق کے ہی ایک شعر سے اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتا ہوں
سرزمینِ ہند پر اقوام عالم کے فراق
قافلے آتے گئے ہندوستان بنتا گیا
صدیوں میں ہندوستان بننے کا عمل قدیم وجدید تہذیب کے ہم آہنگ ہونے کا عمل۔ ہند آریائی تہذیب کے شیر وشکر ہونے کی داستان خاصی قدیم ہے جسے دہرائے جانے کا وقت ےہاں نہیں ہے۔ بس میں اردو شعرو ادب کی چند جھلکیاں پیش کروں گا جو نئی تو نہیں ہیں لیکن جن کا دہرایا جانا بہت ضروری ہے ایک ایسے وقت اور ایسی جگہ پر جہاں کچھ لوگ وحدت انسانی اور وحدت ہندوستانی کو الگ الگ دیکھنے پر مصر ہیں جو بے حد مضر ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ :
چمن میں اختلافِ رنگ و بو سے بات بنتی ہے
تمھیں تم ہو تو کیا تم ہو ہمیں ہم ہیں تو کیا ہم ہیں
اردو زبان و ادب کے حوالے سے مشترکہ تہذیب کے حوالے سے گفتگو کرنا ایسا ہی ہے جیسے شیریں میں شکر کو تلاش کرنا اس لیے کہ اردو اور مشترکہ تہذیب لازم و ملزوم ہیں۔ ایک ہی سکے کے دو پہلو۔
اردو کے ابتدائی شعراءکا کلام ملاحظہ کیجئے ان میں بیشتر کا کلام دوہے کی شکل میں ملتا ہے۔ سودا حاتم، انشائ، نظیر وغیرہ کے ےہاں دوہے ملتے ہیں اور بالکل ہندوستانی و زمینی تہذیب میں رچے ہوئے۔ ولی دکنی سے قبل اردو کی بیشتر شاعری میں چھند اور دوہے ہی نظر آتے ہیں۔ ولی کے آنے کے بعد اس میں ایرانی کلچر کے اثرات نظر آنے لگتے ہیں لیکن اس کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس میں مقامی اور مشترکہ رنگ نہیں رہ گیا ، ایسا ممکن ہی نہ تھا کہ ہیئت کچھ بھی ہو شعر و ادب مقامیت سے کبھی الگ نہیں ہوپاتے۔ یہ فطری طور پر ممکن ہی نہیں اور نہ ہی فکری طور پر کہ مقامیت سے ہی آفاقیت کا سفر طے ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جو جہاں کا ہے اگر وہیں کا نہیں ہے تو پھر کہیں کا نہیں ہے۔
بابائے اردو عبدالحق نے ایک جگہ صاف طور پر کہا ہے کہ اردو خالص ہندوستانی زبان ہے تو اس کی گرامر بھی ہندوستانی ہونی چاہیے اور اس کا کلچر بھی ۔ گرامر کا معاملہ بحث طلب ہوسکتا ہے لیکن کلچر کے بارے میں کوئی بحث نہیں ہے کہ اردو ادب کا خمیر ہی مشترکہ کلچر سے اٹھا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ تہذیب کا معاملہ اکثر دو سطحوں پر چلتا ہے ایک اوپری سطح پر جلدی سے نظر آنے والا اور دوسرا اندرونی سطح پر جذب اور پیوست جو بظاہر نظر نہیں آتا۔ اردو شعرو ادب میں ا بتدا سے ہی یہ دونوں سطح کے کلچر متوازی طور پر ساتھ ساتھ رہے لیکن یہ الگ بات ہے کہ مفاد پرست طبقہ نے نچلے طبقہ کے کلچر کو منہ نہیں لگایا۔ ےہی وجہ ہے کہ غالب کے دوست نواب مصطفی علی خاں شیفتہ نے جب گلشن بے خار تذکرہ لکھا تو عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی کا ذکر تک نہ کیا کہ وہ نچلے درجے کا عوامی شاعر ہے حالاں کہ اس سے قبل استاد سخن میر تقی میر کہہ گئے تھے
