04 December, 2011

صلۂ رحمی/حضرت خدیجہ بنت خویلد کا مقام

 

صلۂ رحمی

ریحان اختر

موجودہ دور میں نفسا نفسی اور مادیت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ رشتہ داروں کی خبرگیری کرنا، ضرورت کے وقت کام آنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خاندان کا شیرازہ بکھر رہا ہے اور معاشرہ انتشار و افتراق کا شکار ہو رہا ہے۔ ایسے میں صلۂ رحمی کی ضرورت و اہمیت پہلے سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ خاند ان کی شیرازہ بندی ونگہداشت اوراس کے قیام وبقاکے لیے قرآن وسنت میں بہت سی تعلیمات وہدایات دی گئی ہیں۔ ان میں صلۂ رحمی کواساسی حیثیت حاصل ہے۔سطور ذیل میں قرآن مجیداوراحادیث نبوی سے صلۂ رحمی کی اہمیت، اس کے دینی و دنیوی فوائداورقطع رحمی کے دینی و دینوی نقصانات پرروشنی ڈالی جائے گی۔
لغوی تحقیق
صلۂ رحمی دولفظوں سے مرکب ہے :صلہ اوررحم۔ ’صلہ‘ کے معنی ہیں جوڑنالیکن جب اس کے ساتھ ’رحم‘ کا استعمال ہوتواس کے معنی بدل جاتے ہیں۔
وصل رحمہٗ کے معنی ہیں: نسب کے اعتبار سے جورشتے دارقریب ہوں ان کے ساتھ مہربانی کرنااورنرمی کابرتاؤکرنا۔(المنجد،ص ۲۵۲)
رحم، بطنِ مادر کے اس مقام کوکہتے ہیں جہاں جنین استقرار پاتا ہے اور اس کی نشوونماہوتی ہے۔ مجازاً اسے رشتہ داری کے معنی میں استعمال کیاجاتاہے، اوریہ اللہ تعالیٰ کے نام رحمن سے ’مشتق‘ ہے (الراغب الاصفھانی: المفردات فی غریب القرآن، ص ۱۴۷)۔امام اصفہانی نے تائید میں ایک حدیث پیش کی ہے جس کامضمون یہ ہے: حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواشارد فرماتے ہوئے سناہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:میں ہی اللہ ہوں اورمیں ہی رحمن ہوں۔ میں نے رحم (رشتہ داری) کوپیداکیا۔ میں نے اس کانام اپنے نام سے نکالاہے۔ جواس کوجوڑ ے گامیں اس کوجوڑ وں گا،اورجواس سے قطع تعلق کرے گا میں بھی اسے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا۔(ترمذی، باب ماجاء فی قطعیہ الرحم،۹۰۷)
لغوی اعتبار سے ’رحم‘ کے معنی شفقت ،رافت اوررحمت کے ہیں۔ جب یہ بندوں کے لیے استعمال ہوتاہے تواس کے معنی شفقت ورافت کے ہوتے ہیں، اورجب اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوتاہے تواس کے معنی رحمت کے ہوتے ہیں۔ (لسان العرب، ابن منظور، ،ج۱۷،ص۲۳۰)
قرآن میں رشتہ داری کامقام
اسلام نے رشتہ داری کووہ بلندمقام دیاہے جوپوری انسانی تاریخ میں کسی مذہب ،کسی نظریے اورکسی تہذیب نے نہیں دیا۔ اس نے رشتوں کاپاس ولحاظ رکھنے کی وصیت کی ہے ۔قرآن کریم میں بہت سی آیات ہیں جواسلام میں رشتہ داری کی اہمیت کوواضح کرتی ہیں۔ رشتہ داری کا احترام کرنے اوران کے حقوق کی ادایگی پر ابھار تی ہیں، اورانھیں پامال کرنے اوران پر ظلم و زیادتی کرنے سے روکتی ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآءَ لُوْنَ بِہٖوَ الْاَرْحَامَ ط(النساء ۴:۱) اس اللہ سے ڈرو جس کاواسطہ دے کرتم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتہ داری اورقرابت کے تعلقات کوبگاڑ نے سے پرہیز کرو۔
قرآن کریم میں قطع رحمی کاتذکر ہ فساد فی الارض کے ساتھ کیاگیاہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ دونوں کاباہم گہراتعلق ہے۔چندآیات ملاحظہ ہوں:
فَاِِذَا عَزَمَ الْاَمْرُ فَلَوْ صَدَقُوا اللّٰہَ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ oفَہَلْ عَسَیْتُمْ اِِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ ط (محمد ۴۷:۲۱۔۲۲)مگر جب قطعی حکم دے دیا گیا اُس وقت وہ اللہ سے اپنے عہد میں سچے نکلتے تو انھی کے لیے اچھا تھا۔ اب کیا تم لوگوں سے اِس کے سوا کچھ اور توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر تم اُلٹے منہ پِھر گئے تو زمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹو گے؟
سورۂ رعد میں ارشاد باری ہے :
وَ الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْ م بَعْدِ مِیْثَاقِہٖوَ یَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ اُولٰٓءِکَ لَھُمُ اللَّعْنَۃُ وَ لَھُمْ سُوْٓءُ الدَّارِo(الرعد ۱۳:۲۵) اورجولوگ اللہ کے عہد کوباندھنے کے بعد توڑتے ہیں اوراس چیز کوکاٹتے ہیں جسے اللہ نے جوڑنے کاحکم دیااورزمین میں فساد برپاکرتے ہیں،وہی لوگ ہیں جن پر لعنت ہے، اوران کے لیے براانجام ہے۔
قرآن میں کفارکی فساد انگیزیوں کومختلف پہلوؤں سے اجاگر کیاگیاہے۔ ان میں سے ایک پہلوقطع رحمی بھی ہے۔ارشاد ہے:
الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْ م بَعْدِ مِیْثَاقِہٖوَ یَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ ط اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ o(البقرہ ۲:۲۷) جواللہ تعالیٰ کے عہد کواس کے باندھنے کے بعد توڑتے ہیں اورجس چیز کواللہ تعالیٰ نے جوڑ نے کاحکم دیاہے اس کوکاٹتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں یہی لوگ نقصان اُٹھانے والے ہیں۔
اس آیت کی تفسیر میں شیخ محمدعلی الصابونی نے لکھاہے: ’’جس چیز کے جوڑنے کاحکم دیا گیاہے اس سے مراد رشتہ اورقرابت ہے، اورجس چیز کواہل کفر وفساد کے اوصاف میں توڑنے کاذکر کیا گیاہے اس سے مراد رشتہ داری کے تعلقات ختم کرنااورنبی اورمومنین سے الفت ومحبت کوختم کرنااوران سے تعلق توڑنا ہے‘‘(صفوۃ التفاسیر، ج ۱، ص ۳۱)
اللہ تعالیٰ نے سورۂ نحل میں جن چیزوں کاحکم دیاہے ان میں عدل اوراحسان کے بعد تیسری چیزاہل قرابت کے حقوق کی ادایگی ہے۔
اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰی (النحل ۱۶:۹۰) اللہ تعالیٰ عدل اور احسان اور صلۂ رحمی کاحکم دیتاہے۔
صلۂ رحمی کاحکم احادیث میں
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم منصب نبوت سے سرفراز ہونے سے قبل ہی سے صلۂ رحمی پر عمل پیراتھے۔ اس کاثبوت ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکی گواہی ہے کہ غار حرا میں جبرائیل ؑ نے آکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوپہلی وحی سنائی اورنبوت کابار آپؐ پر ڈالاگیا۔ اس کی وجہ سے آپؐ پر ایک اضطراری کیفیت طاری تھی۔ آپؐ گھر تشریف لائے، اور جوواقعہ پیش آیاتھااس سے ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکوآگاہ کیا اور کہاکہ مجھ کواپنی جان کاخوف ہے۔اس وقت آپؐ کوتسلی دیتے ہوئے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جوباتیں کہیں وہ یہ تھیں : ’’ہرگز نہیں ہوسکتا، اللہ تعالیٰ آپ کوکبھی رنجیدہ نہیں کرے گا ، کیوں کہ آپ رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہیں، بے سہاروں کاسہارا بنتے ہیں، محتاجوں کے لیے کماتے ہیں، مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں۔ ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں‘‘۔(بخاری، باب بداء الوحی:۳)
صلۂ رحمی ،شریعت اسلامی کے بنیادی اصولوں میں سے ہے جس کے ساتھ یہ دین روزِاوّل ہی سے دنیا والوں کے سامنے ظاہر ہوا۔ اس کی تائید ہر قل کے ساتھ ابو سفیان کی گفتگو سے بھی ہوتی ہے۔صلح حدیبیہ(۶ہجری)کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف سلاطین کے پاس خطوط ارسال کیے جن میں انھیں اسلام کی دعوت دی۔ جب آپؐ کانامہ مبارک ہرقل کے پاس پہنچا تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جاننے کی غرض سے اپنے درباریوں سے کہاکہ مکہ کے کسی آدمی کو دربار میں پیش کرو۔ انھوں نے ابوسفیانؓ کو(جن کواس وقت تک قبول اسلام کی سعادت نہیں ملی تھی)، دربار میں پیش کیا۔ ہرقل نے ان سے بہت سے سوالات کیے اور ایک سوال یہ بھی کیاکہ تمھارے نبی تمھیں کس چیز کاحکم دیتے ہیں؟ ابو سفیانؓ نے جواب دیا: وہ ہمیں نماز، زکوٰۃ، صلۂ رحمی ، پاک دامنی کاحکم دیتے ہیں۔(مسلم)
اس حدیث سے بھی بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ صلۂ رحمی اس دین کی ممتاز خصوصیات میں سے ہے جن کے بارے میں دین کے متعلق پہلی مرتبہ پوچھنے والے کوآگاہ کیاجاتاہے۔
سیدنا عمروبن عنبسہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے، اس میں اسلام کے جملہ اصول وآداب بیان کیے گئے ہیں، وہ فرماتے ہیں:’’میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یہ آغازِ نبوت کازمانہ تھا۔ میں نے عرض کیا:آپ کیاہیں؟ فرمایا: نبی ہوں۔ میں نے عرض کیا: نبی کسے کہتے ہیں؟ فرمایا: مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ میں نے کہا:اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو کیا چیز دے کربھیجا ہے؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے رشتوں کوجوڑ نے اور بتوں کوتوڑنے کے لیے بھیجا ہے اور اس بات کے لیے بھیجا ہے کہ اللہ تعالیٰ کوایک سمجھا جائے اور اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ کیاجائے ۔(مسلم،باب اسلام، عمروبن عنبسہ۱۹۳۰)
یہ بات بالکل عیاں ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اسلام کے اہم اصول ومبادی کی تشریح کرتے ہوئے صلہ رحمی کومقدم رکھاہے۔ اس سے دین میں صلۂ رحمی کے مقام ومرتبہ کابخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔
سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول مجھے ایسا عمل بتائیے جس سے میں جنت میں داخل ہوجاؤں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ بناؤ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرو‘‘(بخاری، باب فصل صلۃ الرحم، ۵۹۸۳)۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی عبادت ، توحید ، نماز اور زکوٰۃ کے ساتھ ہی صلۂ رحمی کاتذکرہ ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ صلۂ رحمی کاشمار بھی ان اعمال میں ہوتاہے جوانسان کوجنت کامستحق بناتے ہیں۔
قطع رحمی کی مذمت
حضرت جبیر بن مطعمؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا: ’’جنت میں قطع رحمی کرنے والا نہیں جائے گا‘‘(بخاری، باب اثم القاطع، ۵۹۸۳)۔ قطع رحمی کرنے والے کی محرومی اور بدبختی کے لیے اللہ کے رسولؐ کی یہی وعید کافی ہے۔
صلۂ رحمی کرنے والے سے اللہ تعالیٰ کاتعلق مضبوط ہوتاہے اور قطع رحمی کرنے والے سے اللہ کاتعلق ٹوٹ جاتاہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رحم (رشتہ داری) رحمن سے بندھی ہوئی ہے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو تجھے جوڑے گا میں اسے جوڑوں گا، اور جوتجھے کاٹے گا میں اسے کاٹوں گا‘‘۔(بخاری، ۵۹۸۴)
قطع رحمی کرنے والے پر آخرت سے قبل دنیا ہی میں گرفت ہوتی ہے۔ ایک حدیث کے مطابق: ’’دوسرے گناہوں کے مقابلے میں بغاوت اور قطع رحمی ایسے گناہ ہیں کہ ان کے ارتکاب کرنے والے کواللہ تعالیٰ دنیا ہی میں عذاب دیتاہے آخرت میں ان پر جوسزا ہوگی وہ تو ہوگی ہی‘‘۔(ترمذی،باب فی عظم الوعید علی البغی وقطیعۃ الرحم، ۲۵۱۱)
صلۂ رحمی کے درجات
ایک متقی اور باشعور مسلم اسلامی تعلیمات کے مطابق صلۂ رحمی کرتا ہے۔ جس ذات باری نے اس تعلق کو قائم کیا ہے اسی نے اہمیت اور قرابت کے مطابق اس کی درجہ بندی بھی کی ہے۔چنانچہ پہلا درجہ والدین کاقرار دیا۔قرآن کریم کی متعدد آیات میں والدین کے ساتھ سلوک کرنے کومستقل طورپر بیان کیا گیا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد باری ہے:
وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاط(بنی اسرائیل ۱۷:۲۳) اور تیرے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اس کی اور ماں باپ کے ساتھ حُسنِ سلوک کرو۔
وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًاط(العنکبوت ۲۹:۸) اور ہم نے انسان کواپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کاحکم کیا ہے۔
سورۂ لقمان میں ارشاد باری ہے:
وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ اُمُّہٗوَھْنًا عَلٰی وَھْنٍ وَّ فِصٰلُہٗفِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْلِیْ وَ لِوَالِدَیْکَط اِلَیَّ الْمَصِیْرُo(لقمان ۳۱:۱۴) اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہنچانے کی خود تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اُٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔ (اسی لیے ہم نے اس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔
اس آیت میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ جہاں تک شکر گزاری اور خدمت کاتعلق ہے تو اس کی ہدایت ماں باپ دونوں کے لیے فرمائی گئی ہے لیکن قربانیاں اور جاں فشانیاں،حمل، ولادت اور رضاعت صرف ماں کی گنوائی گئی ہیں، باپ کی کسی قربانی کاحوالہ نہیں دیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ماں کاحق باپ کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن،ابوعبداللہ محمدبن احمد الانصاری القرطبی، ج ۱۴،ص،۶۴)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا:اے اللہ کے رسولؐ! میرے حسن سلوک کاسب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تمھاری ماں۔ اس نے پھر پوچھا: اس کے بعد کون ہے؟ آپؐ نے جواب دیا: تمھاری ماں۔ اس نے دریافت کیا: پھر کون؟ آپؐ نے فرمایا: تمھارا باپ۔ ایک دوسری روایات میں باپ کے بعد قریبی رشتہ دار کابھی تذکرہ ہے‘‘۔ (مسلم، باببر الوالدین وایھما احق بہ (۲۵۴۸)
صلۂ رحمی میں کوئی تفریق نہیں
دین اسلام کی یہ تعلیم نہیں کہ مسلمان صرف ان رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کریں جوان کے ساتھ بھی صلۂ رحمی کریں، بلکہ اس سے آگے بڑھ کران رشتہ داروں کے ساتھ بھی اچھا برتاؤ اور صلۂ رحمی کرنے کاحکم دیتا ہے جوان کے ساتھ کسی قسم کاتعلق نہیں رکھتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’صلۂ رحمی کرنے والا وہ نہیں ہے جواحسان کابدلہ احسان سے ادا کرے ،بلکہ صلۂ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس سے قطع رحمی کی جائے تو وہ صلۂ رحمی کرے‘‘۔(بخاری، کتاب الادب، باب لیس الواصل بالمکافی، ۵۹۹۱)
اسلام نے غیر مسلم رشتہ داروں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنے پر زور دیاہے ، ارشاد باری ہے:
وَ اِنْ جَاھَدٰکَ عَلآی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖعِلْمٌ فَلَا تُطِعْھُمَا وَ صَاحِبْھُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا(لقمان ۳۱:۱۵) اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ میرے ساتھ ایسی چیز کوشریک ٹھیرائے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ ماننا اور دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرنا۔
اس آیت کی تفسیر میں امام قرطبی نے لکھا ہے کہ یہ آیت اس بات پردلالت کرتی ہے کہ کافر والدین کے ساتھ صلۂ رحمی کی جائے۔ اگروہ غریب ہوں توانھیں مال دیاجائے، ان کے ساتھ ملائمت کی بات کی جائے، انھیں حکمت کے ساتھ اسلام کی دعوت دی جائے(الجامع لاحکام القرآن، ج۱۴، ص۶۵)
حدیث میں بھی غیر مسلموں سے صلۂ رحمی کی تلقین ملتی ہے: حضرت اسما بنت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میری ماں عہد نبویؐ میں میرے پاس آئیں، جب کہ وہ مشرک تھیں۔ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری ماں میرے پاس آئی ہیں، اور وہ مجھ سے کچھ امید رکھتی ہیں، توکیا میں ان کے ساتھ صلۂ رحمی کروں؟ آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں، تم اپنی ماں کے ساتھ صلۂ رحمی کرو‘‘۔(مسلم، کتاب الزکاۃ ، باب فصل النفقۃ والصدقۃ علی الاقربین،۲۳۲۵)
صلۂ رحمی کا مطلب بے جا طرف داری نہیں
شریعت میں صلۂ رحمی پربہت زور دیاگیا ہے لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ کسی کی بے جا طرف داری کی جائے، رشتہ داروں کو ہر صورت میں فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جائے،اگرچہ وہ حق پرنہ ہوں، اور ان کے ساتھ ہمدردی کی جائے اگرچہ وہ ظالم کیوں نہ ہوں۔ دین اسلام اس کی تعلیم نہیں دیتاہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں خاص طور پر اس پر تنبیہ کی گئی ہے ، اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ(المائدہ ۵:۲) ایک دوسرے کی نیکی اور تقویٰ میں مدد کرتے رہو اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی مددنہ کرو۔
دوسری جگہ ارشاد باری ہے:
یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآءَ لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ ج اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِھِمَاقف فَلَا تَتَّبِعُوا الْھَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا ج وَ اِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا o(النساء۴: ۱۳۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیرخواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔
سورۂ انعام کی آیت ملاحظہ ہو:
وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَ لَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی وَ بِعَھْدِ اللّٰہِ اَوْفُوْاط ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖلَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ o(الانعام ۶:۱۵۲) جب بات کہو تو انصاف کی کہو، اگرچہ معاملہ اپنے رشتہ دار کا کیوں نہ ہو، اوراللہ سے جوعہد کیا ہے اسے پورا کرو، اس کا اللہ تعالیٰ نے تمھیں حکم دیا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔
اس طرح اسلام نے صلۂ رحمی کے نام پر ناانصافی و اقربا پروری پر روک لگادی ہے۔ صلۂ رحمی کامطلب یہ ہے کہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ بغیر کسی کاحق تلف کیے ہوئے ان کے دُکھ درد میں شریک رہاجائے، اور اپنی طرف سے ہو سکے تو ان کی مدد کی جائے۔
صلۂ رحمی کی صورتیں
صلۂ رحمی کامفہوم بہت زیادہ وسیع ہے۔ اس کاایک طریقہ یہ ہے کہ رشتہ داری پر مال خرچ کیاجائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ (البقرہ ۲:۲۱۵) ’’آپ کہیے فائدہ کی جوچیز تم خرچ کروتوو ہ ماں باپ رشتہ دار وں کے لیے ‘‘۔ دوسری جگہ یہ تصریح فرمائی گئی کہ مال و دولت کی محبت اورذاتی ضرورت اورخواہش کے باوجود صرف خداکی مرضی کے لیے خود تکلیف اٹھاکر اپنے قرابت مندوں کی امداد اورحاجت روائی اصل نیکی ہے۔ وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖذَوِی الْقُرْبٰی(البقرہ ۲:۱۷۷)’’جس نے اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتہ داروں کودیا‘‘۔