شعر میرے ہیں گو خواص پسند
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے
تہذیب کی طرح ادب کا وسیع اور ہمہ گیر تصور طبقوں کی نمائندگی کے بغیر پورا نہیں ہوتا۔ تاریخی اور کلاسیکی ادب خواص اور عوام دونوں میں اپنی جگہ بناتا ہے اور غیر طبقاتی ہو کر لازوال ہوجاتاہے جس میں صرف فکر و خیال ، نظریہ و فلسفہ ہی نہیںہوتا بلکہ معاشرت ۔ ثقافت، رہن سہن، رسم و رواج، تیج تیوہار سبھی کچھ آجاتے ہیں اس نقطہ نظر سے اگر ہم صرف نظیر اکبر آبادی اور جعفر زٹلی کو ہی لے لیں تو اردو کی ہندوستانیت یا ہندوستان کی زمینی معاشرت اور مشترکہ ثقافت کی بھرپور تصویر نظر آتی ہے۔ ایک مسلمان شاعر ہوتے ہوئے بھی نظیرنے ہولی پر گیارہ نظمیں۔ دیوالی پر دو نظمیں، راکھی پر ایک نظم۔ کنھیا جی کے جنم ۔ شادی بیاہ تک۔ ایک نظم تو کنھیا جی کی بانسری پر بھی ہے اس کے علاوہ ہر کی تعریف ۔ بھیمروں کی تعریف۔ مہادیو کا بیان۔ جوگی جوگن وغیرہ اسی طرح میلے ٹھیلے میں بلدیوجی کا میلہ۔ تیراکی کا میلہ وغیرہ بھی جن میں ہندو مذہب اور رسم و راج کو نہایت باریکی سے پیش کیا گیا ہے۔ کرشن جی کی پیدائش کے بارے میںان کی معلومات دیکھئے اور ساتھ ہی ان کا لہجہ بھی۔ جن اشٹمی کا تیوہار پورے برج میں منایا جانا فطری ہے۔ بچے کے پیدا ہوتے ہی والدین کے گھر میں اندھیرا دور ہوتا ہے اور اُجالا پاس آتا ہے اور کہاوت بھی ہے۔ ”بن بالک بھوت کا ڈیرا“ اب اس کی روشنی میں ان کی نظم کنھیا جی کے یہ بند دیکھئے
ہے ریت جنم کی یوں ہوتی جس گھر میں بالا ہوتا ہے
اس منڈل میں ہرمن بھیتر سکھ چین دوبالا ہوتا ہے
سب بات تبھاکی بھولے ہیں جب بھولا بھالا ہوتا ہے
آنند مند لیے باجت ہیں نت بھون اُجالا ہوتا ہے
یوں نیک نچھتر لیتے ہیں اس دنیا میں سنسار جنم
پر ان کے اورہی لچھن ہیں جب لیتے ہیں اوتار جنم
............
32 بند کی اس طویل نظم میں جس طرح کنس۔ واسودیو۔دیوکی اور یشودا کے کرادر۔ گفتار اور تکرار ملتی ہے اور پوری کرشن جم بھومی سے لے کررن بھومی کی سچی داستان سمٹ آتی ہے وہ نظیر کی ہندو مذہب او ر تہذیب کی واقفیت کا تو پتہ دیتی ہی ہے نیز ان کی عقیدت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ ایک اور نظم کاایک بند ملاحظہ کیجئے:
یارو سنو یہ دودھ کے لٹیا کا بالپن
اور بدھ پوری نگر کے بتیا کا بالپن
موہن سروپ نرت کریا کا بالپن
بن بن کے گوال گویں چریا کا بالپن
ایسا تھا بانسری کے بجایا کا بالپن
فراق گورکھپوری نے اپنی کتاب نظیر بانی میں لکھا ہے :
”وہ مقامی تہذیب و ثقافت میں رنگ گئے تھے۔ ہندو تیوہاروں۔ میلوں ٹھیلوں میں بہت دلچسپی لیتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا کہ ہندو و مسلمانوں میں کوئی بیگانگی نہ تھی۔“