صلۂ رحمی رشتہ دار وں کے ساتھ ملاقاتوں سے بھی ہوتی ہے جس سے قرابت کے رشتے مضبوط ہوتے ہیں، محبت کے تعلقات پایدار ہوتے ہیں، اورباہم رحم وہمدردی اورمودت میں اضافہ ہوتاہے۔ صلۂ رحمی رشتہ داروں کے ساتھ ہمدردی، خیرخواہی، تعاون کے ذریعے ہوتی ہے۔ گاہے بگاہے تحائف سے نوازنے ،دعوت مدارت کرنے اور ان کی خدمت اورمزاج پرسی کرنے اور خندہ پیشانی سے ملاقات کرنے سے۔ اس کے علاوہ ان تمام اعمال سے ہوتی ہے جن سے محبت کے سوتے پھوٹتے ہیں اوررشتہ داروں کے درمیان الفت ومحبت کے جذبات موجزن ہوتے ہیں۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میں صلۂ رحمی پر زور دیاہے اوراس کے لیے ایسی شکلیں بتائی ہیں جن میں کوئی زحمت، پریشانی ،اورتکلیف نہیں۔ فرمایا: ’’اپنے رشتوں کوتازہ رکھوخواہ سلام ہی کے ذریعے سے ‘‘۔(الموسوعۃ الفقہہ،بحوالہ مجمع الزوائد:۸/۱۵۲)
صلۂ رحمی کے دینی ودنیوی فوائد
رشتہ داری کاپاس ولحاظ رکھنے سے رب العالمین کے احکام کی بجاآوری کے علاوہ بہت سے روحانی ومادی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ اس کاایک فائدہ یہ ہے کہ رشتہ داروں پرخرچ کرنے میں زیادہ اجروثواب ملتاہے:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’صدقہ مسکین پر صرف صدقہ ہے، اور رشتہ دار پرکرنے کی وجہ سے دہرا اجرملتاہے، ایک صدقہ کرنے کا،دوسرے صلۂ رحمی کا‘‘۔ (ترمذی، باب ماجا فی الصدقۃ علی ذالقربۃ ۶۵۸)
اس کاایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے عمر میں درازی اوررزق میں وسعت ہوتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جس شخص کویہ پسند ہوکہ اس کے رزق میں کشادگی ہو اوراس کی موت میں تاخیر اورعمر میں اضافہ ہوتواسے چاہیے کہ صلۂ رحمی کرے ‘‘(مسلم، باب صلۃ الرحم وتحریم قطعیتھا ۶۵۲۳)
اس حدیث کامطلب یہ بھی ہوسکتاہے کہ ان نیک اعمال سے مال ودولت میں فراخی اورعمر میں زیادتی ہوتی ہے۔ لیکن اس کی توجیہہ یہ بھی کی جاسکتی ہے کہ انسان کے خانگی مسائل اور تنازعات اس کے لیے تکدر اور پریشانی کا سبب ہوتے ہیں لیکن جولوگ اپنے رشتہ دار وں کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آتے ہیں، ان کے ساتھ نیک برتاؤکرتے ہیں، اس کی وجہ سے ان لوگوں کے لیے اعصابی تناؤ سے آزاد ایک ایساماحول پیداہوجاتاہے جو پُرسکون زندگی گزارنے کے لیے بڑاسازگار ہوتاہے ۔ اس کے برخلاف اعصابی تناؤ جو زندگی کی مدت کم کردیتاہے قطع رحمی کے نتیجے میں پیداہوتاہے۔
اس کے علاوہ صلۂ رحمی سے انسان بہت سے ان اجتماعی مسائل سے جوآج کے مغربی معاشرے کی پہچان بن گئے ہیں چھٹکاراپایاجا سکتاہے۔
مغربی معاشروں میں خاندان کے بوڑھے افراد ایک بوجھ ہوتے ہیں چنانچہ انھیں ’بوڑھوں کے گھر‘ (old age homes)کے حوالے کردیاجاتاہے جہاں وہ خوشیوں بھری زندگی سے محروم کسمپرسی کی حالت زار میں زندگی گزارتے ہیں۔ صلۂ رحمی سے محروم ان افراد کے بیٹے سال میں ایک بار ’یومِ مادر‘(Mother day) ’یوم والدین‘ (Parents day) مناکر اورچند رسمی تحائف دے کر اُن بے پایاں احسانات سے سبکدوش ہوجاتے ہیں جوان والدین نے ان کے ساتھ کیے تھے ۔صلۂ رحمی سے آشنااسلامی معاشرہ ان کوبوجھ سمجھنے کے بجاے ان کی خدمت کوجنت کے حصول اوران کی رضاکوخداکی رضاکے حصول کاسبب سمجھتاہے۔
اسی طرح مغربی معاشروں میں یتیم بچوں کی پرورش اورتعلیم وتربیت کے لیے ’یتیم خانے‘ قائم کیے جاتے ہیں۔ لیکن اسلام میں یتیموں کی دیکھ بھال اورکفالت پربڑازور دیاگیاہے، اوریہ حکم دیاگیاکہ ایسے بچوں کو ان کے قریبی رشتہ دار اپنے خاند ان کے افراد میں شامل کرلیں اوران کے ساتھ اپنے بچوں جیسامعاملہ کریں ۔
بیواؤں کے لیے مغربی معاشرے میں بیواؤں کے گھر بنائے گئے ہیں۔ اس کے برخلاف اسلام میں بیواؤں کے نکاح ثانی اوران کے اخراجات کی ذمہ داری ان کے عزیز وقریب رشتہ داروں پر عائدکی ہے۔ان کواس قسم کے خیراتی ادارے کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑاجاتاہے۔
اسلام جس نے صلۂ رحمی پر اس قدر زور دیا ہے، مقامِ افسوس ہے کہ آج مسلمان اور مسلم معاشرے مغربی تہذیب اور مادیت سے متاثر ہوکر، اسلامی معاشرے کی اس نمایاں خصوصیت اور اخلاقی قدر سے غفلت برتتے نظر آتے ہیں۔ نفسانفسی بڑھ رہی ہے۔ معاشرہ انتشار سے دوچار ہے۔ خاندان کا شیرازہ بکھر رہا ہے اور انتشار و افتراق کی وجہ سے گھر برباد ہورہے ہیں۔ لوگ افلاس اور بے بسی کے ہاتھوں مجبور ہوکر خودکشی جیسے گناہ کے مرتکب ہونے لگے ہیں جس کا مسلم معاشرے میں کبھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ مغربی طرزِ معاشرت کی طرح والدین کو بوجھ سمجھا جانے لگا ہے اور اب ’بوڑھوں کے لیے گھر‘ بھی بنائے جانے لگے ہیں۔ اگر صلۂ رحمی جیسی اساسی معاشرتی قدر کو مسلمانوں نے مضبوطی سے نہ تھاما تو مادیت کی دوڑ کے نتیجے میں خود ہمارا معاشرہ بھی معاشرتی انتشار کا شکار ہوکر مغرب کی طرح معاشرتی مسائل سے دوچار ہوسکتا ہے۔
___________________
ریحان اختر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ، علی گڑھ میں شعبۂ سنی دینیات میں ریسرچ اسکالر ہی
حضرت خدیجہ بنت خویلد کا مقام
محمد زکریا