کچھ ہندو ادیبوں کا خیال کہ نظیر ہندو مذہب کے بارے میں کم جانتے تھے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ خیال درست ہوکہ کسی پنڈت اور گیانی کے مقابلے ان کی معلومات کا کم ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں لیکن جس نوع کی وہ عوامی تہذیب اور ذہنی ثقافت میں رچے بسے ہوئے تھے وہاں اس طرح کی خارجی تفریق عموماً مٹ جایا کرتی ہے پھر مذہب کی عوامی تہذیب و ثقافت ، ایمان و عرفان اپنا ایک الگ دائرہ بنالیتا ہے۔ ہندی کے بعض شاعروں نے تو پھر بھی کرشن کی عاشق، چھیڑ چھاڑ کر نے والے نوجوان یا بھگوان کی تصویر پیش کی ہے لیکن نظیر کے ےہاں عقیدت و احترام تو ہے اور اسلوب بیان اور لفظیات میں ہندو تہذیب کا غیر معمولی فنکارانہ اظہار جس میں اگر ایک طرف اسلام کا صوفیانہ وجدان ہے تو دوسری طرف بھگتی کا گیان اور آتم سماّن بھی۔ اس ملے جلے صوفیانہ تصور کا رس نیا ہے تو نظیر کی ان نظموں کا مطالعہ بھی ضروری ہے جو محض موضوع کے اعتبار سے براہِ راست ہندو دھرم کے دائرے میں نہیں آتی لیکن ہندوستانی عوامی تہذیب ،زندگی اور رسم و رواج کے دائرے میں براہِ راست آتی ہیں مثلاً ان کی نظمیں روٹی نامہ۔ آدمی نامہ۔ بنجارہ نامہ۔ فقیروں کی صدا۔ کلجگ۔ مفلسی وغیرہ ایسی ہیں جو مذہبی نظموں کے مزاج و مذاق اور ہندو و ہندوستانی عوامی تہذیب اور نظیر کے اپنے مزاج۔ تجربات۔ زندگی کی صداقت متوسط طبقہ کی سماجی بصیرت اور لوک گیتوں کی حرکت و حرارت سب اس قدر گھُل مل گئے ہیں اور اس روایت کو زندہ کرتے ہیں جو امیر خسرو کے بعد کسی وجہ سے بکھر گئی تھی۔
جعفر زٹلی بنیادی طور پر مزاحمت اور احتجاج کے شاعر تھے۔ لیکن ےہاں میں ان کی ایک غزل کے صرف تین اشعار پیش کروں گا
گیا اخلاص عالم سے عجب یہ دور آیا ہے
ڈرے سب خلق ظالم سے عجب یہ دور آیا ہے
نہ یاروں میں رہی یاری نہ بھیوں میں وفاداری
محبت اُٹھ گئی ساری عجب یہ دور آیا ہے
نہ بوئی راستی کوئی، عمر سب جھوٹ میں کھوئی
’اتاری شرم کی لوٹی۔ عجب یہ دور آیا ہے
................
یہ مصرعہ دیکھئے نہ یاروں میں رہی یاری نہ بھیوں میں وفاداری“ خالص اودھی لہجہ اور محاورہ ہے۔ اسی طرح سے ”اتاری شرم کی لوئی“ کو بھی ملاحظہ کیجئے۔ اسی طرح سے قدم قدم پر ان کے ےہاں عوامی محاورات استعمال ہوئے ہیں ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا۔“ بھرے سمندر کھو گھا ہاتھ وغیرہ۔ ان سب کا غزل کے پیرایے میں استعمال کرنا مشکل اور غیر معمولی بات ہے۔
اب میں قصیدے کے ایک شاعر محسن، کاکوری کے ایک مذہبی قصیدے جو رسول کی شان میں لکھا گیا ہے اس کے چند اشعار پیش کرتا ہوں
سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل
برق کے کاندھے لاتی ہے صبا گنگا جل
گھر میں اشنان کریں سروقدانِ گو کُل
جاکے جمنا پہ نہانا بھی ہے اک طویل عمل
کالے کوسوں نظر آتی ہیں گھٹائیں کالی
ہند کیا ساری خدائی میں بتوں کا ہے عمل
ڈوبنے جاتے ہیں گنگا میں بنارس والے
نوجوانوں کا سنیچر ہے یہ برھوا منگل
................