حضرت خدیجہ کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ جبریل علیہ السلام انہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کا سلام پہنچانے خانہ نبوت میں تشریف لاتے ہیں، اور فرماتے ہیں: یا رسول اللّٰہ ھذہ خدیجہُ قد اتت، معھا اناء فیہ اِدام اَو طعام اَو شراب، فاذا ھی اَتَتک، فاقراعلیھا السلام من رَبَّہا ومنِیّ اے اللہ کے رسول، خدیجہ کچھ خوردونوش کا سامان لے کر آپ کے پاس آیا چاہتی ہیں، جب وہ آپ کے پاس پہنچ جائیں تو اُن سے اُن کے رب کا سلام کہیے اور میری طرف سے بھی سلام کہیے

عرشِ معلی سے اتری یہ تہنیت جب اپنے شوہر سے سنتی ہیں تو ایک بڑا پاکیزہ جملہ عرض کرتی ہیں۔ اِنَّ اللّٰہ ھو السلام اللہ تو خود سلام ہے (مجھ جیسی گناہ گار بندی کے لیے یہ مژدا!) (وعلی جبریل السلام) جبریل علیہ السلام پر سلام (وعلیک السلام) اور آپ پر سلام۔

حضرت خدیجہ کے یہ الفاظ کہ اللہ تو خود سلام ہے وہی الفاظ ہیں جو حضور اکرم نے کئی سالوں بعد مدینے میں صحابہ کرام سے کہے تھے آپ نے جب صحابہ کرام کو نماز میں تشھد کا طریقہ سکھلایا تھا تو یہ الفاظ فرمائے تھے کہ اللہ خود سلام ہے، تم تشھد میں یوں کہا کرو: السلام علیک ایہا النبی ورحمہ اللّٰہ وبرکاتہ والسلام علینا وعلی عباد اللّٰہ الصالحین۔ آپ کے ان فرمودات سے پہلے صحابہ کرام اللہ پر بھی سلام بھیجا کرتے تھے۔ درآں حالیکہ تمام سلامتی اللہ کی طرف سے ہے۔ حضرت خدیجہ اللہ کے اس صفاتی نام کا ازخود علم رکھتی تھیں۔ یہ اللہ تعالیٰ سے ان کے تعلق کا ایک واقعہ ہے۔ اللہ پر بے ساختہ ایمان، اس کی قدرت دیکھ کر اس کی عظمت اور کبریائی کا تصور، وہ رحمت جو نبوت بن کر ان کے آنگن میں اتری تھی اور اس کے لیے شکرانے کے جذبات، پھر عبادت کا وہ ہمہ گیر تصور جس کی دولت وہ پچیس برس مسلسل اللہ کی رضا جوئی میں جان ومال کھپا دیتی ہیں، وہ اعمال ہیں جو فرض عبادات کے بغیر ہی انہیں اپنے زمانے کی سب سے افضل عورت کے مرتبے پر پہنچا دیتے ہیں۔ نماز پنجگانہ حضرت خدیجہ کے انتقال کے بعد فرض ہوتی ہیں، روزے ہجرت کے بعد فرض ہوئے اور اسی طرح زکوٰت اور حج بھی مدینے کے آخری دور میں فرض ہوتے ہیں۔ اللہ پر کامل ایمان اور پھر اس ایمان سے جو اعمال رونما ہوتے ہیں وہ آخرت کے میزان میں بہت بھاری ہوتے ہیں۔

نبی علیہ السلام سے آپ کی طویل رفاقت رہی اور رفاقت کے اِس طویل عرصے میں نبی علیہ السلام نے کسی دوسری خاتون کو اپنی زوجیت میں نہیں لیا اور نہ کسی خادمہ کی ضرورت سمجھی۔ اکیلی حضرت خدیجہ نبوت جیسی اہم ذمہ داری میں نبی علیہ السلام کا اس بھرپور انداز سے ساتھ دیتی ہیں کہ آپ کسی بڑے کنبے کی ضرورت نہیں سمجھتے، جو بعد میں آپ کو مدینے میں حضرت خدیجہ کے انتقال کے بعد پیش آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ازواج مطہرات کی موجودگی میں باکثرت حضرت خدیجہ کو یاد کرتے۔ اگرچہ حضرت خدیجہ دو ہاجن تھیں، پہلا نکاح ابوھالہ بن زرارہ تمیمی سے ہوا، دوسرا عقد عتیق بن عابد مخزوی سے ہوا، مگر آپ کو کل جہان سے پیاری تھیں، وہ عمر میں آپ سے بزرگ تر تھیں مگر جواں سال عائشہ سے آپ کو عزیز تر تھیں۔ آپ تقریباً ہر روز ان کا تذکرہ کرتے۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہ نے حضرت خدیجہ کی بابت چند ناپسندیدہ الفاظ کہے، جنہیں سن کر نبی علیہ السلام ایک ماہ تک حضرت عائشہ سے ناراض رہے اور گھر قدم نہیں رکھا۔

وہ فرماتی ہیں: کان لم یکد یسام من ثَناء علیہا واستغفارِ لہا آپ کا حضرت خدیجہ کی تعریفیں کرکے کبھی جی نہیں بھرتا تھا اور باکثرت ان کے لیے استغفار کرتے۔

میں نے ایک دن حضرت خدیجہ کی عیب جوئی کر دی تو آپ غضبناک ہو گئے، جبیں مبارک پر پسینہ نمودار ہوا، پیشانی پر بال بکھر گئے، آپ کے غصے کا یہ عالم دیکھ کر میں نے جھٹ اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلا دیے:

اللھمّ اِن اَذھبتَ غضب رسولِکَ عَنیِّ لم اَعُد اُذکُرَھا بسوئٍ

اے اللہ آج کے دن تو اپنے رسول کا غصہ مجھ سے دور فرما دے، میں حضرت خدیجہ کے لیے آئندہ کبھی نامناسب الفاظ استعمال نہیں کروں گی“۔

جب آپ پرسکون ہو گئے تو ازواج مطہرات سے فرمایا: ”جیسے مریم بنت عمران اپنے زمانے میں سب عورتوں سے افضل تھیں، ویسے خدیجہ اِس زمانے کی سب عورتوں سے افضل ہیں“۔

بخدا خدیجہ سے بہتر بیوی مجھے نہیں ملی۔ وہ اُس وقت ایمان لائیں جب لوگوں نے کفر کیا، دُنیا بھر نے مجھے جھٹلایا، اُس نے میری تصدیق کی، لوگوں نے مال دینے سے انکار کردیا، خدیجہ نے کل مال وقف کردیا، خدیجہ کے بطن سے میری اولاد ہوئی اور کسی بیوی سے مجھے اولاد نہیں ملی۔