ان قصیدوں اور مثنویوں کو ملاحظ کیجئے ان میں جس طرح سے ہند و تہذیب ، عوامی رنگ اور ہند کی مشترکہ تہذیب رچ بس گئی ہے وہ محسوس کرنے کے لایق ہے۔ یہ اردو شاعری کا ایک ایسا اضافہ اور خزانہ جس پر جس قدر فخر کیا جائے کم ہے۔
اسی طرح سے حالی کی نظمیں۔ آزاد و شبلی کی نظمیں ۔ چکبست کی قومی نظمیں ۔ سرور جہان آبادی۔ اقبال جوش اور فراق کی نظمیں و غزلیں۔ ان سب نے اس تہذیب میں ایسی رونق اور جگمگاہٹ بخشی کہ اردو شاعری اور مشترکہ تہذیب ایک ہی تصویر کے دو رخ ہوگئے۔ اقبال کے ےہاں جو اسلامی فکر کے شاعر کہے جاتے ہیں امام ہند کے عنوان سے بھگوان رام پر غیر معمولی نظم ملتی ہے۔ جوش نے تلسی داس پر عمدہ نظم کہی۔ فراق نے اپنی رباعیوں میں پریم رس اور شر نگار رس کے ایسے ایسے جلوے بکھیرے ہیں کہ ہندوستان کی گھریلو مشترکہ تہذیب ۔عوامی تہذیب قوس قزح کا روپ اختیار کرگئی ہے۔ عمدہ اور پختہ روایت کے زیر ا ثر ترقی پسند شعرا نے ان رویوں کو اس قدردل جمعی سے استعمال کیا ہے کہ ہندوستانی تہذیب نہ جانے کتنی اور جہتوں میں نکھر کر چاند اور سورج کی طرح چمکنے اور جگمگانے لگی۔ اب میں غزل کے چند اشعار بھی پیش کرتا ہوں
جودھا جگت کے کیوں نہ ڈریں تجھ سوں اے صنم
ترکش میں تجھ نین کے ہیں ارجن کے بان آج
- ولی دکنی
میر کے دین و مذہب کو کیا پوچھتے ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
- میر
آتش عشق نے راون کو جلا کر مارا
گرچہ لنکا میں تھا اس دیو کا گھر پانی میں
-میر
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو کیوں راکھ جستجو کیا ہے
- غالب
ہندو ہیں بُت پرست مسلماں خدا پرست
پوجوں میں اس کسی کو جو ہو آشنا پرست
- سودا
قشقہ ہندو مذہب کی علامت اور جسم کے جلائے جانے کی رسم بھی ہندو اور ہندوستانی ہے لیکن کس قدر سلیقے سے اردو شاعری میں جذب ہوئی ہے اسی طرح بُت اور برہمن کا ذکر۔ دیر و حرم کے چرچے تو اردو غزل میں بھرے پڑے ہیں لیکن ان کو صناعی کاری گری اور امیجز کی شکل دے دینا غیر معمولی فنکاری اور عقیدت مندی کا ہنر ہے۔ فراق کے یہ چندشعر دیکھئے
ہر لیا ہے کسی نے سیتا کو
زندگی جیسے رام کا بن باس
جیسے تاروں کی چمک بہتی ہوئی گنگا میں
اہل غم یوں ہی یاد آﺅ کہ کچھ رات کٹے
دلوں کو تیرے تبسم کی یاد یوں آئی
کہ جگمگا اٹھیں جس طرح مندروں میں چراغ
شیو کا وش پان تو سنا ہوگا
میں بھی اے دوست پی گیا آنسو
فراق توخیر ہندو تھے لیکن انھوں نے اپناایک مکمل دبستان قائم کیا جس کے اثر ات بعد کے شعراءمیں دکھائی دیتے ہیں لیکن مومن تو صرف نام کے ہی مومن نہ تھے انسان دوستی کے حوالے سے کہتے ہیں
کیا مومن کیا کافر کون ہے صوفی کیا رند
بشر ہیں سارے بندے حق کے سارے جھگڑے شرکے ہیں
چند شعر اور ملاحظہ کیجئے
حرم و دیر کی گلیوں میں پڑے پھرتے ہیں
بزم رنداں میں جو شامل نہیں ہونے پائے
-فانی
بتوں کو د یکھ کر سب نے خدا کو پہچانا
خدا کے گھر تو بندۂ خدا نہ گیا
-یگانہ
پہنچی ےہاں بھی شیخ و برہمن کی کشمکش
اب میکدہ بھی سیر کے قابل نہیں رہا
- اقبال سہیل
اردو کی کٹوریوں میں وہ امرت گھلا ہوا
جس کا ہے کام دیو بھی پیاسا غضب غضب
- اکثر لکھنوی
اجڑی ہوئی ہر آس لگے
زندگی رام کا بن باس لگے
- جاں نثار اختر
اب دو شعر میں آج کے عہد کی ایک مقبول شاعرہ پروین شاکر کے بھی پیش کرتا ہوں
اب تو ہجر کے دکھ میں ساری عمر جلنا ہے
پہلے کیا پناہیں تھیں مہرباں چتاﺅں میں
نہ سر کو پھوڑ کے تو رو سکا تو کیا شکوہ
وفا شعار کہاں میں بھی حصیر ایسی تھی
............
نئی غزل اور نظم میں اس طرح کی ہندوستانی اصطلاحیں بھری پڑی ہیں اور اردو شاعری ہندو و ہندوستانی تہذیب میں اس قدر رچ بس اور گھل مل گئی ہے جیسے دودھ میں شکر۔ فکشن کے میدان میں یہ ملاوٹ اور گھلاوٹ کچھ اس انداز کی ہے کہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کون سی تہذیب کہاں سے شروع ہے۔ ہندی کے معروف فکشن نگار بھیشم ساہنی نے ایک جگہ لکھا ہے
”گذشتہ چھ سات سو برسوں میں عوامی سطح پر ہماری ایک ملی جلی تہذیب اُبھری ہے اس کی بنیاد ہمارے بھگتوں اور صوفیوں نے ڈالی ہے انھوں نے ایک مشترکہ سوچ دی ایک تہذیب دی، جو لوگ گاﺅں دیہات میں صدیوں سے رہ رہے ہیں ان کی ساجھی زبان بن جاتی ہے۔ ہماری آج کی جو زبانیں ہیں وہ سب اسی کاحصہ ہیں۔یہ ملک ۔ یہ تہذیب ۔ ہم سب اسی کاحصہ ہیں۔ ہم ہر وقت مندر مسجد میں تو بیٹھے نہیں رہ سکتے۔ ہم سماج میں ملتے جلتے ہیں۔ سارے کام مل جل کر کرتے ہیں۔ ایسا ساری دنیا میںہوتا آیا ہے ۔ آج تو ساری حدیں ٹوٹ رہی ہیں اور کچھ لوگ کہتے ہیں ٹوٹ جاﺅ ۔ بٹ جاﺅ۔ یہ قطعی نہیں ہوسکتا۔“
ہندوستانی تہذیب کی وہ روایت جو تیرہویں صدی میں امیر خسرو کے ساتھ نمو پذیر ہوئی۔ بھیشم جی کی طرح تمام وطن پرست اور انسان دوست ادیبوں کے قلم اور ذہن میں رہی اور آج بھی ہے لیکن کچھ نا سمجھ اور نادان اسے توڑنا چاہتے ہیں ،صدیوں کی اس روایت اور اس عظیم وراثت کو بکھیرنا چاہتے ہیں۔ افسوس کہ کچھ ادیب بھی ایسے ہیں جو بقول کملیشور ” ان کی اوپری جیب میں قلم اور اندر کی جیب میں ترشول ہوتا ہے۔“
جہاں فرقہ واریت فسطائیت کا روپ لے چکی ہو۔ بازار واد کی تہذیب نے چکا چوند مچا رکھی ہو۔ بُرے بھلے اور غلط صحیح کی تمیز ختم ہوچکی ہو۔ خیالات اور وچاروں کی گنجائش کم ہوگئی ہو۔ منطق اور لاجک ختم ہوچکی ہو، جہاں مشترکہ جمال و حسن کے شاہکار تاج محل اور اجنتا ایلورا بھی کاروبار کا حصہ بن چکے ہوں تو ایسے میں مشترکہ کلچر کو یاد کرنا اور بھی ضروری ہوجاتا ہے۔ صدیوں کی گنگا جمنی تہذیب اور ہندو مسلم وغیرہ کی ملی جلی وراثت کو دہرایا جانا اور بھی لازمی ہوجاتا ہے۔ کچھ لوگ اتفاق نہ کریں گے لیکن میرا ماننا ہے کہ اگر کبیر و نظیر ۔ نانک اوربلے شاہ کی پرمپرا کو ۔ فراق و نرالا۔ ٹیگور و اقبال کی ملی جلی دھارا کو پھر سے بہادیا جائے۔ ایکتا اورانیکتا کے نغمے گائے جائیں تو یہ ہندوستان بھی بدلے گا اور ہندوستان میں رہنے والا ہر انسان بھی بدلے گا۔ ہندی بھی بدل جائے گی اور اردو بھی بدل جائے گی۔ ہندو مسلمان بھی بدل جائے گا۔ اس مشترکہ تہذیب کے ذریعہ ہم ہر مشکل سے لڑ سکتے ہیں۔ مندر اور مسجد کے سوال سے بھی۔ ہندو مسلم فساد سے بھی۔ علاقائیت سے بھی اور فرقہ واریت سے بھی اور تاریخ کی گھسی پٹی عصبیت سے بھی کہ ہمیں حال میں زندہ تو رہنا ہے لیکن تاریخ کی عظیم روایت اور تہذیب کی وراثت کو سمجھے اور سمجھائے بغیر ہم محض بازار کے شوپیس ہوکر رہ جائیں گے جسے کوئی بھی خرید سکتا ہے اور کوئی بھی بیچ سکتا ہے
۔
٭٭٭

(Peaceful) Islam Scares The West(?)■

(Peaceful) Islam Scares The West(?)■