حضرت خدیجہ سے آپ کی چار بیٹیاں زینب، رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہ پیدا ہوئیں اور دو لڑکے القاسم اور عبداللہ تولد ہوئے۔ جو شیر خواری کے دوران میں وفات پا گئے۔ طاہر اور طیب دراصل آپ کے دوسرے بیٹے عبداللہ کے لقب ہیں۔ بعض سیرت نگار طاہر اور طیب کو بھی نبی علیہ السلام کی اولاد میں شمار کرتے ہیں جو درست نہیں۔

جبریل علیہ السلام ان کو بشارت دیتے ہیں:

بشرھا ببیت فی الجنت من قصبٍ لا صحب فیہ ولارضبا

انہیں بشارت دے دیجئے، جنت میں ایک ایسے گھر کی جو موتی چھید کر بنایا گیا ہے۔ ایسا گھر جس میں نہ کوئی بیہودہ بات ہو گی اور نہ کوئی چھن جانے کا اندیشہ لاحق ہوگا۔

حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد ایک مرتبہ ان کی ہمشیرہ ھالہ بنت خولد تشریف لاتی ہیں اور آپ سے اندر آنے کی اجازت طلب کرتی ہیں۔ دونوں بہنوں کی آواز میں کافی مشابہت تھی۔ ھالہ کی آواز سن کر آپ کو یوں لگا کہ خدیجہ تشریف لائی ہیں مگر جب آپ دوبارہ آواز سنتے ہیں تو فرماتے ہیں ”اللھم ھالہ“ ارے یہ تو ھالہ ہیں۔ صحیح بخاری میں الفاظ ہیں فارتاع لذلک اور صحیح مسلم میں فارتاع کی بجائے فارتاح لذلک کے الفاظ ہیں۔ دونوں روایتوں کو جمع کرنے سے معنی نکلتا ہے کہ آپ نے حضرت خدیجہ کی یاد سے ایک قسم کی فرحت محسوس کی۔

حضرت خدیجہ قریشی قبیلے کی ایک معزز خاتون تھیں اور اپنا سرمایہ بڑی سمجھ داری سے تجارت میں لگاتی تھیں۔ حکمت اور دانائی وافر ملی تھی۔ ایسی عفت مآب کہ طاھرہ (پاک دامن) لقب تھا۔ جاھلیت میں بھی اپنی فطرت اصلیہ کو بت پرستی یا شرک سے آلودہ نہیں کیا تھا۔ پہلی آسمانی کتابوں کا علم رکھتی تھیں، مردم شناسی کا ملکہ آپ کو ودیعت ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تجارت کے لیے وہ نبی علیہ السلام کا انتخاب کرتی ہیں اور تجارت کی غرض سے ملک شام کا جو سفر آپ کرتے ہیں وہ سب احوال اپنے وفادار خادم میسرہ سے سن کر سمجھ جاتی ہیں کہ آپ اس امت کے آخری نبی ہیں۔ نبی کی بیوی بننے کی سعادت سے آپ محروم نہیں ہونا چاہتی تھیں اس لیے دونوں خاندانوں کی رضا مندی سے آپ کا نکاح نبی علیہ السلام سے ہو جاتا ہے اور پندرہ برس بعد آپ پر پہلی وحی نازل ہوتی ہے۔ رسول اللہ وحی اترنے کی کیفیت سے گھبرا جاتے ہیں۔ اس وقت آپ کو ایک سچے ہمدرد کی ضرورت ہوتی ہے۔ حضرت خدیجہ سے بڑھ کر آپ کا ہمدرد اور کون ہو سکتا تھا۔ آپ گھر لوٹتے ہیں اور فرماتے ہیں: زَمّلونی، دَثَّرونی مجھے جلدی سے لحاف اڑھا دو۔

ہمارے زمانے کی کوئی بیوی ہوتی تو عین ممکن ہے سوال پر سوال کرتی، مگر اطاعت شعار بیوی کے لیے سب سے مقدم اپنے شوہر کے حکم کی تعمیل ہوا کرتی ہے۔ اس وقت آپ کو پرسکون کرنا اور حوصلہ بڑھانا اولین ضرورت تھی، اس لیے بڑی مستعدی سے آپ کو کمبل اڑھا دیتی ہیں اور آپ کے ساتھ بیٹھ جاتی ہیں اور مسلسل دلاسا دیتی رہتی ہیں۔ آپ جب پرسکون ہو جاتے ہیں تو غار حرا کا ماجرا من وعن سنا دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ مجھے تو اپنی جان کی فکر ہے۔

مگر حضرت خدیجہ فرماتی ہیں (کلاَّ) ایسا مت سوچیے۔

اِنَّکَ لَتصل الرحم وتصدق الحدیث وتحمل الکلّ وتکسب المعدوم وتقری الضیف وتعین علی نوائب الحق

(بھلا خدا ایسے شخص کو کیوں ہلاک کرے گا)

آپ رشتہ داری نبھاتے ہیں، سچ بولتے ہیں، ناتواں کو سہارا دیتے ہیں، نادار پر خرچ کرتے ہیں، مہمان نواز ہیں اور مصائب میں لوگوں کا ساتھ دیتے ہیں۔