Both in one go. Amazing! But there is no dearth of such amazing ideas. Everything is messed up, literally. When we talk about Islam and peace we stop scaring the West. As soon as we start scaring the West, we forget about “Islam for peace (amn, taraqqi aur najaat)”. “Islam is for peace” is a very nice sentence. I would only reiterate here that Islam doesn’t merely stand for peace. It goes one step ahead and establishes that peace, too  So whenever we hear that “Islam is for peace” we should unmistakably ask how it is going to realize this peace for everyone including the West. We should not stop after hearing “Islam is for peace”.

When we say that Islam really scares the West (or any other observations similar to this for any other parts of the world) I wonder what we mean by it. If we really mean what we say then it raises very serious questions about our own understanding and perception of Islam. We need to stop here and evaluate our own concept of Islam before we evaluate how others look at it. How others perceive Islam and how much they are loving or phobic to it is a completely different matter. We should deal with this question separately and afterwards.

If the upholders of Islam themselves start believing and propagating that Islam truly scares certain areas of the world and its people then why not those areas and its inhabitants should really be scared of it? If they get actually scared they are completely justified. It only indicates that a very good product doesn’t have very good salespersons. If, however, we do not mean that Islam “really scares the West” then it is extremely dangerous to utter these words and stop after uttering them. Besides deafening, the silence after such sentences has serious consequences as it reconfirms the notion that Islam certainly frightens. (Does it!?)

If later we argue that “The West does not like the empowerment of the Muslim world and its empowerment scares it. The trends are only like that.” and again stop there then again it raises many questions. For instance, “Why the ‘un-empowered Islam’ is NOT a threat but as soon as it gets ‘empowered’ it will scare a reasonable part of the world?” To put it in perspective, I am prompted to ask how the Prophet Muhammad (pbuh) would have reacted to such assertions? What would have been his world-view? How would he have reacted to the dreading full stop () and the silence of the highly educated among his Ummah!

It occurs to me that such full stops () are our enemy. Such ‘punctuations’ and grammatically correct sentences as the ones above are not allowing us to pause and ponder. We repeat the same sentences which we have heard a thousand times from others – the educated and the uneducated alike. This is why we are the greatest supporters of peaceful Islam and scare a huge part of the world from the same peaceful Islam. (The fact that Islam does not require any adjectives before it is yet another matter.) Please help me understand this situation and let me know what I should conclude from this phenomenon.

Thanks and salaam.

Wasim

Followers