پھر مزید اطمینان دلانے کے لیے ورقہ بن نوفل جیسے عالم کے پاس لے جاتی ہیں۔ ورقہ بن نوفل آپ کے عم زادہ تھے، آسمانی مذاہب کا خاطر خواہ علم رکھتے تھے اور عیسوی مذہب پر کاربند تھے۔ عبرانی اور عربی دونوں زبانوں میں پوری مہارت رکھتے تھے اور کثرت مطالعہ سے نابینا ہو گئے تھے۔ تاہم علوم الغیبیات کے متعلق تورات اور اناجیل میں جو کچھ مذکور تھا اس کا پورا علم رکھتے تھے۔ مزید براں ایک خیر خواہ اور دور اندیش درویش تھے۔ رسول اللہ پر جو پہلی وحی اتری تھی اور اُس سے آپ جس گھبراہٹ میں مبتلا تھے، اُس کا ذکر ورقہ بن نوفل سے کرنا نہایت قرین قیاس تھا اور حضرت خدیجہ کی دانائی کا بین ثبوت۔ غار حرا کا واقعہ سن کر وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک ناموس (جبریل فرشتہ) ہے جو انبیاءپر نازل ہوتا ہے۔ کاش میں اُس وقت آپ کی بھرپور مدد کر سکوں جب آپ کی قوم آپ کو شہر بدر کر دے گی۔

آپ حیران ہو کر پوچھتے ہیں کیا میری اپنی قوم مجھے نکال دے گی! ورقہ بن نوفل ایک عام کلیہ بیان کرتے ہیں کہ ہر نبی کو اس کی قوم ہجرت پر مجبور کرتی ہے۔

ورقہ بن نوفل نے حضرت خدیجہ کی بات کی تصدیق کر دی کہ اللہ نے آپ کو ایک عظیم کام کے لیے چن لیا ہے، لہٰذا آپ مستعد ہو جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری وحی جب آپ پر نازل ہوئی تو آپ اس کے لیے ذہنی طور پر پوری طرح تیار تھے اور وہ خوف یا اندیشہ جو پہلے آپ کو لاحق تھا وہ حضرت خدیجہ کے حسن تدبیر سے دور ہو گیا تھا۔

رسول اللہ مکہ میں پوری مستعدی سے اسلام کا پرچار کرتے ہیں اور خالص اللہ کی عبادت اور بت پرستی اور غیر اللہ کی عبادت سے پوری سختی سے لوگوں کو منع کرتے ہیں۔ برسوں اس بنیادی اور متنازع عقیدے کو قرآن کے ذریعے کھول کھول کر بیان کرتے ہیں اور عقیدہ توحید اور عقیدہ شرک کے درمیان ایک بڑی واضح تفریق پیدا کر دیتے ہیں جو بالآخر مکہ کا اشرافی طبقہ برداشت نہیں کر سکتا اور بنی عبدالمطلب اور ہاشمی خانوادے کا سماجی بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے۔ خلق خدا کے ستائے دونوں خاندان شعب ابی طالب میں تین برس کے لیے محصور ہو جاتے ہیں۔ عسرت اور فاقہ کشی کے تین برس۔ حضرت خدیجہ ناز ونعم میں پل کر جوان ہوئی تھیں، تصور کیا جا سکتا ہے کہ ایک امیر زادی کے لیے بھوک برداشت کرنا کتنا صبر آزما رہا ہوگا۔ مگر جس نے ایمان کا مزہ پالیا ہو اُس کے لئے دنیاوی لذتوں سے محرومی کوئی بڑی بات نہیں رہ جاتی۔ پورے تین برس وہ پہلے سے بڑھ کر رسول اللہ کی خدمت کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ جب سماجی بائیکاٹ ختم ہوتا ہے اور آپ مع اپنے خاندان کے مکہ میں سکونت پذیر ہوتے ہیں، حضرت خدیجہ داغ مفارقت دے جاتی ہیں، تین برس کی محنت شاقہ اور بھوک وافلاس آخر اپنا اثر دکھا کر گئی، لیکن وہ وفا کی پیکر اُس وقت وفات پاتی ہیں جب دعوت اسلام پورے عرب میں ایک روٹین پر چل نکلتی ہے۔ اگلے تیرہ برس میں دعوت اسلامی کے ثمرات نکلنے تھے۔ مکہ کے کئی بااثر افراد ایمان لا چکے تھے، نبی علیہ السلام کے ساتھ صحابہ کرام کا ایک مضبوط جتھہ وجود پا گیا تھا۔ جب حضرت خدیجہ جنت میں اپنے موتی محل کو چل دیتی ہیں تو زمین پر بھی ان کی باغبانی سے ایک گلستان سربسر پھیل رہا ہوتا ہے۔ مگر اللہ کو یہی پسند تھا کہ دُنیا کی سب سے افضل عورت کی ضیافت ارضی نہیں سماوی گلستان میں ہو۔

ہجرت سے تین برس قبل یکے بعد دیگرے ابو طالب اور حضرت خدیجہ کا انتقال ہوتا ہے۔ اگرچہ آپ نے اِس سال کو عام الحزن کہا تھا، مگر اس سے یہ مراد نہیں کہ آپ نے پورے سال میں سوگ منانے کا اعلان کیا تھا۔ عام الحزن کہنے سے مراد ہے کہ نبوت کے دسویں سال آپ کو دو صدمے اٹھانے پڑے۔ ایک ابوطالب کی وفات کا صدمہ اور دوسرا ایک ماہ بعد حضرت خدیجہ کے انتقال کا صدمہ جو پہلے سے بڑھ کر جاں گسل تھا۔

یہ ہیں پہلی مسلم شخصیت، عفت مآب، اعلیٰ نسب، علم سے بہرہ مند، تجارت میں سود مند، بلند کردار، پاکیزہ افکار، سلیم الفطرت، سماجی حیثیت میں معزز تر۔

اسلام اتنا ہی عظیم ہے کہ اس میں داخل ہونے والے افراد حضرت خدیجہ جیسے اخلاق کے مالک ہوں۔

کوتاہ بیں، ڈرپوک، جلد ثمرات لینے والے، مال وزر کو سینت سینت کر رکھنے والے، موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کو شک سے دیکھنے والے اسلام کی بلندی کو نہیں پانے والے۔

رضی اللّٰہ عنھم ورضواعنہ

Followers